مولوی سید ممتاز علی 1862ء میں سید ذوالفقارعلی کے ہاں پیدا ہوئے۔اردو، عربی کی تعلیم اپنے آبائی شہردیوبند میں گھر پر ہی حاصل کی۔ مولوی صاحب عربی ، فارسی اور اردو میں پوری دسترس رکھنے کے علاوہ انگریزی بھی خوب جانتے تھے۔
اور طبیعت میں تحقیق و تجسس کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ مولوی سید ممتازعلی کا خیال تھا کہ ماں چوں کہ بچے کی تعلیم و تربیت کا سرچشمہ ہوتی ہے، اس لیے لڑکیوں کو بہترین تعلیم دی جانی چاہیے۔ تاکہ آئندہ نسلیں ان کی گود میں پل کر تعلیم و تہذیب سے بہرہ اندوز ہوسکیں۔ چناں چہ انہوں نے لڑکیوں کے لیے ’’تہذیب نسواں‘‘ (رسالہ ) جاری کیا اور اپنی بعض عزیزات سے اس میں مضامین بھی لکھوائے۔
تو اس تاریکی اور جہالت کے زمانے میں ہر طرف شور مچ گیا اور مولوی صاحب کے نام گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آنے لگے۔اس وقت بڑے بڑے مدعیان روشن خیالی بھی عورتوں میں تعلیم وتربیت پھیلانے کی تحریک کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب مولوی صاحب نے اپنی مشہور کتاب ’’حقوق نسواں‘‘ لکھی تو اس کا مسودہ لے کر وہ سرسید (مرحوم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، تا کہ ذرا ان کو بھی دکھا لیں۔
سرسید (مرحوم) اس مسودے کو جستہ جستہ مقامات سے دیکھنے لگے، لیکن مولوی صاحب نے دیکھا کہ غصے سے سر سید صاحب (مرحوم) کا رنگ متغیر ہوتا جا تا ہے۔آخر کار سرسید (مرحوم) نے اس مسودے کو چاک کر کے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
اور کہا: ممتازعلی ! ہماری حکومت چھن گئی ، ہماری تہذ یب مٹ گئی ، اب کیا ہماری عورتیں بھی ہمارے قبضے سے نکل جائیں گی؟
مولوی صاحب نے بہتیرا کہا کہ میں نے اس کتاب کی تحریر میں شریعت مقدسہ کی حدود سے ذرا بھی تجاوز نہیں کیا لیکن سرسید (مرحوم)کا مزاج رو بہ راہ نہ ہوا اور مولوی صاحب ناچار اپنے مسودے کے ٹکڑے ردی کی ٹوکری میں سے اٹھا کر واپس چلے آئے۔
آج اس کتاب کو پڑھیے تو تعجب ہوتا ہے کہ اس میں وہ کون سی بات تھی ، جس میں سرسید (مرحوم)جیسے روشن خیال اور تجدد پسند شخص کو بھی چراغ پا کر دیا۔
آپ کو پتہ ہے کہ یہ بزرگ مولوی سید ممتاز علی کون تھے؟ مولانا عبدالمجید سالک ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولوی صاحب علم دین سے بہرہ ور تھے اور دیوبند ان کا وطن ہی نہ تھا، بلکہ وہ اکابرین دیوبند سے فیض یاب بھی تھے۔ حضرت شیخ الہند مولانامحمودحسنؒ سے ان کا مخلصانہ تعلق تھا‘‘۔
( یاران کہن ص 43 از: مولانا عبد المجید سالک)
یہ واقعہ آج کے نام نہادتجدد پسند حلقوں کے لیے خصوصی توجہ کا مستحق ہے، جو سرسید (مرحوم) اور علی گڑھ کو جدت کا نمائندہ اور دیو بند کو رجعت پسندی اور پرانے خیال کی نمائندہ تحریک خیال کرتے ہیں۔