چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جارہی ہے لیکن وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جاسکتا ہے۔ سترہویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی، انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انہیں کے ذریعے ہوا، اس لیے یہ بدعتِ سیّئہ یہاں بھی پھیل گئی۔ رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی جگہ دودھ میں چائے ڈالنے لگے۔
وقت وہی ہے مگر افسوس! وہ چائے نہیں ہے جو طبعِ شورش پسند کو سرمستیوں کی اور فکرِ عالَمِ آشوب کو آسودگیوں کی دعوت دیا کرتی تھی۔ وہ چینی چائے جس کا عادی تھا، کئی دن ہوئے ختم ہوگئی اور احمد نگر اور پونا کے بازاروں میں کوئی اس جنس گراں مایہ سے آشنا نہیں، مجبوراً ہندوستان کی اسی سیاہ پتّی کا جوشاندہ پی رہا ہوں جسے تعبیر و تسمیہ کے اس قاعدے کے بموجب لوگ چائے کے نام سے پُکارتے ہیں اور دودھ ڈال کر اس کا گرم شربت بنایا کرتے ہیں۔
چائے کے باب میں ابنائے زمانہ سے میرا اختلاف صرف شاخوں اور پتّوں کے معاملہ ہی میں نہیں ہوا کہ مفاہمت کی صورت نکل سکتی بلکہ سرے سے جڑ میں ہوا یعنی اختلاف فرع کا نہیں، اصل الاصول کا ہے۔ سب سے پہلا سوال چائے کے بارے میں خود چائے کا پیدا ہوتا ہے۔ میں چائے کو چائے کے لیے پیتا ہوں، لوگ شَکَر اور دودھ کے لیے پیتے ہیں۔ میرے لیے وہ مقاصد میں داخل ہوئی، اُن کے لیے وسائل میں۔ غور فرمائیے! میرا رُخ کس طرف ہے اور زمانہ کدھر جارہا ہے؟
( مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب “غُبارِ خاطر” سے اقتباس )