لینن کی وفات پر مولانا غلام رسول مہر کی تعزیتی تحریر
روس کے جلیل القدر رہنما نکولائی لینن کی انتقال کی خبر اب پے در پے پیغامات برقی سے مصدق (تصدیق شدہ ) ہوچکی ہے۔ اور بظاہر کوئی وجہ نہیں کہ اس پر یقین نہ کرلیا جائے۔لینن کی صحت گزشتہ دو سال سے خراب چلی آرہی تھی اور بارہا ایسی اطلاعات سننے میں آئیں جن سے اہل عالم کو اس عظیم الشان ہستی کی موت کا خطرہ لاحق ہوا جاتا تھا۔
بہرکیف اب کہ یہ شخصیت دنیا میں نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کی یاد اور اس کے تذکار کی محفل آراستہ کریں۔ اور اپنے قارئین کرام کو بتائیں کہ جس شخص کو ہمیشہ مخالفین نے بدنام کرنے کی کوشش کی وہ اپنی عالی دماغی اپنی غیرت و حمیت اپنے عزم واستقلال اور اپنی بے نفسی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین ہستیوں میں سے تھا۔
لینن ۱۰ اپریل ۱۸۷۰ء (1870) کو دریائے والگا کے کنارے سمبرسک کے صوبہ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ زمیندار تھا۔ اور اپنی محنت و ثابت قدمی سے حکومت کی کونسل کا رکن بن گیا تھا۔ اس کے مشاغل زیادہ تر تعلیمی تھے۔ اس لیے اسے مزدوروں اور کسانوں میں تعلیم پھیلانے کا بہت موقع ملتا تھا۔ لینن کی پرورش ایسے حالات میں ہوئی کہ تمام ملک زار روس کے ظلم واستبداد سے شدید مصائب میں مبتلا تھا اور ذلت وغلامی کی نحوست کروڑوں باشندگان روس پر چھا رہی تھی۔
لینن کا بھائی الیگزینڈر ایک انقلابی انجمن کا رکن تھا۔ زار کی حکومت نے اس انجمن کے ارکان کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا اور ۲۰ مئی ۱۸۸۶ء (20 مئی 1886) کو بہادر اور مستقل مزاج الیگزینڈر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
اگرچہ لینن کی عمر اس وقت سولہ سال کی تھی لیکن ایسے عظیم الشان لوگ اپنے زمانۂ طفلی (بچپن) ہی میں روشن ضمیر اور وسیع الخیال ہوا کرتے ہیں باپ کی صحیح تعلیم و تربیت۔ زار روس کی مستبدانہ حکومت اور بھائی کے پھانسی پر لٹکائے جانے سے لینن کی زندگی پر بہت بڑا اثر پڑا۔ اس نے کارل مارکس کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا اور عقائد اشتراکیت میں ایسی قابلیت بہم پہنچائی کہ جب ۱۸۹۱ء (1891) میں اس نے اسی موضوع پر ایک رسالہ شائع کیا تو مشہور اشتراکی فلسفی پلیخانوف نے کہا کہ ’’یہ نوجوان کسی دن خطرناک ثابت ہوگا‘‘
لینن نے اشتراکیت کی حمایت میں شبانہ روز محنت شروع کی۔ اگرچہ اس نے اپنے بھائی کا طریقہ اختیار نہ کیا لیکن مزدوروں اور کسانوں کو اصول اشتراکیت سمجھانے اور ان کو صحیح تعلیم دینے کے لیے نہایت وسیع پروپیگنڈا شروع کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زار کی حکومت نے ۲۹ جنوری ۱۸۹۷ء ( 29 جنوری 1897) کو اسے مشرقی سائبیریا کی طرف جلا وطن کردیا۔ لیکن زمانۂ جلاوطنی میں بھی اس نے مطالعہ و تصنیف کے مشاغل کو برابر جاری رکھا اور اقتصادیات و اشتراکیات پر مختلف کتابیں لکھیں۔
