گزشتہ مہینے دھرنے کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے والی ایک مذہبی جماعت کے ساتھ حکومتی مذاکرات نے پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کی سیاست اور اس کے پسِ پردہ محرکات پر غور و فکر کرنے کے اَسباب ایک بار پھر مہیا کیے ہیں۔ ہماری قومی تاریخ ایسے المیوں سے پُر ہے، جس میں ہم مثبت سمت آگے بڑھنے کے بجائے گزشتہ سات دہائیوں سے دائرے کا چکر کاٹ رہے ہیں۔
اس بار ’تحریک‘ سے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد ’’گرفتار شدگان‘‘ کی رہائی کا عمل بھی فوراً شروع کردیا گیا تھا۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبے بھر میں ٹی ایل پی کے 1800 سے زائد ایسے افراد کو رہا کر دیا تھا۔ پھر گزشتہ ہفتے 18؍ نومبر کوحکومتِ پنجاب نے ’تحریک‘ کے سربراہ کو بھی رہا کر دیا ہے۔ حکومت نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’تحریک‘ کے گرفتار افراد کو معاہدے کے تحت رہا کر کے معاہدے کے تمام نکات پر عمل کردیا گیا ہے، بلکہ معاہدے کے تحت تحریک کا نام کالعدم تنظیم کی لسٹ سے نکال دیا گیا ہے اور کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول سے بھی نکال دیے گئے ہیں۔
اس بار ریاست نے جس انداز سے معاملے کو ہینڈل کیا ہے، اس سے ریاست کی بے بسی عیاں ہے، بلکہ ایک ریاستی ذمہ دار وزیر (وفاقی وزیرِ اطلاعات ونشریات) کے اس بیان نے حقیقت کو مزید عیاں کردیا ہے کہ: ’’ٹی ایل پی کیس میں ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ حکومت و ریاست انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے مکمل تیار نہیں۔ ریاست کا کنٹرول ختم ہونے پر جتھے قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ حکومتی رٹ ختم ہوگی تو انتہا پسند حاوی ہوجائیں گے‘‘۔ ان کے بیان کے دوسرے حصے نے تو ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ‘‘ والی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ وہ کہتے ہیں : ’’انتہاپسندی کے ذمہ دار مدارس نہیں، اسکولز اور کالجز ہیں، جہاں 80، 90ء کی دہائی میں شدت پسند اساتذہ بھرتی کیے گئے‘‘۔
یہ وہ صورتِ حال ہے، جس سے پاکستان میں شدت پسند جماعتوں کی پیدائش اور افزائش کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ان جماعتوں کی کوئی سیاسی اور عوامی حیثیت نہیں ہوتی، بلکہ یہ جماعتیں ایوانوں سے زیادہ جلسوں کے میدانوں اور سڑکوں پر زیادہ سرگرم نظر آتی ہیں۔ اس لیے کسی قسم کی قانون سازی سے زیادہ ان کا زور احتجاجی سیاست پر ہوتا ہے اور وہ اقتدار کی ساز باز میں پریشر گروپ یا حکومتوں کے خلاف تحریکوں میں ایک عنصر کے طور پر موجود رہتی ہیں۔ ان کی مجمعوں اور جلسوں کی پاور اس شدت پسند مذہبی عنصر کے باعث ہوتی ہے، جن کی اکثریت مدارس کے طلبا اور اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہے، جو مختلف علاقوں سے کسی ایک جگہ پر جمع ہو کر اپنا پاور شو کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ جماعتیں ایسا کوئی ایجنڈا نہیں رکھتیں، جس سے پاکستان میں موجود حقیقی مسائل کے حل کی کوئی اُمید کی جاسکے۔ کسی بھی مذہبی پارٹی کو جب کسی بھی جزوی مسئلے کو ایشو بناکر اسلام کے اجتماعی نظام سے پہلو تہی کرتے دیکھا جائے تو سمجھ لیا جائے کہ یہ جماعت‘ اسلام کے جامع نظامِ فکر سے تہی دست ہے اور وقتی نعرے کے طور پر اسلام کے نام کو جذباتی طور پر استعمال کرکے کچھ مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، یا کسی اَور قوت کے حق میں استعمال ہوجائے گی۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
