یہ اطلاعات کی برق رفتاری اور فراوانی کا زمانہ ہے، نت نئی معلومات کا ایک ریلا ہے، جو ہماری مُٹھیوں میں سمائے، دیواروں پر ٹنگے اور میزوں پر دھرے ہوئے مختلف ”شیشوں“ پر مستقل امنڈتا ہی چلا جا رہا ہے آج کل ایک بار پھر ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ضرور ہو رہی ہیں، لیکن حقیقت پسندی سے اِس مسئلے کے حل اور بار بار ”آئی ایم ایف“ سے قرضے لینے، دور اندیشی سے مستقبل کے کسی اچھے لائحہ عمل کے لیے کوئی بھی سنجیدہ بات کرتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ساری اطلاعات پر ہمارے سیاسی اور گروہی مفاد غالب آ چکے ہیں۔
وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے ”آئی ایم ایف“ سے قرضے لینے کے لیے 26 مئی 2022ءکو پیٹرول پر یک مشت 30 روپے فی لیٹر بڑھا دیے، جس پر لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر ”آئی ایم ایف“ پیٹرول کے نرخ بڑھانے پر ہی اصرار کیوں کرتا ہے۔ اُسے ہمارے ملک پر مسلط دو فی صد اشرافیہ، وڈیرے، سردار، جاگیردار اور مراعات یافتہ طبقے اور ان کو حاصل بھاری بھرکم چھوٹ کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ وہ کیوں نہیں کہتا کہ لاکھوں روپے ماہانہ ایندھن اینٹھنے والے وزیر، مشیر اور مختلف اعلیٰ سرکاری عہدے داروں پر روک لگائی جائے؟ یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے دل جلے ”فیس بک“ وغیرہ پر یہ مہم چلاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ پیٹرول مہنگا کرنے کے بجائے مختلف اعلیٰ شخصیات کو مفت پیٹرول کی فراہمی مکمل طور پر بند کر دی جائے، کیوں کہ انھیں پہلے ہی بھاری تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔
اب یہ تو قرض دینے والوں کے اپنے مفادات اور اپنی شرائط ہوتی ہیں کہ انھیں قرض کی آڑ میں اپنے سیاسی ومعاشی مفادات بھی تو سامنے رکھنے ہوتے ہیں، معاشی بدحالی میں اصل مسئلہ ہمارا اپنا ہے کہ ایک پیٹرول ہی نہیں، بلکہ ہمیں اس وقت اجتماعی طور پر بچت کی ایسی مضبوط معاشی تحریک کی ضرورت ہے، کہ جس سے نہ صرف ہمارے اپنے معاش کو سُکھ ملے، بلکہ مجموعی طور پر ملکی معیشت کو بھی سہارا مل سکے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے آپ نے بہتیرا یہ سنا ہوگا کہ اگر ہمیں قرضے نہ ملے، تو خدانخواستہ سری لنکا کی طرح ہم بھی ”دیوالیہ“ ہو جائیں گے، لیکن کیا کسی نے یہ بات کی کہ آخر ہمارا قومی خزانہ اور آمدن کا سلسلہ ہے کتنا؟ اور اِسے کہاں اور کیسے خرچ کیا جا رہا ہے؟ اب معاشی تنگی میں ایسے کون سے خرچے ہیں، جو بچائے جا سکتے ہیں؟ سرکاری اور ریاستی اخراجات میں کمی کس طرح ممکن ہے؟ یہی نہیں بلکہ اس بار بار کی معاشی کنگالی کے دور میں یہ آواز بھی بہت زور شور بلند کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک کے سارے حکمران، سیاست دان، فیصلہ ساز، جج، جرنیل اور تمام اعلیٰ ترین سرکاری عہدے داران وغیرہ اپنے تمام اثاثے امریکا، لندن اور دبئی وغیرہ کے بہ جائے اندرون ملک رکھنے کے پابند ہوں! اور اگر اِن میں سے کسی کے بھی کاروبار، اقامے، اسٹیل مل اور یا دھن دولت کی اور بھی کوئی صورت ملک سے باہر ہو، تو وہ فی الفور یہاں اپنی ذمہ داریوں کے لیے نااہل قرار دیے جائیں۔ یہی نہیں اپنے اثاثے والدین، بہن بھائی، بیٹے بیٹی، بھانجے بھتیجے یا اور کسی قریبی رشتے دار کے نام پر رکھنے والوں کے خلاف بھی بلاتفریق سخت ترین کارروائی ہو اس کے ساتھ ساتھ اپنے عہدے سے سبک دوشی یا علاحدگی کے بعد بھی وہ فرد ملک سے باہر اپنی جائیداد نہ بنانے کی پابند رہے اور خلاف ورزی کی صورت میں اُسے ”قومی غدار“ قرار دیا جائے!
آج کے نام نہاد ”آزادی“ کے دور میں ایسی پابندیاں لازمی طور پر ”ظلم“ اور ”جبر“ قرار دی جائیں گی، لیکن جب کسی ملک کو لوٹ لوٹ کر کمزور کرنے کا سلسلہ نہ رک سکے، اور اس کے مخصوص لوگ اور طبقات امیر ترین اور ریاست غریب ہو جائے، تو پھر اِس دیمک زدہ پیڑ کو گرنے سے بچانے کے لیے یہ سب کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے اور اب ضروری ہے کہ اس پر بلاتفریق عمل درآمد کیا جائے! اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ چاہے کسی بھی سیاسی نظریے پر یقین رکھتے ہوں، لیکن اگر ملک سے مخلص ہیں، تو پھر بہ یک زبان ہو کر یہ مطالبہ منوائیں، شاید ان کی کوشش رنگ لائے اور صبح وشام ملک کے ”غم“ میں گھلنے والے نام نہاد قائدین، راہ نما اور دیگر اعلیٰ عہدے داران کے بیرون ملک دَھن دولت ملک میں آجائے، تو ہمارا خزانہ خالی نہ ہو اور عوام کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے کچھ نجات مل سکے۔