قربانی کی ابتدا، حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دو بیٹوں ہابیل و قابیل کی جانب سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے حلال جانور کو ذبح کرنے سے ہوئی۔ یہ سب سے پہلی قربانی تھی، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یوں کیا ہے: ’’آپ ان اہل کتاب کو آدم ؑکے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر سنا دیجیے، جب اُن میں سے ہر ایک نے اللہ کے حضور کچھ نیاز پیش کی تو اُن میں سے ایک کی مقبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔‘‘ مفسرین کے مطابق ہابیل نے مینڈھے کی قربانی، جب کہ قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلے کے صدقے کو قربانی کے طور پر پیش کیا۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق آسمانی آگ نے ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، جب کہ قابیل کی پیش کی گئی قربانی کو چھوڑ دیا۔ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی مروّج ہے اور یہ ہر ملت میں تسلیم کی گئی ہے۔ البتہ اس کی خاص شان اور وقار حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ و السلام کے واقعے سے ہوئی۔ اور آج تک ہم اس مبارک عمل کو ان کی اتباع میں قائم رکھے ہوئے ہیں۔
عید الاضحی کا دن حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی قربانی کی یاد ہمارے دلوں میں تازہ کردیتا ہے۔ اور ان کی یاد ہمیں قربانی، ایثار، خلوص اور اپنی قیمتی ترین چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے پر آمادہ کیے دیتی ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کی خوشنودی اور اطاعت کو اپنا مقصد ِعظیم بناتے ہوئے، بغیر کسی ذاتی خواہش اور نمودونمائش کے اپنی ذات کی قربانی پیش کی۔ ان کا یہ اُسوہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے کہ ہم قربانی کے اس عمل کو خواہش نفس اور کسی بھی طرح کے ذاتی مفاد سے آلودہ نہ ہونے دیں اور اپنے نفس کے تزکیے پر توجہ مرکوز رکھیں۔
قربانی کا عمل ہمارے اندر ایک ایسا جذ بہ پیدا کرنے کا موجب ہے، جس میں انسان ہر طرح کے شخصی مفاد سے بالاتر ہوکر اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ملک، قوم، انسانیت اور اجتماعیت کے لیے بے لوث کردار ادا کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جانور کو ذبح کرنے سے اسی خُو اور عادت کو پختہ کرنا مقصود ہے۔ اپنے قیمتی اندوختے سے خریدے ہوئے جانور کی قربانی دراصل اپنے مال، مفاد، خواہش، رسومات اور تعصبات کو ترک کرنے کی قربانی ہوتی ہے۔ ایسا جانور قربان کرکے در اصل مسلمان اس بات کا اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان، مال، خواہشات اور اپنی صلاحیتوں کو ضرورت پڑنے پر اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ کیوں کہ اللہ کے ہاں ہمارے جانوروں کے گوشت پوست کے بجائے ہمارا جذبۂ عمل، نیت اور ہدف ہی پیش ہوتا ہے کہ ہم اس عمل میں کتنے مخلص اور بے لوث ہیں۔ اس سارے عمل میں اہم ترین قربانی کا مقصد اور فلسفہ ہی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کے اہداف ومقاصد کا شعور رکھتے ہوئے اس عمل کو سر انجام دیا کریں۔
لیکن آج کل تو مسلمانوں نے اس عمل کی حرمت اور تقدس کو ایسا پامال کررکھا ہے کہ بس رہے نام اللہ کا!. ہر سال گزرنے والی عید ِقربان پر کچھ ایسے منفی رویوں کا مشاہدہ ہوتا ہے جس سے یہ بات بہ خوبی باور ہوتی ہے کہ قربانی کا بنیادی فلسفہ اور ہمارے رویے آپس میں سو فیصد متصادم ہوتے ہیں جس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قربانی کی جاتی ہے ہم اسی ھدف اور مقصد کو اپنے عمل سے جھٹلا رہے ہوتے ہیں ۔
کہیں مال منڈیوں میں ماڈل دوشیزاؤں کے ہاتھ میں قربانی کے جانور دے کر کیٹ واک (Cat Walk) کروائی جاتی ہے.
