جیسے ہی 1989ء میں انقلابِ فرانس کے دو سو سال مکمل ہوئے، تو اسے جشن کے طور پر منانے کے لئے تقریبات کی دھوم دھام سے تیاریاں ہونے لگیں۔ فرانس کے صدر متراں نے اس سلسلے میں عالمی سرمایہ دارانہ استعمار کے سب سے بڑے اتحاد “G.7” کی کانفرنس بلانے کا بھی اعلان کر دیا۔ یہ گروپ امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، جرمنی، جاپان اور اٹلی پر مشتمل ہے۔ فرانس کے وہ دانشور اور انقلابی سوچ رکھنے والے اہم افراد، جو انقلابِ فرانس کو بادشاہتوں اور آمریتوں کے خلاف جدوجہد کا سنگِ میل سمجھتے تھے، انہوں نے متراں کے اس اقدام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی ٹھانی۔
ان شخصیات نے مل کر ایک گروپ تشکیل دیا جس کا فرانسیسی میں نام “Ca Suffat Commaci” رکھا گیا جس کا مطلب ہے ” It’s enough” یعنی بہت ہو گیا۔ اس گروپ کے اہم لوگوں میں فرانس کا مشہور ادیب اور ناول نگار گائز پیرول (Gilles Perrault) اور انتہائی مقبول گلوکار رینوڈ (Renaud) شامل تھے۔ لیکن ان انقلابیوں میں ایک ایسا فرد بھی تھا جس نے عالمی مالیاتی سودی نظام کے غریب ملکوں کو قرضے کے جال میں پھنسانے کے ہتھکنڈوں کے خلاف کئی سالوں سے آواز بلند کر رکھی تھی۔ اس شخص کا نام ارنسٹ مینڈل (Ernest Mandel) تھا جو بلجیئم کا رہنے والا ایک ماہرِ معاشیات تھا۔
اس نے ستر کی دہائی سے یہ تصور پیش کرنا شروع کیا تھا کہ دُنیا میں امن، سکون، فلاح اور اطمینان اس وقت ہی ممکن ہے اگر سرمایہ دار ممالک نے جو قرض غریب اقوام کو دے رکھا ہے، وہ یہ تمام قرض معاف کر دیں۔ اوّل تو یہ ان ممالک سے پہلے ہی کئی گنا وصول کر چکے ہیں اور دوسرا یہ کہ ان تمام غریب ممالک کے وسائل اس قابل ضرور ہیں کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں، لیکن قرض کی ادائیگی انہیں ایسا کرنے نہیں دیتی۔ مینڈل کے اس نعرۂ مستانہ کو قرضوں سے آزادی “Debt Jubilee” کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
پیرس میں جی۔7 کے انعقاد کے خلاف جہاں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے، وہیں بیسٹائل اپیل “Bastille Appeal” کے نام سے ایک جاندار تحریر لکھی گئی کہ تمام ترقی یافتہ ممالک غریب ملکوں کے قرضے معاف کر دیں۔ اس تحریر کی کوکھ سے ایک انتہائی متحرک اور جاندار تنظیم نے جنم لیا جس کا نام ہے “Committee for the Abolition of Illegitimate Debt” ۔ ناجائز قرضوں کے خاتمے کی کمیٹی رکھا گیا۔ اس تنظیم کا قیام ارنسٹ مینڈل کے ایک دوست اور اسی کے ملک کے باسی ایرک تسانٹ “Eric Toussaint” اور اس کے ساتھیوں کی وجہ سے ہوا۔
برسلز میں قائم یہ تنظیم اس وقت تک جنوبی امریکہ کے چار ممالک کو اپنی کوششوں اور شبانہ روز محنت سے عالمی قرضوں سے نجات دلا چکی ہے۔ ان ممالک میں ایکواڈور اور پیراگوائے سرفہرست ہیں۔ یہ کمیٹی دُنیا پر غاصبانہ طور پر قابض عالمی سودی مالیاتی نظام کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہونے والی سب سے توانا آواز ہے۔
عمران خان کی حکومت کو گئے ہوئے تقریباً دو ماہ مکمل ہونے کو ہیں، جبکہ پاکستان میں اس سیاسی بحران کو نازل ہوئے نوے دن کا عرصہ ہو چکا ہے۔ دُنیا بھر کے تجزیہ نگار اخبارات و رسائل میں تبصرے شائع ہو رہے ہیں، ٹیلی ویژن چینل پر ٹاک شوز ہو رہے ۔ پاکستان کے میڈیا کو اشتہارات کی لذت حکومت کی ڈانٹ نے بہت حد تک خاموش کر دیا ہے، مگر پھر بھی آزادانہ تبصرہ برآمد ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن اس دو ماہ کے عرصے میں پاکستان کے بدترین معاشی حالات پر بھی، ناجائز قرضوں کے خاتمے کی اسی کمیٹی (CADTM)کی ویب سائٹ پر کوئی گفتگو نہ ہوئی، لیکن اب چند دن پہلے پاکستان پر ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے جس میں عمران خان کی حکومتی تبدیلی (Regime Change) کی وجوہات، اس کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بھونچال (Political Turmoil) اور پاکستان پر گہرے ہوتے ہوئے قرضوں کے سائے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
