پاکستان کے سیاسی میدان کا درجۂ حرارت بہ دستور قائم ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی پوزیشن بدل چکی۔ جو حکومت میں تھے وہ اپوزیشن ہوگئے اور متحدہ اپوزیشن اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ عوامی مفاد میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، بلکہ لا اینڈ آرڈر اور مہنگائی کی صورتِ حال پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوچکی ہے، بلکہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل پر یک مُشت 30 روپے فی لیٹر اضافہ کرکے مہنگائی کی ایک نئی لہر پیدا کردی ہے۔ سابقہ حکومت نے اگر مہنگائی کی بارودی سرنگیں بچھائی تھیں تو موجودہ حکومت نے مہنگائی کی کارپٹ بمباری شروع کردی ہے۔ عوام سیاسی پارٹیوں کے غلامانہ معاشی فیصلوں کے سبب کہیں کے نہیں رہے۔ اس بار کی سیاسی کشمکش نے ایک نئی بحث کا در کھولا ہے کہ آیا پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی میں امریکا کا کوئی کردار ہوتا ہے یا نہیں؟ مزید برآں امریکا پاکستان کے داخلہ خارجہ معاملات پر اثرانداز ہوتا ہے یا نہیں؟ اس سے ماورا کہ کون سی پارٹی امریکا مخالف کارڈ استعمال کررہی ہے، ہم خالصتاً اس مسئلے کو پاکستان کی تاریخ کی روشنی میں زیرِ بحث لانا چاہتے ہیں کہ آیا پاکستان میں امریکا کو عمل دخل حاصل رہا ہے یا نہیں؟ تاکہ ہماری نئی نسل تاریخ کے اس باب سے حقیقی آگاہی حاصل کرسکے۔
یہ تو ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکا کی ایک طویل تاریخ ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے اور اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کو ہٹاکر اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھاتا رہا ہے۔ اس کے لیے پیش بندی کے طور پر وہ اپنی ایک طویل مدتی حکمتِ عملی بھی تشکیل دیتا ہے، جیساکہ پاکستان کے باب میں اس نے قیامِ پاکستان سے قبل ہی اپنی مداخلت کے راستے ہموار کرنا شروع کر دیے تھے۔
تشکیلِ پاکستان سے تقریباً ساڑھے تین ماہ قبل یکم؍ مئی 1947 کو قائدِ اعظم محمد علی جناح سے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے دو نمائندوں نے ملاقات کی تھی۔ ان میں سے ایک جنوبی ایشیا ڈویژن کے سربراہ مسٹر ریمنڈ (Raymond) اور دوسرے بھارت میں امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری تھامس ای ویل (Thomas E Weil) تھے۔ اس ملاقات کی غرض یہ تھی کہ دونوں طرف کی قیادتیں پاکستان اور امریکا کے مستقبل کے تعلقات کی نوعیت کو طے کرسکیں۔ چناں چہ قائدِ اعظم نے امریکی سفارت کاروں سے کہا کہ: ’’مسلم لیگ کسی صورت انڈین یونین کو تسلیم نہیں کرے گی اور وہ پاکستان بنانا چاہتی ہے، جو یقینا امریکا کے مفاد میں ہوگا۔ پاکستان دیگر مسلم ممالک سے مل کر روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا سے مدد کا خواہاں ہوگا‘‘۔ بعد ازاں ایک بیان میں بانیٔ پاکستان نے کہا: ’’ہمارے مفادات روس کے بجائے دو عظیم جمہوری ملکوں برطانیہ اور امریکا سے وابستہ ہیں‘‘۔ قیامِ پاکستان کے صرف دو ہفتے بعد پہلے وزیرِ خزانہ ملک غلام محمد نے امریکی امداد کے لیے براہِ راست امریکا سے درخواست کی۔ فیروز خان نون نے تُرکی میں امریکی سفیر سے کہا: ’’ہم روس کے خلاف ہیں۔ پاکستان امریکا کی منڈی بن سکتا ہے۔ امریکا کو ہماری مالی مدد کرنی چاہیے‘‘۔ 1950ء میں روس کی دعوت کے باوجود پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو امریکا لے جانے والی قوتیں بھی پاکستان میں امریکی مفادات کے لیے سر گرم تھیں۔ امریکا ہی کی طرف سے ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والے ڈاکومنٹ کی رُو سے لیاقت علی خاں کے قتل کے پیچھے بھی امریکی سی آئی اے کا کردار تھا۔ 1954ء میں بغداد پیکٹ کے ذریعے پاکستان کا روس کے خلاف دفاعی امریکی اتحادی بننا پاکستان میں امریکی اثر و رُسوخ کے بغیر کیسے ممکن تھا۔
وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے کردار کی بھی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے! جب 1956ء میں اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو نیشنلائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ نہر اس وقت برطانوی اور فرنچ کمپنیوں کی ملکیت میں تھی۔ اس وقت دنیا میں دو گروہ بن گئے: ایک وہ جو مصر کی حمایت کر رہا تھا اور دوسرا برطانیہ کی۔ آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان کا نمائندہ وفد اس وقت برطانیہ کی بلائی گئی سوئز کانفرنس میں موجود تھا؟! اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں اسلحہ اور پیسہ امریکا اور اس کے اتحادیوں سے مل رہا تھا تو ہم نے اپنے ’’قومی مفاد‘‘ میں مصر کے بجائے برطانیہ کا ساتھ دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی سے جب پوچھا گیا کہ مسلمان ملک کے بجائے آپ نے برطانیہ کو کیوں سپورٹ کیا؟ تو انھوں نے کہا کہ: ’’مسلم ممالک سے اتحاد کا ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ یہ تو صفر جمع صفر برابر صفر والی بات ہے‘‘۔ صدر جمال عبدالناصر اسی لیے بین الاقوامی سطح پر پاکستانی مؤقف کی حمایت نہیں کرتے رہے۔
