اللہ تعالیٰ کے انسانوں پر جو ان گنت احسانات ہیں، ان میں سب سے بڑا احسان ہدایت ہے جس کی بدولت انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ اگر ایک انسان جو بظاہر بہت عقل مند معلوم ہوتا ہو، لیکن وہ اپنے رب کی معرفت سے اگر محروم ہے تو گویا اس سے بڑا تہی دست اور محروم لذاتہ انسان دوسرا کوئی نہیں ہے۔ لیکن یہ دنیا چونکہ دار الاسباب کے ساتھ مقید کردی گئی ہے، جس میں تمام افعال اور ان کے ظہور میں ایک علت و معلول کا ارتباط دکھائی دیتا ہے، لہذا خدا نے اپنی ہدایت اور معرفت کیلئے بھی ایک وسیلہ درمیان میں رکھ کر انسانوں کیلئے اپنے تک پہنچنے کی راہ آسان کردی، اور اس وسیلے یا علت کا نام نبوت ہے۔ گویا ایک نبی علیہ السلام کی ذات وہ وسیلہ اور ذریعہ ہے جس کی بدولت ایک عام انسان ، خدا کی معرفت اور اس کا شعور حاصل کرکے دنیوی اور اخروی زندگی میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ بطور ِ مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء اپنے اپنے دور کے اندر برحق تھے، تاہم ایک نبی کے دنیا سے جانے کے بعد جب دوسرا نبی اس کی جگہ آتا تو سابقہ نبی کی نبوت منسوخ ہوجاتی اور اس کی جگہ نئے نبی کی ذات اتمام حجت کا کام کرتی تھی۔
جس زمانے میں نبی اکرم ﷺ دنیا میں مبعوث ہوئے ، اُس سے قبل سیدنا عیسیٰ ؑ وہ آخری نبی تھے جو دنیا میں آئے تھے اور ان کی ملت کو عیسائیت کہا جاتا تھا۔ یہ دین جو اپنے نبی کے زمانے میں دین ِ اسلام ہی تھا مگر مرور ِ ایام کی بدولت اس میں ردو بدل ہونے کی وجہ سے اس کی تمام تعلیمات اس تئیں خلط ملط ہوکر رہ گئیں کہ اصل دین ِ اسلام کا کہیں نام و نشاں تک باقی نہ رہا۔ تاہم حضور ِ اکرم ﷺ کے آنے کی بدولت اسلام ایک مرتبہ پھر ، منصہ شہود پر آیا اور دنیا کے تمام انسانوں کے واسطے باعث ِ فلاح و کامرانی ثابت ہوا۔ اس دین ِ اسلام میں جو سب سے عمدہ تصور ہمیں ملتا ہے ، وہ دین و دنیا کے مابین ایک عادلانہ توازن ہے کہ جس میں نہ تو تارک الدنیا ہونا بالذات مقصود ہے اور نہ تارک الدین ہونے کو بنظر ِ استحسان دیکھا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات اور قرآن مجید کے احکامات کا بنظر ِ عمیق مطالعہ کیا جاوے ، تو یہ بات آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ اسلام کے نزدیک دنیا وہ محل ہے جس میں رہتے ہوئے ، انسان نے اپنی عاقبت کو سنوارنے کی کوشش کرنی ہے۔ تاہم اسلام کے نزدیک ہر وہ فعل یا ہر وہ عمل جو دنیا سے گریز کا سبب بن جائے اور جس کی بدولت معاشرے کا توازن بگڑتا دکھائی دے اس کی نفی کی گئی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال نبی اکرم ﷺ کی ذات ِ گرامی خود ہے۔
آپ ﷺ کے اوپر آغاز ِ نبوت میں وہ دور بھی آیا کہ جب، آپ ﷺ راتوں کو طویل قیام فرماتے اور اپنے رب کو تنہائی میں یاد کرتے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سورۃ مزمل کے ذریعے وحی کرکے اس میں استخفاف کرنے کی تلقین کی ، تاکہ آپ ﷺ کے باقی امور متائثر نہ ہوں۔ یہی سبب ہے کہ جب کچھ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس بات کی قسم کھائی کہ وہ تما عمر روزہ رکھیں گے، شب میں قیام کریں گے اور تجرد والی زندگی گزاریں گے تو آپﷺ نے ان سب کو اس فعل سے منع کیا اور اپنی سنت پہ چلنے کی تلقین فرمائی۔ کیونکہ آپ ﷺ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اول اسلام میں تارک الدنیا ہوکر خلوت نشینی منع ہے اور دوسرا اگر اس بات کی اجازت ودیعت کردی جاتی تو معاشرے کا توازن اس طور بگڑتا کہ وہ اپنی فطری حالت پہ قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ اس لئے آپ ﷺ جو دین لیکر آئے وہ معتدل خواص کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ، ہر دور میں قابل عمل ہونے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہے۔ اور پھر یہی خوبی ہمیں آپ ﷺ کی جماعت الصحابہ کے اندر بھی نظر آتی ہے کہ ، کسی صحابی نے دنیا گریزی کا عمل اختیار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے متبعین کو اس کی نصیحت فرمائی۔
تاہم آپ ﷺ کی اس مبارک جماعت کے سارے افراد جب دنیا سے پردہ فرما گئے اور اسلام بھی بلاد عرب سے نکل کر دوسرے معاشروں تک پہنچا تو ایک زمانے تک اس دین کی اصل شکل برقرار رہی، تاہم سابقہ ادیان کی طرح رفتہ رفتہ اس کی بعض تعلیمات میں بھی دوسری تعلیمات نفوذ پذیر ہوئیں اور یوں بعض معاملات میں کچھ لوگ افراط وتفریط کا شکار رہنے لگے، یوں تارک الدنیا ہونے اور خلوت نشینی کو ہی کچھ لوگ سب سے بڑی دینی معراج سمجھنے لگے اور دنیوی امور کی بجا آوری اور اس کے معاملات کی طرف ملتفت ہونے کو راہ ِ خدا سے غفلت اور اس سے دوری کا نتیجہ گردانا گیا۔ اور دوسری طرف اس خلوت نشینی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور ان نظریات کے حامل افراد کے اوپر تنقید کی جاتی۔ تاہم اصل حقیقت ان دو انتہاؤں کے بیچ میں کھو گئی کہ ، اسلام کا مقصد نہ تو دنیا گریزی ہے اور نہ ہی دنیا سے رغبت بلکہ وہ ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک معتدل راستے پہ چلنے کی تلقین کرتا ہے ، جس میں انسان دنیا کے تمام امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنی اگلی منزل کی تیاری میں بھی مصروف رہے۔
جس زمانے میں نبی اکرم ﷺ کی ذات ِ گرامی دنیا میں مبعوث ہوئی ، اُس وقت ایک غالب حصہ مذہب ِ عیسوی کا پیروکار تھا ، جس کی تعلیمات کے بارے میں اوپر معروض ہوچکا۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب آپ ﷺ نے ہوش سنبھالی ، اس وقت عیسائی دنیا دو انتہاؤں میں واضح طور پہ منقسم تھی ، جس میں ایک قیصر کا نظام ِ حکومت تھا جس میں دین کا عنصر برائے نام تھا اور دوسری طرف رہبانیت پہ مبنی ایک متوازی نظام تھا جس میں دنیا کا خیال لانا سب سے بڑا گناہ جانا اور مانا جاتا تھا۔ چنانچہ اس تقسیم نے قیصر ِ روم کو ہر قسم کی استبدادیت اور ظلم کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ مقابل میں کوئی مزاحم طاقت حائل ہی نہ تھی ۔لیکن آپ ﷺ نے اس خام مفروضے پہ مبنی عمارت ِ کہنہ پہ ضرب لگائی اور ایک ایسی متوازن زندگی کا تصور دیا جس میں دین و دنیا کی کوئی تقسیم نہ تھی۔ اس نئے تصور ِ حیات کو معاشرے نے آغاز میں اچنبھے کی نظر سے ضرور دیکھا تاہم ، آپ ﷺ کے عزم ِ صمیم کی بدولت یہ فطری نظام معتدل ، سنجیدہ اور زکی الطبع افراد کے قلوب میں گھر کر گیا ۔