ان جماعتوں کا سب سے خوف ناک پہلو اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے انسانی لاشوں کو اپنی بیساکھیاں بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں جب سرگرم ہوتی اور سڑکوں پر نکلتی ہیں تو انھیں اپنے وجود کو منوانے کے لیے چند لاشوں کی ضرورت ہوتی ہے، جن کا پہلے ہی مرحلے میں اہتمام کرکے اپنی طاقت کو منوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان تحریکوں کو اگر خونی تحریکیں کہا جائے تو نامناسب نہ ہوگا۔ کیوں کہ جب بھی یہ شروع ہوئی ہیں تو انسانی جانوں سے انھوں نے اپنی بھوک مٹائی ہے۔
ایسی جماعتوں کی عمر جامع نصب العین نہ ہونے کے باعث زیادہ لمبی نہیں ہوتی۔ ایسی جماعتوں کی طاقت وقتی ہجوم اور سودے بازی کی قوت ہوتی ہے، جس کے باعث وہ اقتدار میں موجود قوت کو مصروف (Engage) رکھتی ہیں۔ جیسے ہی ان کی پشت پر موجود ہجوم کا زور ٹوٹتا ہے یا توڑ دیا جاتا ہے تو ان کا وجود بھی بکھر کر رہ جاتا ہے۔ حکومتیں کبھی بھی ایسی تحریکات کو سنجیدہ نہیں لیتیں، بلکہ وہ انھیں ایک عارضی اور ہنگامی صورتِ حال کے طور پر ڈیل کرتی ہیں۔ ان کے اور ریاست کے درمیان معاہدات کا کوئی مستقل میکنزم طے نہیں ہوتا، اس لیے کہ جو معاہدے بنیادی اجتماعی تقاضوں کے منافی ہوتے ہیں، اُن کے نتیجے میں اعتماد کی روح کسی صورت برقرار نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کے ساتھ موجودہ حکومت سمیت ریاست کئی ایک معاہدے کرچکی ہے، لیکن کوئی معاہدہ بھی ریاست اور تحریک کے درمیان اعتماد کی مستقل فضا قائم نہیں کرسکا۔
آج ہمیں ان اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جن کے باعث ہمارے ہاں ایسی شدت پسند مذہبی تحریکات پیدا ہوجاتی ہیں۔ ان جماعتوں کا اُبھار اس بات کو تقویت بخشتا ہے کہ معاشرے میں اعتدال پسند سیاسی قوتوں کا زوال ایک یقینی امر کے طور پر اب تسلیم کرلیاجانا چاہیے، جس کے سبب انتہا پسندانہ رُجحانات پروان چڑھ رہے ہیں۔ ان رُجحانات کو کیش کرانے کے لیے یہاں پر مسلط نظام انھیں اپنے مقاصد کے لیے ایک شناخت دیتا ہے، جماعت یا تحریک کا عنوان دے کر سپرد شدہ کام لیتا ہے۔
اس کی ایک وجہ دین بے زار مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی وہ مکاری ہے، جس میں وہ مذہبی مُسلَّمات کے احترام کے بجائے اپنے ہاں ایسے عناصر کی سرپرستی کرتا ہے، جو دینی مُسلَّمات کا مذاق اڑاکر عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرکے مسلمان ملکوں میں عدمِ استحکام کی راہ ہموار کرتا ہے۔ جس کے سبب عوام ایسی جماعتوں کے مذہبی نعروں کے زیر سایہ ذہنی اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
ان جماعتوں کے فروغ میں ایک اہم فیکٹر ملک کی داخلی سیاسی حکمتِ عملی بھی ہے، جس میں سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ کو مینج کرنے والی قوتیں الیکشن کے نتائج کواپنے حق میں متوازن رکھنے کے لیے ایسی جماعتوں کی درپردہ سرپرستی کرتی ہیں۔ ان کے لیے ان کی الیکشن کی کارکردگی، سیٹیں حاصل کرنے اور جیتنے سے زیادہ ان کے ووٹ بینک کے ذریعے سے ووٹوں کو تقسیم کرکے اپنی ناپسندیدہ قوتوں کو ہرانے کے حوالے سے زیادہ اہم شمار کی جاتی ہے۔ ایسی جماعتوں کا پورے تسلسل کے ساتھ وقفے وقفے سے پیدا ہوتے رہنا ہمارے قومی شعور کے سلب ہونے کی علامت کے طور پر سمجھاجانا چاہیے۔ کسی معاشرے میں ایسی تحریکوں کی موجودگی‘ اس کے سیاسی شعور کی نفی ہوتی ہے کہ جہاں لوگ کسی نصب العین کے بجائے نعروں اورلیڈر شپ کی شخصیات کی اندھی عقیدت پر مرنے مارنے پر اُتر آتے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دینِ اسلام کے جامع پروگرام کے تعارُف کے ذریعے ایک حقیقی قومی جماعت کی راہ ہموار کی جائے، جو قوم کو اس دلدل سے نکال کر قومی ترقی کا راستہ دکھا سکے۔
(اداریہ ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ دسمبر 2021ء)