آج پاکستان مسائل کے جس گرداب میں گھرا ہوا ہے کم وبیش ہرپاکستانی اس پر پریشان ہے۔ لیکن ہمارے ہاں لوگ مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوکر ان مسائل کا حل سوچنے کے بچائے اپنی اپنی پسند کی پارٹیوں اور لیڈروں کے دفاع میں ساری توانائیاں صرف کررہے ہیں۔
آج دنیا میں سوچ کے آفاقی پیمانے وجود میں آچکے ہیں اور وہ انسانیت،عدل،امن،خوشحالی اور رواداری کے گرد گھومتے ہیں لیکن ایک ہمارا معاشرہ ہے کہ جہاں ان اخلاق کے علی الرغم طبقاتی تقسیم،ظلم،بد امنی،غربت و جہالت اور نفرت بڑھ رہی ہے۔
اور اس سب کچھ کا سبب وہ نظام ہے جو انگریزوں سے ہمیں ورثے میں ملا اور اس نظام کی محافظ ہماری سیاسی لیڈرشپ ،مقتدرہ اور اسٹیبلشمنٹ ہے۔
اور حالت یہ ہے کہ عوام غربت،مہنگائی،لوڈشیڈنگ ،کرپشن،بے روزگاری،بدامنی اور جہالت کا شکار ہیں جب کہ دوسری طرف سیاسی لیڈرشپ سول وفوجی بیوروکریسی جدید دور کی بہترین سہولتوں کو انجوائے کرتے ہیں۔ پاکستان کے جن علاقوں میں یہ لوگ رہتے ہیں وہ پاکستان کے علاقے لگتے ہی نہیں! ان کے بچے بہترین اداروں میں تعلیم پارہے ہیں، انہیں اندرون ملک اور بیرون ملک علاج کی بہترین سہولتیں حاصل ہیں اور ملک کے مہنگے ترین پرائیوٹ ہسپتالوں کا کاروبار اسی طبقے کے علاج معالجے کی سرکاری ادائیگیوں پر قائم ہے۔
ان کے نیچے مہنگی سرکاری گاڑیاں ہیں بلکہ نہ صرف ان کے نیچے بلکہ ان کی فیملیز بھی سرکاری گاڑیوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں اور پانی کی طرح خرچ ہونے والا پٹرول انہیں سرکاری خزانے سے ملتا ہے۔ ایک بار ایک بیوروکریٹ کے ڈرائیور نے بتایا کہ وہ جی او آر سے آٹے کے پیڑے لے کر اٹھارہ سو سی سی گاڑی پر بیگم کی فرمائش پر ایئر پورٹ کے قریب صاحب کے سسرال کے گھر سے تندور پر روٹی لگوانے جاتا ہے جو تقریباً تیس کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے یہ بے رحم طبقہ کس طرح قوم کے درد کو سمجھ سکتا ہے۔
اس کمر توڑ مہنگائی میں پٹرول بم کی آگ کو وہ غریب ہی محسوس کرسکتا ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنی موٹر سائیکل میں تیل ڈلواکر مونہہ جھلسا دینے والی گرمی میں موٹر بائیک چلاتا ہے جو طبقہ گاڑی میں ٹھنڈی ہوا کی پھوار کے لیے مہنگا سرکاری پٹرول جلاکر اپنی راحت کا سامان پیدا کرتا ہے وہ پٹرول نہیں قوم کا خون جلاتا ہے۔
پھر نہ جانے قوم کے غریب کیوں ان لیڈروں کی حمایت میں سرپھٹول میں مصروف ہیں روزانہ ہزاروں پوسٹیں نظر سے گزرتی ہیں کہ غریب لوگ ان کا دفاع کرتے ہیں جن کی وجہ سے وہ غریب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارے لوگ نہیں اگر یہ ہمارے ہوتے تو ان کی اور ہماری حالت ایک جیسی ہوتی۔ اس ملک میں غریب، غریب سے غریب تر ہوا اور امیر، امیر سے امیر تر ہوا یہاں 1947 کے بعد ہر چیز میں تنزل ہوا ہے اگر ترقی ہوئی ہے تو صرف مراعات یافتہ طبقے کی ہوئی ہے اس کا تعلق خواہ سیاست سے یا سول و ملٹری بیوروکریسی سے۔ اس لیے یہ عوام کے لوگ نہیں بلکہ عوام پر مسلط کیے گئے ہیں۔
1947ء کی ایک تقریر میں مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا” پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کے نام سے برطانیہ کا پسندیدہ طبقہ برسر اقتدار آجائے گا جو برطانیہ کا پروردہ رہا ہے جس کے طرز عمل میں خدمت خلق اور قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں رہا ہے یہ صرف ذاتی مفاد کے لیے پبلک کے کاموں میں شریک ہوتے رہے ہیں ۔۔۔ اور پاکستان میں بسنے والے مسلمان جس معاشرتی اور اقتصادی کمزوری اور سیاسی پسماندگی کا شکار رہیں گے اس وجہ سے وہ ایک دوسرے کی کبھی مدد نہیں کر سکیں گے۔
آج کی بات کا خلاصہ یہی ہے کہ پاکستانی سیاست و حکومت کو میسر قیادت کے طرز عمل پر غور کرنا ہر باشعور پاکستانی کا فرض ہے کہ ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے کس لیڈر شپ پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں یہ لوگ اس کام کے لیے تخلیق ہی نہیں ہوئے ان کی نفسیات قربانی کی نہیں بلکہ خدمت کروانے کی ہیں ۔ انسانی تاریخ اور دنیا کے موجودہ منظر نامے پر ایسی انوکھی قیادت ہمیں سوائے غلام قوموں کے اور کہیں نظر نہیں آتی۔