عمر ہا چرخ بہ گرد زکہ جگر سو ختہ
چوں من از دودہ آتش نفساں برخیزد
مولانا عبید اللہ سندھی بھی ہمیں داغ مفارقت دے کر اس قافلے میں جاملے جو عملی زندگی کے ابتدائی دور میں ان کے محترم استاد اور محبوب رفقا پر مشتمل تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن، مسیح الملک حکیم اجمل خان، ڈاکٹر انصاری، مولانا محمدعلی اور مولانا شوکت علی ؒ اور ایک ایسی جگہ خالی کر گئے جسے علماء یا سیاسین کے طبقے میں سے کوئی پر نہیں کر سکتا۔ وہ جلا وطنی کی طویل مدت کو ختم کر کے جب سے ہندوستان آئے تھے مختلف لوگوں نے مختلف امور میں ان سے اختلاف کیا۔ کسی نے تعلیمات ولی اللہٰی کے اس خاکے پر اعتراض کیا جسے مرحوم کی سیاسیات و اقتصادیات میں اپنی پارٹی کے مخصوص پروگرام کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے سمجھا کہ مولانا کے سامنے کوئی معین چیز نہیں، ان کا دماغ مختلف اوقات میں مختلف تحریکات سے متاثر ہوا۔ اور ان تمام تاثرات کے مجموعہ نے ایک ایسی سکیم کی شکل تیار کرلی ہے جس پر کوئی گروہ کبھی عمل پیرا نہیں ہوسکتا۔ بعض اصحاب کو یہ نہایت افسوسناک غلط فہمی ہوگئی کہ مولانا مرحوم خدانخواستہ دیر تک غربت کی تکلیفیں اٹھانے کے بعد کمزور ہوگئے ہیں لہٰذا ان کی سیاسیات میں بھی ایک گونہ کمزوری آگئی ہے، یعنی وہ آزادی ہند کے ویسے سرگرم مجاہد نہیں رہے جیسے کہ عملاً 1917 میں تھے۔ لیکن جن لوگوں کو مولانا کے ساتھ مفصل گفتگوؤں کا موقع ملا وہ گواہی دیں گے کہ مرحوم آخری دم تک ویسے ہی وطنی اور اسلامی مجاہد تھے جیسے کہ ہندوستان سے قدم باہر نکالنے کے وقت تھے۔ البتہ یہ درست ہے کہ وہ کسی پروگرام کو بت بناکر ہمیشہ کے لیے اس کی ایک ایک شق کی پوجا کے قائل نہ تھے۔ بدلے ہوئے حالات بھی انہوں نے اپنے مقاصد کی پیش خرد کے لئے نیا پروگرام بنا لیا تھا جس کے متعلق سطحی معلومات پر قناعت کرنے والے غلط فہمیوں میں مبتلا ہوتے رہے۔
جس پروگرام کو محترم شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے منسوب فرماتے تھے۔ اس کی تفصیلات میں اختلاف ہوسکتا ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک مولانا کے تمام انتسابات درست نہ ہوں لیکن خود مولانا جب شاہ صاحب مرحوم و مغفور کی تصانیف سامنے رکھ کر ایک ایک شق کی تائید میں اقتباسات پیش کیا کرتے تھے تو ان کے دعاوی بہت ہی پختہ اور محکم معلوم ہوتے تھے کم از کم شاہ صاحب کی تصانیف پر عبور اور دقت نظر کے ساتھ ان کے مطالعہ کی ایسی مثالیں بہت کم ملیں گی، جیسے کہ مولانا عبید اللہ مرحوم و مغفور تھے ۔
پھر ان کی مردانگی، ہمت، شان ایثار ، راہ حق میں دنیوی مالوفات کی ہر شے سے بے پروائی۔ یہ ایسی خصوصیات ہیں جو بڑے بڑے قائدوں اور رہنماؤں میں بھی بہت شاذ ملتی ہیں، تکالیف کے ہجوم میں بھی ان کے چہرہ مبارک پر تبسم اس طرح رقصاں رہتا ہے کہ دیکھنے والے کو وہم بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ مولانا پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
سچے قائد کی طرح وہ اپنے رفیقوں پر بے حد شفیق تھے۔ اپنی ذات کے لئے کبھی کسی فرد یا جماعت یا سلطنت کے ممنون نہیں ہوئے۔ ان کی زندگی میں ایسے وقت بھی آئے جب بڑے بڑے خزانے صرف ان کے اشارے کے تابع تھے لیکن انہوں نے اپنی ذات کے لئے کبھی کچھ نہ لیا۔ البتہ پیش نظر کام کے سلسلے میں اپنے رفیقوں کی راحت کے لئے وہ ہمیشہ مضطرب رہتے تھے۔
قران حکیم کے حقائق پر بڑی وسیع نظر تھی، جب کبھی کسی آیت کے متعلق کوئی الجھن ان کے سامنے پیش کی جاتی تو بے توقف نہایت سادہ اور سہل انداز میں اس کا ہر پہلو اذعان افروز طریق پر واضح فرمادیتے۔ ان کی زبان مبارک سے قرآن حکیم کی مختلف سورتوں یا ٹکڑوں کی تفسیر سن کر حامی کے دل میں بھی کلام الٰہی کی عظمت کا خاص احساس پیدا ہوجاتا تھا۔
