پاکستان میں گزشتہ دو ماہ نظام اور اس کے محافظ طبقوں کو سمجھنے کے لیے بہت اہم تھے حکومت کی تبدیلی کے بعد ان کے پے در پے فیصلے جیساکہ نیب قوانین میں ترمیم ، نیب اور ایف آئی اے میں تبادلے،سابقہ حکومت کے سروسز رولز کا خاتمہ،موجودہ حکومت کے سابقہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ساتھی اور اپنی پارٹی سے منحرف اراکین پر مشتمل اپوزیشن کھڑی کرنا، آئی ایم ایف کے دباؤ پر بجلی اور پٹرول مہنگا کرنا وغیرہ وغیرہ۔
حالانکہ عالمی منڈی میں جمعرات کے روز تیل کی قیمتیں گرگئیں تھیں، اسی طرح گزشتہ ہفتے انڈیا نے اپنے ہاں پٹرول 25 روپے اور ڈیزل کی 18 روپے قیمت گرادی تھی اس کی وجہ روس سے سستے تیل کی خریداری یا کچھ بھی ہوسکتی ہے۔
لیکن اس سب کچھ کے برعکس ہماری حکومت نے گزشتہ 7روز میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ساٹھ روپے تک کا اضافہ کیا ہے۔ یعنی 26 مئی کو ملکی تاریخ میں پہلی بار پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 30 روپے فی لٹر کے بڑے اضافے کا اعلان کیا اور دوسرے اضافے کا گزشتہ روز 3جون کو اسی طرح 30 روپے کا اضافہ کیا جو کل ملا کر 60 روپے ہوگیا ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں میں اضافے کے باوجود پٹرول پر اب بھی 9.32 روپے، ڈیزل پر 23.05روپے کی عمران حکومت کی سبسڈی برقرار ہے،اس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت کو سبسڈی ختم کرنے کے لیے ایک بار اور یعنی تیسری دفعہ پٹرول کی قیمت میں 9.32 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 23.05 مزید اضافہ کرنا پڑے گا،کیوں کہ حکومت کی اصل مالک اور آقا آئی ایم ایف سرکار نے قرض کو حکومت کی جانب سے سبسڈی کی مکمل واپسی سے منسلک کر رکھا ہے اسی لئے عوام کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئےحکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ابھی مزید بڑھائے گی۔
اس کے علاوہ معیشتوں کی درجہ بندی کرنے والے عالمی ادارے نے پاکستان کے آؤٹ لک یعنی مستقبل کے معاشی منظر نامےکو مستحکم سے منفی کردیا ہے۔اس ادارے نے پاکستان کی مقامی اور غیر ملکی کرنسی کی صورت حال کو غیر مستحکم قرار دیتے ہوئے ،پاکستان کی ریٹنگ B-3 رکھی ہے۔
دوسری طرف حکومت چین سے نیا قرضہ لینے جارہی ہے حالانکہ 25مارچ کو چین نے2.3 ارب ڈالر کا قرض پاکستان سے واپس لے لیا تھا کیونکہ چین نےکافی شرائط عائد کر دی تھیں اور شرح سود بھی بڑھا دی تھی۔
نئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے چین جانے پر معاملات پر دوبارہ بات چیت شروع ہوئی جنہیں وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کےموقع پر فائنل کیا گیا اور حکومت چین سے اس نئے قرض پر1.5 فیصد کی شرح سود پر بات چیت فائنل ہونے کے امکانات ہیں۔
قرضے لے کر قرضہ ادا کرنا یا قرضے سے جاری بحران کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنا یہ سب عارضی حربے ہوتے ہیں اس سے معاشی سدھار میں کوئی جوہری تبدیل نہیں لائی جاسکتی ہماری حکومتوں کے پاس آخری حل قرضوں کی مے ہوتا ہے لیکن وہ سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے نکلنے کی کسی تدبیر پر غور کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ حکومتوں کی تبدیلی اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ یہ گھن چکر ایسے ہی چلتا رہتا ہے عوام نئی حکومتوں سے اپنے معاشی مسائل حل کرنے کی توقع لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جب کہ نئی حکومت پرانی حکومت کے مقابلے میں نہلے پر دھلا ثابت ہوتی ہے اس لیے آج نظام کے اصل چہرے کو پہچاننے کی ضرورت ہے تاکہ اس سے بے جا توقعات نہ لگائی جائیں۔
2 Comments
مہنگائی بے قابو ہوگئی ہے موجودہ اور سابقہ حکمران نااہلی کے الزامات ایک دوسرے پر لگارہے ہیں۔عوام کا معیار زندگی بہتر اور بلند کرنے کے لئے کوئی پروگرام نہیں۔
آپ نے بالکل درست کہا ! یہی حقیقی صورت حال ہے۔