اور کسی جگہ قربانی کے جانوروں کا مقابلہ حسن منعقد کروا کر اپنے جذبۂ نمود و نمائش کی پیاس بجھائی جاتی ہے ۔
کہیں گلی محلوں میں جانوروں کو چکر لگوا کر اپنی دولت مندی کے احساسِ تفاخر کا اظہار کیاجاتا ہے.
قربانی کا عمل ہمارے ہاں ایک مذہبی فریضے سے ہٹ کر دکھاوے پر مبنی ایک سماجی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ خداکی رضا اور تزکیۂ نفس کے بجائے خاندان اور اہل محلہ میں وقار قائم رکھنے کے لیے ہمارے گھر کے کھونٹے کے ساتھ بکرا یا بچھڑا بندھا ہونا ایک لازمی امر بن چکا ہے۔
خدا کی مخلوق پر ایک پائی خرچ نہ کرنے والے 20، 20 لاکھ کے جانور خداکے نام پر ذبح کرکے اپنے مسلمان ہونے پر مہر ثبت کر رہے ہوتے ہیں. اگر ان سے کہا جائے کہ بیس لاکھ میں سے پچیس ہزار (25,000/-) کا ایک بکرا قربان کرکے باقی اُنیس لاکھ پچھتر ہزار (19,75,000/-) روپے کسی غریب خاندان، کسی کی تعلیم، بے سہارا بچیوں کے گھر آباد کرنے پر صَرف کریں یا کسی مقروض کی مشکل آسان کردیں تو شاید ایسا مشورہ دینے والا اپنے ایمان اورجان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال بیٹھے۔
ایسے ہی منفی رویوں کی ایک شکل یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت میں نت نئے دھوکے اور فراڈ سامنے آ تے رہتے ہیں۔ بس الامان والحفیظ؛ کھیرے کو دوندا اور دوندے کو چؤگا کرکے فروخت کیا جاتا ہے
۔ دانت لگانے اورنکالنے کے لیے ماہر ڈینٹسٹ میدان میں اتارے جاتے ہیں۔
جانوروں کو مصنوعی طور پر موٹا تازہ اور صحت مند دکھانے کے لیے ادویات اور انجیکشنز کا استعمال کرکے قربانی کے جانوروں کو زہرآلود کیا جاتا ہے۔
قربانی کے جانور چوری ہونے کی خبر اور کہیں قربانی کے لیے اے ٹی ایم سے رقم نکلواتا ہوا آ دمی لُٹ جاتا ہے۔
قصاب جانوروں کے بجائے زیادہ ریٹ لے کر مالکان کی ’قربانی‘ لینے کے درپے ہوتے ہیں۔
کہیں قربانی کرکے فریزر بھر لیے جاتے ہیں اور غریبوں کے اس حق پر کئی ماہ تک تکہ و کباب، نہاری اور حلیم کا شوق پورا کیا جاتا ہے اور قربانی کا گوشت صرف آمنے سامنے والے گھرایک دوسرے کو بجھواتے ہیں اور غریبوں کو نظرانداز کرکے خاندان کے ہم پلہ لوگ ہی آپس میں قربانی کے گوشت کی دعوتیں اڑاتے ہوئے بھوک سے خودکشیاں کرنے والے خاندانوں کا ’’نوحہ‘‘ پڑھتے ہیں۔
قربانی جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے بعد ہمارے کوچہ و بازار سے تعفن وبدبو کے بھبکے اٹھ رہے ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قربانی، سماجی اور قومی ذمہ داری کو قبول کرنے اور اُسے احسن طریقے سے سرانجام دینے کی تربیت کا نام ہے۔ مگر ایک ہم ہیں کہ ہم اس کی روح، فلسفے، مقصد اور نتائج کو نظرانداز کرتے ہوئے محض ایک رسم ادا کرنے کے خوگر ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قربانی کے اس فریضے کو اس کے تمام تر تقاضوں کے ساتھ سرانجام دیا جائے، تب ہی ہم اللہ کی رضا اور خوشنودی کے مستحق ٹھہریں گے۔ ورنہ اس پاکیزہ عمل کی بے حرمتی و تذلیل کی سزا بھی اتنی ہی سخت ہے۔ اللہ اس سے بچائے۔