مدت جلاوطنی کے خاتمے پر لینن شہر میں واپس آیا تو اس پر بہت سی قیود( پابند یاں) عائد کی گئیں جن سے گھبرا کر وہ یورپ کو بھاگ گیا۔ اور میونخ، بروسلز، پیرس، لندن اور جنیوا میں پھرتا رہا۔ بالآخر جنیوا ہی کو اس نے اپنے پروپیگنڈا کا مرکز قرار دیا۔ اور ۱۹۰۵ء ( 1905) تک مختلف انجمنوں کے قیام اور اخباروں کی ادارت میں مصروف رہا۔ ۱۹۰۵ء (1905) میں جب عفو عام ( عام معافی) کا اعلان ہوا تو وہ روس میں واپس آگیا۔ لیکن پھر پولیس نے اس کو چین نہ لینے دیا۔ اس لیے وہ فن لینڈ، سوئٹزرلینڈ اور پیرس میں رہ کر اخبار نویسی کے ذریعہ سے اپنے مقاصد کی نشر واشاعت میں مصروف رہا۔
جنگ عظیم کے آغاز میں لینن آسٹریا میں عمال کو بغاوت پر ابھارنے میں مصروف تھا۔ اس کے بعد وہ سوئٹزرلینڈ آیا۔ اور بین الاقوامی اشتراکیت اور قیام امن کے مقاصد کی تبلیغ کرتا رہا۔ ۱۹۱۷ء (1917) میں جب زار روس کے اقتدار کا سقوط ہوا۔ تو لینن اپنے ساتھ سو (100) انقلاب پسندوں کو لے کر جرمنی کی مدد سے پایۂ تخت روس میں پہنچ گیا۔ جہاں عوام نے اور بری و بحری افواج نے نہایت شان وشوکت سے اس کا استقبال کیا۔ اس کے بعد کے حالات انقلاب روس کے سلسلہ میں قارئین کرام کو معلوم ہیں۔ چونکہ ملک میں زاریت فنا ہوچکی تھی۔ اس لیے سرمایہ دار اور ذی اقتدار لوگ بھی ڈر کے مارے چھپتے پھرتے تھے لینن نے فوج کی تنظیم وترتیب کا انتظام اپنے ہاتھ لیا اور بالآخر سارے روس پر حاوی ہوکر شہنشاہی پسند اور سرمایہ دار عنصر کا نام ونشان تک مٹا دیا۔
ذاتی حیثیت سے لینن عجیب وغریب بالغ نظری اور مستقل مزاجی کا مجسمہ تھا۔ یورپ کے سیاسی مبلغین نے اس کے متعلق جو کچھ غلط فہمیاں پھیلائیں ان سے عوام کو لینن بالکل ایک ظالم اور خونریز ڈاکو اور مغلوب الغضب قاتل نظر آئے گا۔ لیکن جن لوگوں نے اس شخص کے صحیح حالات زندگی پڑھے ہیں انہیں معلوم ہے کہ لینن کی طبیعت میں کس قدر سکون تھا۔ اس کی کسی حرکت سے اضطراب یا چھچھورا پن ظاہر نہ ہوتا تھا۔ اسے کبھی خونریزی کی ہوس نہیں ہوئی وہ نہایت جرأت و استقلال کے ساتھ اپنے بے شماردشمنوں کے سامنے آجاتا تھا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے خوفزدہ نہ کرسکتی تھی۔ اور اس قدر ذی اقتدار اور بے پناہ طاقت و وقوت کا رہنما ہونے کے باوجود وہ بالکل ایک مزدور کی سی سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔ اور اس کی ایسی ہی خوبیوں کی وجہ سے روس کا ایک ایک کسان اس پر جان دینے کے لیے آمادہ رہتا تھا۔
