وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات پیش کی تھیں۔ یہاں روز ِاوّل کی طرح آج بھی ایک پارٹی جس کے پاس اقتدار بھی ہے، وہ اپنی سیاست میں ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے سلوگن کو بڑی ’’مستقل‘‘ مزاجی سے اپنائے ہوئے ہے۔ اگرچہ وہ اپنے تین سالہ دورِ اقتدار میں کوئی بھی پالیسی ریاستِ مدینہ کے اصول پر نہیں بناسکی، خصوصاً ملک کی اقتصادی حالت اور مہنگائی کے منہ زور گھوڑے نے ان کے تمام تر دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔
ہماری رائے میں ریاستِ مدینہ آں حضرت ﷺ اور آپؐ کی تربیت یافتہ جماعت کے نظام کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا انتہائی اہم ہے۔ اس قُدسی صفت جماعت نے اندرونی و بیرونی چیلنجز پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ایسے اعلیٰ سیاسی، سماجی اور معاشی اصولوں پر مبنی نظام قائم کیا، جس کی ناگزیریت کو آج بھی دنیا تسلیم کرتی ہے۔
خلافتِ راشدہ ایک مثالی اور ماڈل حکومت کا مفہوم رکھتی ہے، جس کا نظام چند ایسے سیاسی و معاشی اصولوں سے عبارت ہے، جو اپنی معنویت میں سدا بہار ہیں۔ زمان و مکان کا کوئی تغیر و تبدل اس کی تازگی کو گہنا نہیں سکتا۔ ان اصولوں کی اس آفاقی حیثیت کو کہیں بھی اور کسی بھی دور میں اپنا یا جاسکتا ہے۔ اس نظام کا ایک اہم اصول بامعنی اجتماعی مشاورت رہا ہے کہ لوگوں کی رائے اور مشورے سے حکومت قائم ہوگی۔ اس کو موجودہ دور میں جمہوریت کی مروّجہ تعبیر سے پہچانا جاتا ہے۔ عوام کی رائے کے علی الرغم حکومت پر کسی چور دروازے سے یا محض طاقت سے قبضہ نہیں کیا جاسکتا، اور جس شخص کو حکمران منتخب کرلیا جائے، وہ آمرانہ طرز ِحکومت نہیں کرے گا، بلکہ حکومت چلانے میں وہ لوگوں کی رائے اور مشورے کا پابند ہوگا۔ مشورے اور رائے کا فورم ہر زمانے میں کسی بھی شکل و صورت کا ہوسکتا ہے۔ چناں چہ چاروں خلفا کے تقرر میں جمہوریت کے اصول پر لوگوں کی مشاورت نے اہم کردار ادا کیا۔ حکومت کے معاملات کوخلیفہ کے ساتھ باقاعدہ ایک کابینہ چلایا کرتی تھی، جو عموماً سنیئر ترین صحابہؓ پر مشتمل تھی، جس میں سربراہی کا کردار خلیفہ اداکرتے تھے۔ بڑے اور اہم مسائل میں مشاورت کا پروسیجر یہ تھا کہ فیصلے سے قبل ’’الصّلٰوۃ جامعۃ‘‘ کا اعلان کروایا جاتا، جس پر دارالخلافہ کے تمام افراد مسجد میں جمع ہوجاتے، حتی کہ خواتین سے رائے حاصل کرنے کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ حل طلب مسئلہ حاضرینِ شوریٰ کے سامنے پیش کیا جاتا۔ سب لوگ آزادی سے اپنی رائے دیتے۔ جس پر اتفاقِ رائے ہوجاتا، اس پر فیصلہ کرلیا جاتا۔ مشاورت میں اصحابِ عشرہ مبشرہ، بدری صحابہ اور بیعتِ رضوان میں شریک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتھ عام باشندگان سے بھی رائے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اگرکسی موقع پر خلیفۂ وقت اور عام لوگوں کی رائے میں تعارُض پیدا ہوجاتا تو خلیفہ اپنی رائے کو جبر سے نافذ نہیں کرتا تھا، یہاں تک کہ وہ عام مجمع کی اکثریت کو استدلال کی قوت سے قائل کرتا اور وہ خلیفہ سے متفق ہوجاتے۔
