آج دنیا کے گوشہ گوشہ میں جو ایک تاریخی یادگار منائی جارہی ہے اور جس کو ہم ”عید قرباں“ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ تاریخ عالم کا اہم واقعہ اور قربانی و جاں سپاری کی ایک بے مثال یادگار ہے۔
دنیا میں جو انسان بھی کسی بلند اور پاکیزہ مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے امتحان و آزمائش کی سخت سے سخت اور کٹھن سے کٹھن منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔پھر اگر اس کے دل میں مقصد کے حصول کی سچی آرزو اور لگن ہوتی ہے، اور وہ امتحان و آزمائش کی منزلوں میں من کا سچا اور لگن کا پکا ثابت ہوتا ہے تو پھر کامیابی کی راہیں اس کے لیے کھل جاتی ہیں۔ اوروہ اپنے اعلیٰ مقصد کوپالیتا ہے۔
خدا کے پیغمبر اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام جس مقصد اور مشن کو لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ وہ انسانی مقاصد میں سب سے اونچا اور پاک مقصد ہوتا ہے وہ زمین پر بسنے والے ہر انسان کو تباہی وگمراہی سے ہٹا کر سچائی اور خدا پرستی کی طرف بلاتے ہیں۔ ان کے ساتھ خدا کا پیغام ہوتا ہے، اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں چاہتے کہ زمین پر بسنے والے انسان خدا کے بھیجے ہوئے اس ”نظام حیات“ یا ”دین“ کو اختیار کریں جس سے دنیا میں امن وسکون پیدا ہو، ظلم وناانصافی کا نام ونشان تک مٹ جائے، سچائی کا بول بالا ہو، باطل پرستی کا خاتمہ ہوجائے اور امن وانصاف کے ہمہ گیر سائے میں خدا کی تمام مخلوق کو چین اور خوشحالی کی زندگی نصیب ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دنیا میں کوئی پیغمبر خدا کی طرف سے اس پاکیزہ مشن کو لے کر آیا ہے۔ اور اس نے خدا کو بھولے ہوئے، سچائی کے راستہ سے بھٹکے ہوئے، انسانوں کو حق پرستی کی دعوت دی ہے تو یکبارگی کفر وضلالت کی تمام سرکش طاقتیں اس ”دعوت حق“ کے مقابلہ کے لیے سامنے آگئی ہیں۔ اور انہوں نے بنی نوع انسان کو پیغام خداوندی سے غافل رکھنے کے لیے اپنی تمام قوتیں صرف کردی ہیں۔
قرآن حکیم کے صفحات کھلے ہوئے ہیں۔ آپ تمام پیغمبروں کے حالات و واقعات کو دیکھ جائیے۔ واقعات کی نوعیت مختلف رہی، لیکن ان سب کی روح ایک ہی تھی۔ اور وہ یہ کہ جب کسی ”داعی حق“ نے خلوص ومحبت سچائی اور دردمندی کے ساتھ کسی قوم کو حق پرستی کی دعوت دی تو اس قوم کی اکثریت نے اس ”دعوت“ کا جواب تمرد سرکشی بہتان تراشی اور گالیوں ہی سے دیا۔ خدا کے ان سچے پیغمبروں کو مجنوں اور دیوانہ کہا۔ کاہن اور جادوگر بتلایا ان کو سخت سے سخت ایذائیں پہنچائیں۔ ان کا مقاطعہ اور سوشل بائیکاٹ کیا اور ان کے راستہ میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کیے۔ غرضیکہ ان کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے اپنی تمام قوتیں صرف کردیں۔ لیکن انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام عزم وثبات کے پیکر ہوتے ہیں ان کے ساتھ صبر واستقلال کا وہ جوہر ہوتا ہے جو کسی بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی شکست نہیں کھا سکتا اور کٹھن سے کٹھن آزمائش بھی ان کے لیے ہمت شکن نہیں ہوتی، اس لیے کہ ان کو رسالت ونبوت کا منصب جلیل تب ہی عطا کیا جاتا ہے جبکہ پہلے ان کے عزم واستقلال کو آزمائش و امتحان کی ہر ترازو میں تول لیا جاتا، اور ان کے جذبہ حق پرستی کو ہر کسوٹی پر پرکھ لیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ بھی خدا کے ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ انہیں نبوت و پیغمبری کا اعلیٰ منصب دیا گیا تھا اس لیے انہیں بھی ابتلاء و آزمائش کی کٹھن اور دشوار گزار منزلوں سے گزرنا تھا۔ اور قدم قدم پر اپنے جذبہ تسلیم وجاں سپاری کا امتحان دینا تھا۔ چنانچہ سخت سے سخت آزمائشوں کے ذریعہ کو جانچا گیا لیکن وہ ہر امتحان میں کامیاب اور قربانی کی ہر کسوٹی پر کھرے اور کندن ثابت ہوئے۔