آج دنیا ٹالسٹائی اور کارل مارکس کی جس قدر بھی تعریف کرے اس کا حق ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کے پیش کردہ اصول جب تک کتابوں کے اندر تھے جلوۂ سراب کا حکم رکھتے تھے اور تمام دنیا کہتی تھی کہ یہ اصول ہی اصول ہیں۔ عملی دنیا میں ان کے قیام کا امکان نہیں لیکن لینن نے ان تمام اصول پر عمل کر کے دکھا دیا۔ اور تمام دنیا کی پسماندہ پیشہ ور، مزدور اور مظلوم جماعتوں کو ان کے حقوق کا ایسا احساس دلایا جو قیامت تک فراموش نہیں ہوسکتا۔ اس نے روس میں اشتراکی حکومت قائم کر کے یہ دکھادیا کہ مساوات کا قیام ممکن ہے اور اس کی برکات لاانتہا (بے شمار) ہیں۔
لینن کی زندگی کے حالات سے تمام لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ علی الخصوص (بالخصوص) جو بدقسمت مظلوم لوگ شہنشاہانہ حکومتوں اورسرمایہ دار طاقتوں کی غلامی میں تباہ حال ہورہی ہیں۔ان کو دیکھنا چاہیے کہ الوالعزم لینن نے اپنی نوجوانی میں اپنے بھائی کی نعش زار روس کی سولی پر چڑھی دیکھی۔ اس نے دیکھا کہ گرجاؤں میں بڑے بڑے مقدس پادری اور اسقف کتاب مقدس ہاتھ میں لے کر زار کے درہ اور تلوار کی حکومت کو برکت دے رہے ہیں۔
شریف اور شجاع لینن نے اپنے پاکیزہ دل کے اندر اس ظلم واستبداد کے خلاف شدید نفرت وعناد کے جذبات کی پرورش کی۔ قید خانوں کی کوٹھڑیوں میں رہا۔ سائبیریا کے ویران میدانوں میں زندگی کے دن کاٹے عمر بھر آوارہ وطن رہا اور بالآخر اپنے عزم و حوصلہ کی برکت سے جابرانہ حکومت کا تختہ الٹ کر نہ صرف اپنے ملک سے ان طاقتوں کو تباہ کردیا۔ جو شرف انسانیت اور قدر حریت کی مٹی خراب کررہی تھیں۔ بلکہ تمام دنیا کے کروڑوں مظلوموں میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ آج کون سا ملک ہے جس کے غریب عمال اور کسان لینن کے کارناموں سے جرأت پاکر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد میں مصروف نہیں ہیں؟
آج کون شخص ہے جو شہنشاہی اقتدار اور سرمایہ داری کی لعنتوں سے انتہائی نفرت نہیں کرتا۔ یاد رکھو لینن نے جو بیج روس میں بویا اس کا پھل ساری دنیا کھائے گی بادشاہیاں مٹ رہی ہیں اور رہی سہی مٹ جائیں گی۔
مزدور اپنے حقوق حاصل کررہا ہے اور عنقریب ساری دنیا کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے والا ہے۔ چند سال کے اندر دنیا دیکھے گی کہ ہر جگہ اشتراکی جمہوریتیں قائم ہوں گی۔ اور لینن اعظم کا نام تاریخ عالم میں نہایت عزت واحترام سے درج کیا جائے گا۔
اگرچہ ہمیں بولشویت کے تمام و کمال عقائد سے اتفاق نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے معدے سے سرمایہ داری کے سدوں کا اخراج ایسے ہی زبردست مسہل کا متقاضی تھا۔
ہمیں لینن کے انتقال پر انتہائی رنج وافسوس ہے۔ آج یورپ کی شہنشاہی اور سرمایہ داری کا سب سے بڑا دشمن دنیا سے اٹھ گیا۔ اس کی ذات مظلوم قوموں کے لیے بہت سہارا تھی ہمیں امید ہے کہ اس کے جانشین اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے۔
(31 دسمبر 1924زمیندارکا اداریہ بہ قلم مولانا غلام رسول مہر| بشکریہ امجد سلیم علوی ابن غلام رسول مہر)