جب کسروِی نظام کے خاتمے کے بعد عراق کی مفتوحہ زمینوں کا مسئلہ درپیش ہوا تو اکثریت کی رائے ان زمینوں کو ان فاتحین میں بہ طور مالِ غنیمت تقسیم کرنے کی تھی، جن کی جدوجہد سے عراق زیرِنگیں ہوا، جب کہ خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کی رائے ریاستی ملکیت میں رکھتے ہوئے زمینوں پر پہلے سے کام کرنے والے کسانوں سے پارٹنرشپ پر معاملہ طے کرنے کی تھی کہ وہ پیداوار کا ایک متعین حصہ یا متعینہ معاوضہ (خراج) ریاست کو ادا کریں اور بقیہ پیداوار سے فائدہ اٹھائیں۔ اس پر کئی دن بحث ہوئی۔ بالآخر جب اکثریت حضرت عمرؓ کی رائے سے متفق ہوئی تو تب اسے نافذ کیا گیا۔
قومی سطح کے مسائل میں قبائل اور صوبوں کی قیادت کو بھی بلایا جاتا اور ان کے ساتھ اجتماعی مشاورت کے بعد فیصلے کیے جاتے۔ مشاورت کے ان اجتماعات میں سرکاری نمائندوں کے ساتھ ساتھ قوم کے عام افراد کو بھی شریک ہونے کا پورا پورا حق دیا جاتا تھا۔ ان اجلاسات میں کوئی بھی شخص آکر اپنی رائے نہ صرف دے سکتا تھا، بلکہ اجلاس کے علاوہ کسی بھی وقت دربارِ خلافت میں اپنی رائے اور مشورہ نوٹ کرواسکتا تھا۔ دربارِ خلافت کے اجلاسات کسی عالی شان محل کے بجائے عام مساجد میں منعقد کیے جاتے، تاکہ اس میں ہر شخص کی شرکت ممکن ہو۔
آج بسا اوقات ’’جمہوری‘‘ حکومتوں میں بھی بعض معاملات عام رعایا سے ریاست کے مفاد کے نام پر خفیہ رکھے جاتے ہیں اور انھیں پبلک نہیں کیا جاتا، جب کہ خلافتِ راشدہ کے نظام میں حکومتی معاملات سے عام رعایا کو باقاعدہ باخبر رکھا جاتا تھا اور اس کے لیے نماز ِجمعہ کو مرکزیت حاصل تھی۔ دارالحکومت مدینہ منورہ میں شہری آبادی کے ساتھ ساتھ گرد و نواح کے دیہی علاقوں سے بھی لوگ بھرپور شرکت کرتے۔ حاکمِ وقت بھی جمعہ کا خطبہ اور گفتگو عام مذہبی مسائل کے بجائے اہم حکومتی معاملات اور اہم اُمور تک پھیلا دیتے۔ جمعہ کے مجمع میں شریک لوگوں کو عام اجازت ہوتی کہ وہ خلیفہ کی رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں اور کسی سرکاری پالیسی پر تنقید یا عدمِ اطمینان کا اظہار بھی کرسکتے ہیں۔ تاریخ نے اپنے دامن میں ایسے بیسیوں واقعات محفوظ کر رکھے ہیں، جو ہمارے اس دعوے کی دلیل ہیں۔
یہ آزادیٔ رائے اور جمہوریت کی فضا صرف مرکز ِخلافت ’مدینہ منورہ‘ تک ہی محدود نہیں تھی، بلکہ خلافتِ راشدہ میں قائم تمام صوبوں میں اسی ماڈل کو اختیار کیا گیا تھا۔ ہر شہر اور صوبوں کے گورنروں کا تعین مقامی لوگوں کی رائے اور مشورے سے ہوتا تھا۔ اہلِ بصرہ اور کوفہ والوں نے کئی بار اپنے گورنروں کے تبادلوں کے مطالبات مرکزِ خلافت تک پہنچائے تو ان کی رائے پر گورنر بدل دیے گئے۔ حج کے موقع پر گورنروں کی کارکردگی کاجائزہ لینے کے لیے باقاعدہ کھلی کچہریاں لگتیں اور کوئی بھی عام شخص بلا خوف و تردّد گورنروں کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کرسکتا تھا۔ یہ ریکارڈ بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے کہ لوگ خلفائے راشدین تک اپنی شکایات پہنچاتے اور وہاں سے اپنے حق میں فیصلے لیتے۔ مرکزِ خلافت باقاعدہ عام لوگوں کے حقوق کا محافظ تھا اور گورنروں کو باقاعدہ حکم تھا کہ وہ اپنے فیصلے اہلِ شہر کی مشاورت کے بغیر سرانجام نہیں دے سکتے۔ مشاورت ان پر لازم ہے۔خلافتِ راشدہ کے نظام میں انسانی بنیادی حقوق سمیت آزادیٔ اظہارِ رائے اور مشاورت کا ایسا اہتمام کیا گیا تھا کہ آج کا جدید جمہوری نظام بھی شاید اس کی مثال پیش نہ کرسکے۔
(اداریہ ماہنامہ رحیمیہ لاہور ۔ شمارہ نومبر 2021ء)