’’ ذہن جنت کو جہنم اور جہنم کو جنت بنا سکتا ہے ۔‘‘ (جان ملٹن)
اصولی طور پر لو گوں کی دو اقسام ہوتی ہیں: مثبت شخصیات ( ہر حال میں پُر امید رہنے والے optimists) منفی شخصیات (ہر حال میں نااُمید رہنے والے pessimists)۔
جن لوگوں کے خیالات مثبت ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ زندگی کے زیادہ روشن پہلو دیکھتے ہیں۔ وہ بُرے حالات میں بھی سورج کی روشنی کی طرف دیکھتے ہوئے اچھائی اور خیر (good) دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مثبت قسم کی باتیں سوچنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ لوگ دنیا کے لیے رحمت ہوتے ہیں۔ یہ ’’ مثبت ارتعاش ‘‘ میں ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے مثبت شخصیات کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
اس کے برخلاف منفی شخصیات کو زندگی کے تاریک، اُداس اور مایوس کر دینے والے پہلو دیکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے اچھائی اور خیر میں بھی ان کے لیے کوئی نہ کوئی بُرائی اور شر موجود ہوتا ہے۔ وہ بُرے اور منفی پر دھیان جمائے رکھتے ہیں۔ وہ اسی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اسی کی توقع کرتے ہیں۔ انہیں ہر صورت میں وہی ملتا ہے، جسے وہ ڈھونڈتے ہیں۔ وہ جس منفی ارتعاش میں اپنے آپ کو رکھتے ہیں ، اس کی وجہ سے بلاشبہ نہایت بُرے حال والی اور مصیبت زدہ شخصیات کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ’’ مصیبت تنہا نہیں آتی ۔‘‘
ان کی ذہنی حالت اس شخص جیسی ہوتی ہے جس نے حال پوچھے جانے پر جواب دیا تھا۔’’ آج تو میرا حال اچھا ہے لیکن کل بُرا ہو سکتا ہے ۔‘‘
منفی شخصیات اپنے اردگرد موجود لوگوں کو مایوس اور نا اُمید کرتی رہتی ہیں ۔انہوں نے اپنے ذہنوں میں جو منفی خیالات برقرار رکھے ہوتے ہیں ، وہ طبیعی صورت اختیار کرتے ہوئے ان کے چہروں سے عیاں ہونے لگتے ہیں۔ آپ ایسے افراد کوہر روز سڑک پر یا گلی میں اپنے پاس سے گزرتا دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے وجود سے خوشی کی بجائے اُداسی جھلکتی ہے ، ان کے ماتھوں پر بل پڑے ہوتے ہیں اور چہروں سے نفرت و عداوت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ وہ اپنا جہنم اپنے آپ بنا کر اس میں پڑے رہتے ہیں۔
قطبیت کا قانون (law of polarity) اور اضافیت کا قانون (law of relativity) بتاتے ہیں کہ ہر مثبت کا اس کے برعکس اور اس کے برابر کا منفی ہوتا ہے۔ چنانچہ دونوںاقسام کی شخصیات کا ہونا ضروری ہے تاکہ آپ ایک کو دوسری سے مختلف ہونے کی وجہ سے انہیں پہچان سکیں اور اس شخصیت کا چنائو کر سکیں جو آپ کی زندگی کو ترقی دے۔
بے شک آپ آزاد ارادے کے مالک ہیں۔آپ ان دونوں اقسام کی شخصیات میں سے اپنی مرضی کی شخصیت چُن سکتے ہیں۔ چنانچہ اگر ایک شخص مستقل طور پر منفی ہے لیکن اس حالت سے تنگ آ چکا ہے تو وہ آگاہی اور مناسب کوشش سے اپنے آپ میں تبدیلی لا کر مثبت شخصیت والا فرد بن سکتا ہے۔
یہ بات سمجھیں…..ارتعاش کا قانون لوگوں کو وہ آگاہی دے گا جو انہیں اپنی خواہش کے مطابق تبدیلی لانے کے لیے درکار ہے۔
دماغ …..جسم :
آپ یقین کریں یا نہیں،انسانی جسم پوری کائنات کا سب سے زیادہ کارآمد برقی آلہ ہے۔ اسی طرح انسانی دماغ (brain) بھی شاید سب سے زیادہ کارگر برقی آلہ ہے۔ دونوں حقیقتاً معجزہ ہیں۔
دماغ جسم کا وہ حصہ ہے جہاں تعددات (frequencies) کو ایک درجے سے دوسرے درجے میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دماغ میں سنسناہٹوں کو پٹھوں کے عمل میں تبدیل کر دیا جاتا ہے ۔ آواز، گرمی، روشنی اور خیال کو بھی دوسرے تعددات میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور ان میں سے ہرتعدد جسم پر اثر ڈالتا ہے۔
جسم کے ہر عضو اور ہر حصے کے کاموں کو کنٹرول اور منظم کرنے والے مراکز دماغ میں ہوتے ہیں۔ ان مراکز کو موزوں طریقے سے تحریک دے کر اعضا کے کاموں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ہم اپنے سیمیناروں میں اس مظہر (phenomenon) کو ’’ جسم پر ارتعاش کے ذریعے کنٹرول کرنا ‘‘ کہتے ہیں۔
آخری تجزیے میں دماغ ایک ارتعاشی آلہ ہے۔ اس کے کام کرنے کا طریقہ سمجھنے کے لیے آپ کو ارتعاش کے قانون کا مطالعہ کرنا ہو گا۔
1940ء کی دہائی کے شروع سے ای ای جی (electroencephalograph)، جو دماغ کی برقی سرگرمی پڑھتا ہے اور ای سی جی (electrocardiograph)، جو دل کے پھیلنے اور سکڑنے کے دوران وقوع پذیر ہونے والی برقی تبدیلیوں کا سراغ لگاتا ہے، ہمارے پاس موجود ہیں۔
چنانچہ ارتعاش ہمارے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ہم سب اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ بہ ہرحال ہمارے سامنے موجود مسئلہ یہ ہے کہ وسیع اکثریت میں لوگ ارتعاشات (vibrations) اور زندگی میں ان کے نتائج کے درمیان تعلق کے بارے میں نہیں جانتے۔
بدقسمتی سے یہ چیز عام دیکھی جا سکتی ہے کہ بُرے یا اُلجھے ہوئے ارتعاشات والے لوگ قوت کے ذریعے اچھے نتائج حاصل کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ جس منفی ارتعاش میں ہوتے ہیں اس کی وجہ سے ہر قسم کے منفی لوگوں اور منفی صورت ہائے حال (situations) کی مسلسل بم باری کا نشانہ بنے رہتے ہیں، جو کشش کے قانون کے تحت ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ نتیجتاً ایک مقام ایسا آتا ہے کہ ان کی یہ شدید کش مکش انہیں انتہائی بے بسی کا شکار بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو سب سے اونچے مقام پر پہنچنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں اور کسی بلند ترین عمارت کی سب سے اونچی منزل سے نیچے چھلانگ بھی لگا دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہر کسی کو صاف صاف معلوم ہے۔