ان کے دادا ہندو تھے، والد نے سکھ دھرم اختیار کرلیا۔ گویا مولانا سکھ پیدا ہوئے۔ بچپن میں یتیم ہو گئے والدہ نے بڑی محنت سے پالا۔ مولوی عبید اللہ کی تحفتہ الہند اور شاہ اسماعیل شہید کی ”تقویۃ الایمان“ پڑھ کر اسلام کی تڑپ پیدا ہوئی۔ اس شوق میں گھر سے نکل پڑے۔ اصلی وطن سیالکوٹ تھا لیکن گھر سے نکل کر سندھ میں مولانا تاج محمود مرحوم کے پاس پہنچے تو وہیں کے ہوگئے۔ اور پنجابی ہونے کے با وجود سندھی مشہور ہوئے۔ انہی کے ظل عاطفت میں تعلیم حاصل کی پھر دیوبند میں حضرت شیخ الہند مرحوم سے تکمیل علوم کی۔ پہلے دیوبند میں ایک جماعت کی تنظیم شروع کی۔ پھر دہلی میں مدرسہ نطارۃ المعارف القرآنیہ جاری کیا۔ 1915ء میں اپنے استاد و مرشد حضرت شیخ الہند مرحوم کے حکم کے مطابق ہندوستان سے افغانستان پہنچے۔ سات برس وہاں رہے۔ پھر روس چلے گئے۔ جہاں سٹالین اور اشتراکیت کے دوسرے اکابر سے گفتگوئیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد مختلف یورپی ممالک سے ہوتے ہوئے ترکی گئے۔ پھر اٹلی پہنچے۔ وہاں سے حجاز تشریف لے گئے اور وطن واپس آنے کی اجازت ملنے تک مکہ معظمہ ہی میں مقیم رہے ۔
ترک وطن سے پیشتر شادی کی تھی۔ دو صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ پھر اہلیہ محترمہ اور ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا۔ دوسری صاحبزادی بفضل خدا حیات ہیں۔ 10 مارچ 1873 تاریخ پیدائش تھی۔ بہتر برس اور چند ماہ کی عمر پائی ۔
ہندوستان واپس آنے کے وقت اگرچہ خاصے کمزور ہوگئے تھے لیکن حرارت و جوش عمل کا یہ عالم تھا کہ کوئی نوجوان بھی بہ مشکل ان کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ چند ماہ پیشتر لاہور تشریف لائے تو فرمایا تھا کہ تین ہفتے یہاں مقیم رہ کر اپنے پروگرام کی ضروری چیزیں سمجھا دیں گے۔ پندرہ بیس روز کے بعد ایک عزیز دوست سے ملنے کے لیے انجمن خدام الدین کے دفتر میں گیا تو معلوم ہوا کہ مولانا تشریف لائے ہوئے ہیں لیکن بیمار ہیں۔ دو گھنٹے تک پاس بیٹھا رہا۔ ایک تحریر سنائی جس کے بعض فقروں پر بے اختیار میرے آنسو نکل آئے۔ اس وقت بھی فرمایا کہ دہلی اور سندھ ہوتے ہوئے لاہور آؤں گا۔ اس دنیا میں یہ آخری ملاقات تھی۔ پندرہ بیس روز ہوئے ان کی ایک مطبوعہ تقریر موصول ہوئی جس کے لفافہ پر پتہ انہوں نے خود لکھا تھا اور صاف معلوم ہوتا تھا۔ کہ کمزور ہاتھ اب قلم گیری میں بھی تکلیف محسوس کررہا ہے۔ پھر دفعۃً اطلاع ملی کہ مولانا سخت بیمار ہوگئے ہیں اور حالت نازک ہے۔ آخر وہ مقدر سانحہ بھی پیش آگیا جو ہم سب کو پیش آنا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
وہ دور حاضر کے بہت بڑے عالم، بہت بڑے سیاست دان اور بہت بڑے قائد تھے۔ عام لیڈروں کے شیووں سے کام لے کہ ہر دل عزیزی پیدا کرنے پر کبھی راضی نہ ہوئے۔ اس لیے عام نقطہ نگاہ کے مطابق قدر و منزلت عامہ کا وہ مقام حاصل نہ کر سکے، جس کے وہ ہر اعتبار سے اہل تھے۔ لیکن واقف کار اصحاب کی نظروں میں وہ دور حاضر کے مخصوص علما میں سے تھے ۔ زندگی کے ایسے بیش بہا جواہرا س دنیا میں بہت کم نظر آتے ہیں ۔ ان کی فطری سعادت کا اس سے بڑا اور روشن تر ثبوت اور کیا ہوگا کہ ایک سکھ گھرانے میں جنم لیا۔ لیکن اسلام کے ایک بلند منزلت عالم، قائد، مدبر اور مجاہد کی حیثیت میں واصل بحق ہوئے۔ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی مرقد مبارک کو انوار رحمت کی بارش سے منور رکھے۔
ایں دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد
اداریہ: روزنامہ انقلاب لاہور 27 اگست 1944
مدیر : مولانا غلام رسول مہر
|بشکریہ: بھائی امجد سلیم علوی ابن مولانا غلام رسول مہر