اگر اجتماعی مقاصد سامنے اور اَہداف واضح ہوں تو ایک سرگرم قوم اپنی منزل تک کے سفر کے لیے شب و روز اور ماہ و سال کوبھی اپنی حیاتِ اجتماعی کے اہم سنگ ہائے میل شمار کیا کرتی ہے، لیکن اگر کارگزارِ حیات کی کوئی سمت ہی متعین نہ ہو تو پھر انسانی آبادیوں میں چلتے پھرتے، مگر مقصد ِحیات سے بیگانے انسانوں پر صدیاں بھی بیت جائیں تو بے جان پتھروں کی طرح اپنی جگہ پر کھڑے کسی بھی تبدیلی کا منہ چڑا تے رہتے ہیں۔
سن 2021ء کا سورج بھی اپنے جلو میں بہت سے اَلمیے اور صدمے لیے غروب ہوا۔ اس میں ہونے والے واقعات ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہے ہیں اور ہم اپنی جگہ گیلی لکڑی کی طرح پڑے سلگ رہے ہیں۔
خصوصاً اس سال کے آخری مہینے میں سیالکوٹ میں جنم لینے والے اندوہ ناک واقعے نے ایک بار پھر پوری دنیا کو ہماری طرف متوجہ کردیا ہے۔ اور ایک ہماری نام نہاد مذہبی و سیاسی قیادت ہے، جو اپنے روایتی بیانات کو اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہے کہ یہ چند اَفراد کا ذاتی فعل ہے، اس سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں اسلام اس طرح کے گھناؤنے فعل کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پھر ایسے واقعات ہمارے ہاں پورے تسلسل کے ساتھ کیوں ہوتے رہتے ہیں؟ کیا اس حادثے کے مرتکب افراد کسی اَور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ یا کسی اَور ملک سے آکر انھوں نے یہ جرم کیا؟ آخر انھوں نے یہ ذہن کہاں سے لیا ہے؟ اس فصل کو ہمارے ہاں کس نے کاشت کیا؟ اور کون اسے پانی دیتا ہے؟ یہ واقعہ یک دم نہیں ہوا۔ یہ ایسے ہی بہت سے واقعات کی ایک کڑی ہے۔ ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہمیں آج پھر ایک بار اس کے اَسباب اور رُوٹس پر غور کرنا چاہیے کہ آخر اس طرز ِعمل کا کُھرا کس کے گھر جاتا اور ہمارے معاشرے میں اس کی جڑیں کہاں موجود ہیں؟ کیوںکہ جذبات کے پریشر ککر کی سیٹی مسلسل بج رہی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے واقعات کے رونما ہونے پر ایک شور اُٹھتا ہے اور پھر روایتی بے حسی اس وقت تک قائم رہتی ہے، جب تک یہ پریشر ککر دوبارہ کہیں پھٹ نہ جائے۔ آج بھی کلاس رومز میں معصوم بچوں کے ذہن میں زہر اُگلنے والے اسی ملک و ریاست میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکومت ان کی عوامی پذیرائی کا سامان فراہم کرنے کے لیے کمر بستہ ہے۔
اس خطے میں ہزاروں سال سے بہت سے مذاہب موجود رہے ہیں۔ اس کثیر المذہبی خطے کی یہ خوبی رہی ہے کہ یہاں کے لوگ مذہب و عقیدے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سمجھتے رہے ہیں۔ آخر مذہبی اور عقیدے کی سرزمین میں مذہب کو فسادات کا ذریعہ کس نے بنایا؟ اور کسی بھی سماج کی اس خوبی کو خامی میں بدلنے کی منصوبہ بندی کب، کہاں اور کس نے کی ؟
انسان کے مذہبی جذبات کا مطالعہ اور دورِ نبویؐ کی تربیتی حکمتِ عملی اور اس پر بننے والے معاشروں کی پوری ایک تاریخ ہمارے سامنے موجودہے۔ جیساکہ اُوپر ذکر ہوا، یہ خطہ بذاتِ خود اپنے دامن میں بہت سے عقیدوں اور مذاہب کو سمونے کی ایک شان دار تاریخ رکھتا ہے۔
مسلمان صوفیا اور حکمرانوں نے دُنیا بھر کے مختلف اور متنوع نفسیات اور مزاج کے حامل علاقوں میں اسلام کے انسانی پہلو کو اُجاگر کرکے اسلام کو عام انسانیت کے لیے قابلِ قبول دین بنایا تھا۔ پھر آخر کیا ہوا کہ ہم اس موجود روایت کو سنبھال نہیں پارہے؟ نقب کہاں لگائی گئی ہے؟ اور دشمن کہاں کھات لگائے بیٹھا ہے؟ یہ آج سب سے اہم کرنے کا کام ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں اس سلسلے میں اپنے ہاں موجود سیاسی عمل کا جائزہ لینا ہوگا کہ جہاں دو قوتیں مسلسل اپنے گروہی اور خالصتاً ذاتی مفادات کے لیے مذہب کو بے دریغ استعمال کرتی ہیں، ان میں سے ایک قوت حکمران ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو عوام میں قابلِ قبول بنانے کے لیے مذہب کے نام کو استعمال کرتے ہیں۔ ’’اسلام کے نام پر ایک تجربہ گاہ حاصل کرنے کے عمل سے لے کر ریاستِ مدینہ‘‘ کے سلوگن تک پوری تاریخ اس عمل کی سنگینی کی گواہ ہے۔ دوسری قوت ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں، جو ’’نفاذِ نظامِ اسلام‘‘ کے نام پر اس چورن کو قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مسلسل بیچ رہی ہیں۔
آج ہم جس خطرناک صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں، وہ اس دوسری قوت، یعنی مذہبی سیاسی جماعتوں کے پاکستان میں مکمل اقتدار حاصل کرنے کی پسپائی کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں اپنے حصے کو یقینی بنانے کے لیے مذہبی شدت پسندی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے، جو معاشرے کے لیے بہت ہی خطرناک رُجحان ہے۔ جب کسی معاشرے میں مذہب جیسے پاکیزہ جذبات کواپنی مذہبی اتھارٹی منوانے اور اقتدار میں حصے داری کی سودے بازی کے لیے استعمال کیا جانے لگے تو ایسے دور میں دینی شعور و بصیرت کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔ ورنہ یہ طبقے دینِ اسلام جیسے مکمل اور حقیقی دین کے چہرے کو مسخ کردینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ قرآن حکیم نے اس سلسلے میں سابقہ ادیان کی صورت بگاڑنے میں یہودیت اور عیسائیت کی تاریخ اور رویوں کا ایک وافر حصہ فراہم کیا ہے، جس سے آج بھی اپنے فکر و شعور کو جلا بخشی جاسکتی ہے۔
اب ہمارے سامنے قابلِ عمل صورت جو ایک دینی فریضے کی حیثیت بھی رکھتی ہے، وہ گروہی مفادات کی بنیاد پر جاری سیاسی عمل میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے بجائے پہلے اسلام کے حقیقی تصور کا شعور پیدا کرنا اور اُجاگر کرنا ہے، تاکہ اپنے عہد کے ان طبقوں کی طرف سے آئی آفت سے مخلوقِ خدا کو بچایا جاسکے۔
(اداریہ ماہنامہ رحیمیہ لاہور ۔ شمارہ جنوری 2022ء)