مضمون میں عمران خان حکومت سے امریکہ کی ناراضگی کی تین بڑی وجوہات بتائیں گئیں ہیں جن میں سب سے اہم وجہ عمران خان کا وہ اقدام تھا جس کے تحت اس نے دُنیا بھر کے ممالک کے سرمایہ کاروں کے پاکستان کے ساتھ ہونے والے تیئس (23) معاہدوں کی منسوخی اور ان کے ساتھ نئے معاہدوں کو تحریر کرنے کا آغاز کیا تھا۔ عمران خان نے برسراقتدار آتے ہی اس بات کا اندازہ کر لیا تھا گذشتہ حکومتیں پاکستان کو ایسے عالمی معاہدوں میں پھنسا گئی ہیں جن کی وجہ سے حکومت کے ہاتھ مکمل طور پر بندھ چکے ہیں اور ملک کا مفاد تباہ ہو رہا ہے۔ سرمایہ کار کا تحفظ (Investor Protection) کا عالمی تصور وہ جال ہے جس کے تحت کوئی بھی مقامی حکمران عوامی مفاد کے تحت کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتا۔
عمران خان کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد ہی ورلڈ بینک کے ایک ذیلی ادارے ’’انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس‘‘ (ICSID) نے تین پرائیویٹ ججوں کا ایک ٹربیونل بنایا جس کی تمام کارروائی بند کمرے میں ہوتی رہی۔ اس ٹربیونل نے اپنے اس خفیہ چلائے جانے والے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کو چھ ارب ڈالر اس آسٹریلین کمپنی کو تاوان کے طور کو ادا کرنے کے لئے کہا جس کا لائسنس اس بنیاد پر منسوخ کر دیا گیا تھا کہ اس پراجیکٹ سے ماحولیاتی آلودگی ہو سکتی ہے۔
ایک اور مقدمے میں ٹیتھیان کاپر (Tethyan Copper) کو بھی ایسے ہی ایک اور ٹربیونل نے پاکستان کو گیارہ ارب ڈالر تاوان ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ٹربیونل کی کارروائی بھی بند کمرے میں خفیہ طور پر ہوتی رہی۔ یہ ٹربیونل عالمی چیمبر آف کامرس کے تحت قائم تھا۔ عمران خان کی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف طویل قانونی جدوجہد کی۔ یہ موقف بھی اپنایا گیا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد سے ہماری غربت میں اضافہ ہو گا اور کمپنی کے لئے بھی ایسی فضا میں کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ مگر “ICSID” کے فیصلے کو نافذ کرنے والی امریکی عدالت نے پاکستان کے مقدمے کا تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بے سروپا خواہش کے سوا کچھ نہیں۔
عمران خان نے دوست ممالک کے بیرونی مصالحت کاروں کے ذریعے ٹیتھیان سے گفتگو کا آغاز کیا اور 2022ء کے آغاز میں ہی کمپنی کے ساتھ معاہدہ مکمل کر لیا۔ اس معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد دُنیا بھر کے سرمایہ کاروں میں ایک خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اس لئے کہ اب ICSID کو ان تمام کیسوں کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کے اس معاہدے کو بھی نظر میں رکھنا پڑنا تھا۔ اس ٹربیونل کے سامنے اس وقت میکسیکو میں او ڈیسی کمپنی کا 4 ارب ڈالر کا معاہدہ اور دیگر کئی عالمی معاہدے زیرِ سماعت تھے۔ یہ صرف ایک معاہدہ نہیں تھا جو پاکستان کے مفادات کے خلاف کیا گیا تھا بلکہ ایسے کئی معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے خلاف دس کمپنیاں عالمی عدالتوں میں جا چکی تھیں۔ ایسے تیئس معاہدے تھے جو زرداری اور نواز شریف حکومتوں نے پاکستان کے مفادات کے خلاف کئے تھے، جن کا جائزہ لینے کے لئے عمران خان نے ایک ٹربیونل بنا دیا۔
وہ دس معاہدے جن کے خلاف کمپنیاں عالمی عدالتوں میں چلی گئی تھیں ان میں سے نو کمپنیوں کے ملکوں کی حکومتوں سے پاکستان نے رابطہ کیا اور معاہدوں میں ترامیم کے لئے گفتگو شروع کی۔ ان کمپنیوں کے ساتھ حکومتوں کے ذریعے طویل مذاکرات ہوئے اور معاہدات کو ازسر نو تحریر کرنے پر اتفاق ہو گیا۔ اس تبدیلی کے لئے سمری 5 اگست 2021ء کو تیار کر لی گئی۔ اس سمری کے تحت تیئس کمپنیوں کے معاہدات دوبارہ لکھے جانا تھے اور سولہ مزید معاہدات جن پر اتفاق تو ہو چکا تھا مگر سرکاری منظوری (Ratify) ابھی باقی تھی ان کو کینسل کر دیا گیا۔
یہ ہے ’’رجیم چینج‘‘ کی کہانی کی مختصر سی جھلک۔ یہ ہے وہ ناقابلِ معافی جرم جو عمران خان کی حکومت سے سرزد ہوا۔ اگر عمران خان ایسا کر گزرتا تو نہ صرف یہ کہ پاکستان کا مالی مفاد مستحکم ہو جاتا بلکہ دُنیا بھر کے ممالک میں پھیلے ہوئے عالمی مالیاتی شکنجے کے خلاف بھی لاتعداد آوازیں اُٹھنے لگتیں۔ ایسے ’’ناخلف‘‘ اور گستاخ شخص کی حکومت کو تو برطرف ہونا ہی تھا۔