لیڈرشپ جذباتی تقریریں اور جلسے جلوس کرنے کا نام نہیں ہے۔لیڈرشپ کی یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ ایک بڑے مقصد کے لئے اپنی انا کو قربان کرتا ہے۔دنیا کے سچے لیڈروں کے پاس کوئی بندوقیں یا دولت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے لاکھوں لوگوں کو ایک مقصد کے لئے متحرک کیا۔انہوں نے لوگوں کا اعتماد جیتا اور لوگ ان کے پیچھے چلے۔
لیڈرشپ کا اظہار اکثر اس وقت ہوتا ہے جب حالات ہمارے مخالف ہوں اور ہم خالی جیب بھی ہوں۔اگر کولمبس واپس چلا جاتا تو کوئی اسے الزام نہ دیتا لیکن کوئی اسے یاد بھی نہ رکھتا۔تمام عظیم لیڈروں نے عظیم جذبہ دکھایا ہے۔لیڈر کی ذاتی زندگی کی مثال لوگوں کو متحرک کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔
ایک پیروکار کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کی کاموں کی وجہ سے لوگ اس کے لیڈر کو پہچانیں۔اور جو لیڈر اپنے پیروکاروں کو یہ پہچان دیتاہے وہ ان کے لئے متحرک کرنے والا عامل ہوتا ہے۔
نیوٹرل لیڈر جیسی کوئی چیز دنیا میں نہیں ہے۔لیڈر مؤثر غیر مؤثر،یا اچھے اور برے ہوتے ہیں۔اچھے لیڈر گائیڈ کرتے ہیں اور برے لیڈر گمراہ کرتے ہیں۔
لوگ ان لیڈروں کی پیروی اور نقل کرتے ہیں جو زندہ اور جیتی جاگتی مثالیں ہوتے ہیں۔وہ کسی افسانوی کہانی سے کرداروں کو سوچتے نہیں ہیں۔لیڈر اپنے پیروکاروں کے لئے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ایک ناامید شخص کے لئے امید کا دیا۔
لیڈرشپ کامیدانِ جنگ میں یا بحران کے وقت میں امتحان ہوتا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں سے قوم کو کیسے نکالتا ہے۔
روزمرہ زندگی کے چیلنجز ہمارا حوصلہ توڑ سکتے ہیں۔لیکن لیڈرشپ کا مطلب ہمت ہارنے کا نام نہیں ہے۔لیکن یہ ایک بڑے کام کے لئے درست ماحول بنانے کا نام ہے۔
آخری بار آپ نے کب اسٹینڈ لیا تھا؟
لیڈرز بہادرانہ اسٹینڈ لیتے ہیں،دوسری جانب بزدل ایسی صورتحال میں بھاگ جاتے ہیں۔ہماری زندگی کا تعین اس بات سے نہیں ہوتا کہ ہم کہاں ہیں، بلکہ اس سے ہوتا ہے کہ ہم کن لوگوں کے ساتھ کہاں جا رہے ہیں کیونکہ ہم سکون کی تلاش میں ہوتے ہیں نہ کہ چیلنجز کوقبول کرنا چاہتے ہیں۔ہم عزت سے زیادہ مقبولیت چاہتے ہیں۔
لوگ اسٹینڈ لینے سے گھبراتے کیوں ہیں؟
اس کی سب سے بڑی وجہ سہل پسندی ہے۔جب تک لوگ مشکل پسندی پر آرام پسندی کو ترجیح دیتے ہیں، معاشرہ نیچے کی جانب ہی جاتا ہے۔جو لوگ اسٹینڈ لینے سے گھبراتے ہیں، وہ ہمیشہ آسانیاں چاہتے ہیں۔یہ لوگ کمزور اور بے اعتماد ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ ذمہ داری نہیں لینا چاہتے یااس کے ساتھ منسلک احتساب سے بچنا چاہتے ہیں۔وہ دنیا کو الزام دینا اور بہانے بنانا آسان سمجھتے ہیں۔اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں ہے۔وہ جدوجہد سے زیاہ تحفظ چاہتے ہیں۔وہ سوچتے ہیں،’’میں بہت کمزور اور بے یارومددگار ہوں اور یہ مسئلہ بہت بڑا ہے۔میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘وہ تنگی کے ساتھ ہی خود کو ہم آہنگ کر لیتے ہیں۔وہ اس تنگی کے ساتھ ہی گزارا کرتے ہیں کیونکہ وہ تبدیلی کو خوش آمدید نہیں کہنا چاہتے۔