سب سے پہلے جب ان کی ”دعوت حق پرستی“ سے تنگ آکر حاکم وقت ”نمرود“ نے ان کو آگ کے دہکتے ہوئے شعلوں میں ڈلوایا اور کہا کہ اب بھی اگر تم اپنے اس مشن سے باز آجائو تو تمہیں بچایا اور معاف کیا جاسکتا ہے۔ تو وہ عزم و استقلال کی ایک کڑی آزمائش تھی ۔ لیکن اس موقع پر انہوں نے جس عزم واستقامت اور صبر واستقلال کا ثبوت دیا وہ صرف حضرت ابراہیمؑ کا حصہ تھا۔
پھر جب حضرت اسماعیل اور حضرت حاجرہ کو فاران کے لق دوق جنگل میں چھوڑ آنے کا حکم دیا گیا اور جانچا گیا کہ بیوی اور اکلوتا بچہ زیادہ عزیز ہے یا حکم خداوندی کی تعمیل! تو یہ بھی ان کے جذبہ تسلیم ورضا کا کوئی معمولی امتحان نہ تھا۔ لیکن خدا کا سچا پیغمبر اس امتحان میں بھی کامیاب ثابت ہوا۔ بڑھاپے کے ارمانوں اور خوشیوں کے مرکز، دن رات کی دعائوں کے ثمر اور گھر کے اکلوتے چشم وچراغ حضرت اسماعیل ؑ کو صرف حکم الٰہی کی تعمیل میں ایک لق ودق جنگل میں چھوڑ آتے ہیں، اس طرح کہ چلتے وقت مڑ کر بھی نہیں دیکھتے کہ کہیں محبت پدری جوش میں نہ آجائے اور تعمیل حکم میں کوئی لغزش نہ ہوجائے۔
ان کٹھن منزلوں سے کامیاب گزر جانے کے بعد اب تیسرا امتحان درپیش ہے جو پہلے امتحانوں سے بھی زیادہ سخت اور حوصلہ آزما امتحان ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ ایک سچے خواب میں دیکھتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ ان کو حکم دے رہا ہے کہ ابراہیم! تم ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی پیش کرو۔ حکم پاتے ہی اٹھتے ہیں اور فوراً تعمیل حکم کے لیے نکل جاتے ہیں۔ سعادت مند بیٹا بھی تسلیم ورضا کا پیکر بن کر لیٹ جاتا ہے اور حضرت ابراہیمؑ چھری سے اس کو ذبح کرنے لگتے ہیں کہ یکایک خدا کی طرف سے وحی آتی ہے۔ ابراہیم! بس! اس کو چھوڑ دو! اور دیکھو! تمہارے قریب مینڈھا کھڑا ہے اس کو قربان کرو۔ ہمیں اسماعیل کی جسمانی قربانی درکار نہیں،یہ محض تمہارے جذبہ تسلیم و رضا کا امتحان تھا، جس میں تم کامیاب ثابت ہوئے۔
جاؤ! حق پرستی اورعزم وثبات کی راہ میں تمہاری یہ کٹھن آزمائش رہتی دنیا تک قربانی وجاں سپاری کی ایک یادگار رہے گی۔ جو ہر سال لوٹ لوٹ کر، سچائی کی طرف آنے والوں کو یہ یاد دلائے گی کہ سچائی کی راہ امتحان و آزمائش کی راہ ہے۔
یہی وہ قربانی ہے جو خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہوئی کہ بطور یادگار ملت ابراہیمی کا شعار قرار پائی اور آج بھی دسویں تاریخ ماہ ذی الحجہ کو تمام دنیائے اسلام میں یہ شعار اس طرح منایا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ دنیا میں جو انسان بھی حق وصداقت کی راہ پر چلتا ہے اسے کڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے اور سچائی کی منزل تک پہنچنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے قربانی ہی وہ کسوٹی ہے جس سے سچ اور جھوٹ، یا کھرے اورکھوٹے کی کھلی پہچان ہوجاتی ہے۔