آپﷺ کی بدولت جو دین ِ اسلام دنیا کو ملا اُس میں تمام دنیوی نعمتوں سے منتفع ہونے اور اس کے وسائل سے مستفید ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ، تاہم افراد ِ معاشرہ کو ایسے طرز ِ عمل اختیار کرنے کی تلقین کی گئی جس میں نہ تو کسی کی حق تلفی ہو اور نہ ہی کوئی شخص فطری لحاظ سے کسی بھی نعمت سے محروم رہے۔ اسلام میں دولت کمانے ، سیاسی امور کی طرف التفات کرنے ، اعلی ٰ تعلیم حاصل کرنے ، طعام و رہائش اور دیگر امور کو مطلق برا نہیں جانا گیا، تاہم ہر وہ چیز جس سے باقی معاشرے کی زندگی متائثر ہوتی ہو، اس سے اجتناب برتنے کا حکم دیا گیا تاکہ معاشرے میں بگاڑ نہ پیدا ہوسکے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نبی ﷺ کے دہرے داماد سیدنا عثمان ذو النورین اور یکے از عشرہ مبشرہ سیدنا عبدا لرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کس اعلی درجے کے تاجر اور مالدار تھے ، تاہم کسی ایک موقع پر بھی نبی اکرم ﷺ نے ان کے اس امر کو ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی آپ ﷺ نے ان کو تجارت کا پیشہ اپنانے پر دنیا دار ہونے کا طعنہ دیا اس کی وجہ ان ہر دو حضرات کا وہ طرز ِ عمل تھا جس کی بدولت وہ دین و دنیا کا ایک حسین امتزاج قائم رکھے ہوئے تھے۔ لہذا ان حضرات کی تجارت اور مال و دولت نے نہ تو کبھی ان کو دین سے دور کیا اور نہ ہی کبھی ان کے کسی عمل سے کبھی کسی دوسرے انسان کو گزند پہنچی ۔ لہذا آپ ﷺ نے ہر جہاد کے موقع پر ان کے عطایا کو قبول فرما کر ان کیلئے دعا فرمائی اور محض بیکار بیٹھنے نیز دوسروں کی امداد کے سہارے زندگی گزارنے کو ناپسند فرمای کر ہر شخص کو کسب ِ حلال کی خاطر دوڑ دھوپ کرنے کی نصیحت فرمائی۔
لیکن جس زمانے اور معاشرے میں آج ہم زندگی گزار رہے ہیں، اس میں پھر وہی دینا گریزی کا نظریہ اور دین و دنیا کی تقسیم کا مفروضہ نہایت شدت سے دوبارہ سر اٹھا کر افراد ِ معاشرہ کو دو انتہاؤں میں لیجا کر کھڑا کر چکا ہے۔ چنانچہ آج ہمیں اس نظریے کی ایک مرتبہ پھر بازگشت سنائی دیتی ہے ، جس میں کچھ عوامل کو محض دنیا سے اور کچھ کو محض آخرت کے ساتھ منسلک کرکے انسانی ذہن کو ایک نئے وسوسے اور انتشار کا شکار کردیا ہے۔ اور مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ اب کی بار اس دین و دنیا کی تقسیم کے عمل کی آواز کہیں اور سے نہیں بلکہ ، اسلام کے نام پر دین کے احیاء کیلئے چلائی جانے والی تحریکات کی طرف سے اٹھ رہی ہے۔ ان تحریکات کی بدولت اسلام کی تعلیمات معاشرے میں رائج ہوں یا نہ ہوں تاہم ان کے اس دنیا گریزی کے نظریے نے آج کی دنیا میں موجود سیاسی نظام کو ایک اطمینان اور قوت ضرور بخشی ہے کہ ، جس کی بدولت مد مقابل میں موجود مزاحم قوت کو راستے سے ہٹا کر ہر قسم کی من مانی کا کھلا اختیار دے دیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مدد اُسی وقت ظہور میں آتی ہے ، جب اُس کے نام لیوا طاغوتی طاقت کے ارادوں میں مزاحم ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالی ٰ مدد اُسی وقت آئی کہ جب فرعون کے مقابلے میں موسیٰؑ نکلے ، ابو جہل کے مقابلے میں نبی اکرم ﷺ میدان میں اترے لیکن اگر مد مقابل قوت طاغوت کے مقابلے مین خانقاہ اور حجروں میں خلوت نشین ہوجانے کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھے ، تو بھلا ایسے عالم میں اللہ تعالیٰ اُس قوم کی کیسے مدد کر سکتا ہے ؟ لہذا ہمیں اس چیز کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں نہ تو دنیا سے محبت اور نہ ہی دنیا سے نفرت بالذات مقصود ہے ، بلکہ اسلام دنیا کے تمام انسانوں کو اس کی تمام نعمتوں اور وسائل سے جائز طریقے سے متمتع ہونے کو بنظر ِ استحسان دیکھتا ہے اور اس کو بھی عبادت میں شمار کرتا ہے۔