اسٹینڈ لئے بغیر معاشرے میں کوئی بھی بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔مضبوطی اور ضد اور شہرت اور مقبولیت کے بیچ میں بہت چھوٹی سی لکیر ہے۔اسٹینڈ لینے کا مطلب ہے کہ آپ کسی مسئلے کے حق یا مخالفت میں ایک واضح نقطہ نظر اپناتے ہیں۔
نسلِ انسانی میں جتنے بھی لیڈروں نے اسٹینڈ لیا ہے انہوں نے دکھ اور تکلیف کو بھی ذہنی طور پر قبول کیا ہے۔انہیں اذیتیں دی گئیں، قتل کیا گیا، زندہ جلایا گیا لیکن وہ معاشرے کے مجموعی فائدے سے پیچھے نہیں ہٹے۔وہ اس فلسفے پر یقین رکھتے تھے کہ زندگی میں زیادہ سال جینا اہم نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ نے زندگی گزارنے کے لئے کون سے اصول بنائے ہیں۔اچھے لیڈرز وہ کرتے ہیں جو درست ہوتا ہے،وہ نہیں کرتے جو انہیں مقبول بناتا ہے۔
اخلاقیات، ایمانداری اور اچھائی کی قیمت پر جو شہرت حاصل کی جاتی ہے اس میں عزت نہیں ہوتی۔جو مقبول ہوتا ہے ضروری نہیں وہ مشہور بھی ہو اور جو مشہور ہوتا ہے ضروری نہیں وہ مقبول بھی ہو۔
اعتماد کا فقدان
آج کل کے لیڈروں میں اعتماد کا فقدان کیوں ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے وعدے جھو ٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتے ۔کچھ لیڈر پوزیشن کے لئے اپنے اصول بدل لیتے ہیں جبکہ کچھ لیڈر اصولوں کے لئے پوزیشن بدل لیتے ہیں۔
’’اپنے فائدے کے لئے تو شیطان بھی آیات کا حوالہ دے دیتا ہے۔‘‘ (ولیم شیکسپئیر)
پیروکار جعلی لیڈر کو آسانی سے پہچان لیتے ہیں ا ور پہچان سکتے ہیں، جسے ہم نام نہاد لیڈر کہتے ہیں۔اب آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر وہ جعلی لیڈر کو پہچان لیتے ہیں تو اس کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟بے ایمان لیڈر منتخب کیسے ہو جاتے ہیں؟اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
زیادہ تر یہ دو برائیوں میں سے کسی ایک کو چننے کا مقابلہ ہوتا ہے۔لوگ ایک انجانے شیطان کے نسبت ایک جاننے والے شیطان کو منتخب کرتے ہیں۔وہ کم برائی کو منتخب کرتے ہیں اور ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا۔جب وہ جانتے بوجھتے ہوئے کسی بے ایمان لیڈر کو منتخب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس پر اعتماد کرتے ہیں بلکہ یہ ایک طرح کی تجارت ہوتی ہے۔جس چیز کو وہ اکثر اوقات سمجھ نہیں پاتے وہ یہ ہے کہ وہ ایک تصوراتی فائدے کے لئے ایک طویل مدتی تکلیف کا انتخاب کر رہے ہیں۔
بے یقینی کے موسم میں لوگ عام طور پر قلیل مدتی فائدے کو دیکھتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ قلیل مدتی فائدہ انہیں طویل مدت کے لئے تیار کرتا ہے۔
جو لوگ ذاتی مفاد کے لئے بے ایمان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں وہ خود بھی ان پر بھروسہ نہیں کرتے۔انہیں اپنے آپ سے دو سوال پوچھنے چاہئیں:
٭ کیا وہ ایسے لوگوں کو اپنے بچوں کا رکھوالا بنائیں گے؟
٭ کیا وہ ایسے لوگوں کو اپنی جائیداد کا نگہبان بنائیں گے؟
اگر اس کا جواب نہیں میں ہے تو اس کا مطلب ہے یہ لوگ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے۔یہ لوگ معاشرے کے دشمن ہیں اور ان لیڈروں کے جرائم میں بھی برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
کسی آدمی نے ایک پادری سے پوچھا،’’جب تم کسی سیاست دان کو دیکھتے ہو تو اس کے لئے دعا کرتے ہو؟‘‘پادری نے کہا، ’’نہیں، میں اپنے ملک کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘
اچھی لیڈرشپ کیا ہوتی ہے؟
اچھی لیڈرشپ کا تصور وقت بدلنے کے ساتھ بدلا نہیں ہے۔ذیل میں اچھے اور نام نہاد لیڈروں کی کچھ خوبیاں بتائی گئی ہیں جو ان کے رویوّں کا تعین کرتی ہیں:
نام نہاد لیڈر اچھے لیڈر
پوزیشن عمل
کنٹرول حمایت
اتھارٹی تربیت
تکنیکی مہارت انسانوں میں مہارت
بتانا سننا
کہنا پوچھنا
اپنی ذات میں گم افراد سے منسلک
حکم دینا ان پُٹ دینا
ڈرانا متحرک کرنا
پوشیدہ باخبر اور روشن ضمیر
نتائج کا انتظار کرنا نتائج کو تخلیق کرنا
ابلاغ کو فرض کرنا فیڈ بیک لینا
اسکیمیں بنانا منصوبہ بندی کرنا
چیزوں کو مینیج کرنا لوگوں کو لیڈ کرنا
طاقت کو محدود کرنا لوگوں کو طاقت ور بنانا
دھمکانا تربیت دینا
چلانا لیڈ کرنا
شہرت پر انحصارکرنا کردار پر انحصار کرنا
طویل مدتی تکلیف کی بنیاد پرقلیل مدتی فائدہ دیکھتا ہے طویل مدتی فائدے کی بنیاد پر قلیل مدتی تکلیف برداشت کرتا ہے۔
لوگ اپنے ملک کے فائدے کے لئے کچھ بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن گندی سیاست کے لئے وہ کوئی قربانی نہیں دینا چاہتے۔
ہم نام نہاد لیدڑ کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟
نام نہاد لیڈر باضمیر نہیں ہوتے۔ان کا لالچ انہیں اکساتا ہے کہ وہ غلط کاموں میں شامل ہوں اور معاشرے کا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائیں۔نام نہاد لیڈر جرائم میں شراکت دار بھی ہوتے ہیں۔وہ صرف اپنی آسانی کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور وقت پڑنے پر ایک دوسرے کا شکار بھی کرتے ہیں۔
نام نہاد لیڈرز اسٹینڈ لیتے ہیں اور وقت پڑنے پر بھاگ جاتے ہیں۔ایسا لیڈر بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہوتاہے۔وہ غلط ہوتا ہے لیکن دکھنے میں درست لگتا ہے۔نام نہاد لیڈروں کے لئے اقدار کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ا ور اگر ان کی بھی قیمت اچھی لگائی جائے تو وہ اپنے آپ کو بھی بیچ دیتے ہیں۔
ایک بار جارج برنارڈ شا نے ایک مشہور خاتون سے پوچھا کہ ایک ہزار پاؤنڈ کے بدلے میں کیا تم ایک رات میرے ساتھ بسر کرو گی؟اس خاتون نے کہا، تمہیں شرم نہیں آتی ایسا سوال پوچھتے،میں ایک معزز شادی شدہ خاتون ہوں؟برنارڈ نے کہا، دس ہزار پاؤنڈز کے بارے کیا خیال ہے؟ وہ عورت اور زیادہ غصے ہوئی اور اپنے شوہر کو بلانے ہی والی تھی کہ برنارڈ نے پھر کہا،دس لاکھ پاؤنڈ ہوں تو؟ اس عورت نے کہا،پھر سوچا جا سکتا ہے۔