اس بات کے بھی دستاویزی ثبوت کتابوں میں شائع ہوچکے ہیں کہ پاکستان کا پہلا مارشل لاء میرجعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا کے ذریعے پاکستان پر امریکی آشیر باد ہی سے ممکن ہوا تھا۔ بعد ازاں امریکا ایوب خان کی پشت پناہی کرنے لگا اور ان کے فوجی مارشل لاء کو سپورٹ کیا۔ ایوب خاں خطے کی اُبھرتی ہوئی طاقت چین کی آفرز کو ٹھکراتے ہوئے امریکی اشاروں پر چلتا رہا۔ 1965ء کی پاک انڈیا جنگ کے بعد ایوب خاں امریکی سرد مہری کے خلاف روس اور چین کے قریب ہوا تو ملک میں اس کے خلاف عوامی مظاہرے منظم کروادیے گئے۔ ایوب خان کے خلاف سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ’’پی ڈی ایم‘‘ کے نام سے نواب زادہ نصراللہ خان کی قیادت میں بنا۔ ان مظاہروں میں بھٹو کا بھی کلیدی کردار رہا۔ پھر جنرل یحییٰ کی سرپرستی کرکے ملک دولخت کروا دیا۔ پھر بھٹو کو امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے دھمکی دی اور ان کا عدالتی قتل کروا کر انھیں عبرت ناک مثال بناکر اپنی بات سچ کردکھائی۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ ضیاء الحق امریکی پیش بندی کا حصہ تھا، جس کے ذریعے قیامِ پاکستان کے وقت کے منصوبے روس کے خلاف ’’جہاد‘‘ کو عملی جامہ پہنایا گیا۔
کارگل جنگ کے موقع پر نواز شریف امریکا جاکر وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر امریکی منصوبوں کے زیرِ نگرانی معاہدوں پر دستخط کرکے آئے۔ پاکستان کے آزاد قبائلی علاقوں میں سی آئی اے کی جنگی سرگرمیوں نے پاکستان کے امن کو تہہ و بالا کیے رکھا۔ پھر پاکستانی صدر پرویز مشرف کو امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل کی پاکستان کو پتھر کے دور میں پہچانے کی دھمکی ابھی ماضی قریب کی تاریخ کا حصہ ہے۔
یہ بات تاریخی حقائق سے ثابت شدہ ہے کہ ماضی میں یہ مداخلت ہوتی رہی اور کروائی بھی جاتی رہی ہے۔ ہر دور میں پاکستان کے ریاستی اداروں اور ہر شعبۂ زندگی میں امریکا کے مخبر اور کارندے موجود رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں میں امریکیوں کا بہت اثر و رسوخ ہے۔ پاکستان میں تمام ’’رجیم چینج‘‘ آپریشنز، خواہ وہ سول حکومتیں ہوں یا مارشل لاء، اس میں امریکا ملوث رہا ہے۔
ہمارے ہاں کی سیاسی پارٹیوں کی قیادت اپنے ہی ملک میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے امریکی خوشنودی کو ضروری سمجھتی رہی ہیں۔ بہت سے لیڈر امریکا جاجا کر اپنی وفاداریاں پیش کرکے اقتدار کا چانس حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتے رہے ہیں۔
ظاہر ہے پاکستان میں امریکا جس جماعت کو اقتدار کے بالا خانے تک پہنچنے کے لیے سیڑھی فراہم کرتا ہے، اس سے پیشگی اپنی کچھ شرائط بھی منواتا ہے۔ پارٹیاں بسا اوقات اپنے نظریات اور رُجحانات سے عدمِ مطابقت کے باوجود ان شرائط کو قبول بھی کرتی ہیں۔ جنرل حمید گل تو اپنے ایک انٹرویو میں یہ تک کہہ چکے ہیں کہ: ’’پاکستان کا آرمی چیف امریکا کی مرضی کے خلاف نہیں چنا جاسکتا‘‘۔
ایسے ہی جب پاکستان میں کسی بھی حکومت کے خلاف کوئی تحریک اپنا منہ سر بنانے لگتی ہے تو پہلے وہ اپنے آپ کو امریکی آئینے میں دیکھتی ہے۔ اپنی بین الاقوامی لابی میں اپنے پارٹنرز سے مشورہ کرتی ہے۔ وہ انھیں بتاتے ہیں کہ لوہا گرم ہے یا نہیں؟ چوٹ مارنے کے وقت کا انتخاب انھیں کے کہنے پر کیا جاتا ہے۔ جیسے حالیہ حکومتی تبدیلی کا واقعہ رونما ہوا۔ پارٹی وفاداری بدل کر ممبرانِ اسمبلی اسی وقت اپنی جماعت کے وجود سے گوشت کے لقمے نوچنے چڑھ دوڑتے ہیں، جب انھیں اشارہ مل جاتا ہے۔
لہٰذا حکومتی تبدیلیوں میں امریکی مداخلت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان کی ریاست اور سیاست دان اپنے قیام سے آج تک امریکا سے خطیر عطیات اور قرضہ جات وصول کرتے ہوئے بدلے میں اپنی تابع داری پیش کیے ہوئے ہیں۔
آج سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر امریکا اپنے سامراجی عزائم کے تحت ہماری خود مختاری کو پامال کرنے کا مجرم ٹھہر تا ہے تو وہیں ہماری سیاسی اور مذہبی قوتیں جو امریکا کے اشاروں پر اپنی تحریکوں کی نوک پلک سیدھی کرکے عوام کو دھوکا دیتی ہیں، وہ بھی اتنی ہی مجرم ہیں۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ جون 2022ء)