برنارڈ نے پھر کہا،ویسے اگر دس پاونڈ کہا ہوتا تو کیا ہوتا؟عورت غصے سے تلملا گئی اور کہا،مسٹر شا، آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ آپ جانتے نہیں میں کون ہوں۔برنارڈ شا نے پُرسکون انداز میں کہا،ہم یہ فیصلہ تو پہلے ہی کر چکے ہیں کہ آپ کون ہیں ، اب بس رقم پر تکرار ہو رہی ہے۔
نام نہاد لیڈر زیادہ بولی لگانے والے کو منع نہیں کر سکتے۔وہ ایمان داری پر یقین رکھتا ہے، جب اسے محسوس ہو کہ اسے خرید لیا گیا ہے تو وہ خود کو بکاءو محسوس کرتا ہے،وہ جتنا زیادہ اپنے نہ بکنے کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اس کی نظر اتنی ہی دوسروں کی جیب پر ہوتی ہے۔وہ سب کے سامنے دیتا ہے اور اکیلے میں چوری کرتا ہے۔اس کی شخصیت مقناطیسی ہوتی ہے کیونکہ وہ پیسے کو کھینچتا ہے۔انہیں لوگوں کی فلاح کے کام یاد آتے ہیں جس میں وہ لوگوں کے کام بھی کرتے ہیں اور پیسہ بھی بناتے ہیں۔نام نہاد لیڈروں کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں کہ وہ ہڈی کو دیکھ کر کتوں کی طرح دم ہلاتے ہیں۔نام نہاد لیڈر کی مثال ایسی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کا قتل کر دے گا اور پھر یتیم ہونے کی بنیاد پر رحم کی اپیل بھی کرے گا۔اخلاقیات کی عدم موجودگی ہی انہیں باوقار زندگی گزارنے نہیں دیتی۔ ایک نام نہاد لیڈر کے لئے طاقت سب کچھ ہوتی ہے اور دولت ان کا خداہوتی ہے۔
اس کی مسکراہٹ لاکھوں کی ہوتی ہے کیونکہ وہ لکھ پتیوں کے لئے ہی مسکراتا ہے۔جب آپ اس کو پیسہ ادھار دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میں آپ کا ہمیشہ مقروض رہوں گا، اور جب اس سے ادھار لیتے ہیں تو آپ کو اصل سمیت سود بھی برابر چکانا پڑتا ہے۔اگر آپ کو سرمائے اور محنت میں فرق سیکھنا ہے تو اسے رقم ادھار دے کر دیکھ لیں۔جو رقم آپ اسے دیتے ہیں، وہ سرمایہ ہے اور واپس لینے کے لئے جو مشقت آپ کو کرنا پڑتی ہے وہ آپ کی محنت ہو گی۔وہ ہر اس چیز کے لئے اسٹینڈ لے گا جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ دوسرے کھڑے نہیں ہوں گے۔
زیادہ تر سیاست دانوں کے بنیادی جذبات یہ ہوتے ہیں:
خوف حسد نفرت
غصہ لالچ بدلہ
توہم پرستی عدم تحفظ عدم قوتِ فیصلہ
شک انا
نام نہاد لیڈر کی اپنی ہی ایک ذہنیت ہوتی ہے
نام نہاد لیڈروں کی ذہنیت بدلنے والے نہیں ہوتی۔جتنا وہ تنگ ذہن ہوتا ہے اتنے ہی بڑے بڑے بھاشن دیتا ہے۔نام نہاد لیڈر چھوٹے ذہن کے ساتھ بڑے بڑے کام کرتا ہے۔
وہ گھٹیا سیاست دان نہیں کہلوا سکتا
نام نہاد لیڈرز سستی شہرت کے لئے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں خواہ انہیں اپنی اخلاقیات اور راستبازی کو ہی قربان کرنا پڑے۔ ایسے لیڈرز بجٹ کو متوازن رکھنے کے لئے ملک کو ٹیڑھا کر دیتے ہیں۔جب وہ کہتا ہے کہ اسے اور ملک کو سپورٹ کرو، تو وہ اصل میں دو ووٹ مانگتا ہے۔ایک اپنے لئے اور دوسرا ایک اچھی حکومت کے لئے۔اس کا وقت دفتر جانے اور چھپنے کے بیچ میں ہی تقسیم ہوتاہے۔
سیاست دان، لیڈر سے کیسے مختلف ہوتا ہے؟
٭ لیڈر راستے بناتا ہے جبکہ سیاست دان رابطے توڑتا ہے۔
٭ لیڈر تعاون، اعتماد اور تخلیقیت کو پیدا کرتا ہے جبکہ سیاست دان انتشار، پریشانی اور مسائل کو جنم دیتا ہے۔
٭لیڈر حکمتِ عملی بناتا ہے، سیاست دان ڈرامہ کرتا ہے۔
٭لیڈر رہنمائی کرتا ہے، سیاست دان گمراہ کرتا ہے۔
٭ لیڈر دوسروں کی زندگی بہتر بناتا ہے، سیاست دان اپنا بینک بیلنس بہتر بناتا ہے۔
٭لیڈر اپنے کردار کو مضبوط کرتا ہے، سیاست دان اپنے پیروکاروں کو استعمال کرتا ہے۔
٭لیڈر خواب دیکھتا ہے، سیاست دان سکیم بناتا ہے۔
٭سیاست دان کا انتظامی فلسفہ یہ ہوتا ہے:
طاقت کا ذریعہ: لالچ
ویژن: میرے لئے اس میں کیا ہے
نظامت کا انداز: ہر جگہ مسائل کی تلاش میں رہنا
احساسِ انصاف: مجرم کا تحفظ، معصوم کو سزا
تحریک: نااہل کو نوازنا
طاقت کا سرچشمہ: افراتفری اور پریشانی
گدھے کی طرح ضدی:
ایک کسان کے پاس دو گدھے تھے۔وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ دونوں میں سے زیادہ ضدی کون ہے۔سو اس نے دونوں کو 15 فٹ لمبی رسی سے باندھ دیا۔اس نے پچیس فٹ کی دوری پر بھوسے کے دو تھیلے رکھ دئیے اور انہیں ڈھیلا چھوڑ دیا۔انہوں نے ان تھیلوں کی طرف مسلسل بڑھنا شروع کیا، وہ کھینچتے جاتے لیکن ان تک پہنچ نہ پائے۔اور ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیا۔حتیٰ کہ انہوں نے ایک دوسرے کو مار مار کر ختم کر دیا۔وہ چاہتے تو دونوں مل کر ایک تھیلا کھاتے اور پھر دوسرا تھیلا مل کر کھاتے۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، کیوں؟کیونکہ وہ گدھے تھے، مل کر کام نہیں کیا، ایک دوسرے کوختم کر دیا۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی کچھ ایسے گدھے ہیں، جب انہیں کوئی طاقت ور پوزیشن ملتی ہے تو معاشرے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔نام نہاد لیڈر ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔آپ کا واسطہ ان سے پیشہ وارانہ یا ذاتی طور پر پڑتا ہے۔یہ ہمارے دوست، رشتہ دار یا ہمسائے بھی ہوسکتے ہیں۔
’’کوئی تہذیب بیرونی حملہ آوروں کے وحشیانہ حملوں سے ختم نہیں ہوتی،بلکہ یہ اندر سے وحشیوں کے جنم لینے سے ختم ہوتی ہے۔‘‘
(وِل ڈیورانٹ)
حقیقی لیڈر نہ صرف سچے ہوتے ہیں بلکہ وہ دھوکے سے بھی نفرت کرتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ جھوٹ سچائی کے ساتھ پیش آنے والی تکالیف سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
بڑے لوگوں کی زندگیاں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہم اپنی زندگی کو بھی لاجواب بنا سکتے ہیں اور اپنے پیچھے اس دنیا میں اپنا نقشِ قدم چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔
(ہنری ورڈزورتھ لانگ فیلو)
یہ مضمون شیوکھیڑا کی مندرجہ ذیل کتاب سے ماخوذ ہے ۔
کتاب کو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرواکے دارالشعور،لاہور نے شائع کیا ہے۔ آپ کتاب کو 03044802030 اس نمبر سے حاصل کرسکتے ہیں۔