وطن عزیز میں اس وقت معاشی افراتفری کا سماں ہے اور اہل وطن اپنی روزمرہ زندگی گزار نے کے چیلنج کو پورا کرنے کی جہدِمسلسل میں مصروف ہیں اور روزبروز یہ چیلنج مشکل سے ناممکن کی طرف جا رہا ہے۔ملک کی سیاسی قیادت اس کا ذمہ دار دوسری شخصیات کو ٹھہرا کر اپنی اپنی سیاسی دوکان داری چمکا رہی ہے ،لوگوں کو اپنے مفادات کی خاطر بے شعور اور جاہل بنایا جا رہا ہے ، اصل مجرم جو کہ سرمایہ دارانہ نظام ہے اس کا نہ کوئی نام لیتا ہے اور نہ کوئی اس کی تباہ کاریوں کا شعور دیتا ہے ، آئیں پاکستان کی معاشی صورت حال کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان کی ایکسپورٹ اس وقت تقریباً 30ارب ڈالر ہے جو کہ جی ڈی پی کا 9.6فیصد ہے اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی کوئی 30 ارب ڈالر بھجواتے ہیں اور مختلف قرضوں اور امپورٹ کی وجہ سےہمارا سالانہ تجارتی خسارہ کوئی 30 ارب ڈالر سالانہ ہے جو ہر سال ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی “ کے مصداق زیادہ ہو رہا ہے ، جس کو پورا کرنے کے لئے مزید قرض لیا جاتا ہے اور یہ مزید اس کو بڑھا دیتا ہے۔اس کو کم کرنے کے لئے ہمیں اپنے اخراجات کم کرنا ہوں گے اور ایکسپورٹ بڑھانا ہوگی۔
ملک کے پارلیمنٹ ، انتظامیہ اور عدلیہ کے شاہانہ اخراجات روز بروز بڑھ رہے ہیں ، نئے دفاتر ، نئی گاڑیاں، شاہانہ رہائش گاہیں ، تنخواہ، پنشن اور دیگر مراعات ملک کی معاشی حالت کو بد سے بد تر کر رہے ہیں ، پہلے سے جاری شدہ منصوبوں کو آنے والی حکومتیں صرف اس لئے بند کر دیتی ہیں کہیں ان کے سیاسی مخالف کا رتبہ بلند نہ ہوجائے اور اس کی قیمت ملک اور عوام ادا کرتی ہے ۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے بھاری بھرکم منافع کی صورت میں رہی سہی کسر بھی پوری کر دیتی ہیں –آئے دن عوام کو قربانی کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اب آئیں دوسری طرف کہ ایکسپورٹ بڑھائی جائیں، اس کے لئے لاگت کو کم کرنا ہوگا ، مہنگے خام مال، بجلی کے مہنگے معاہدے ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بڑے منافع نے بجلی کی قیمت بڑھنے سے لاگت کو کم رکھنا نا ممکن ہو گیا ہے ، سرمایہ دار کا لالچ بھی ایک اہم عنصر ہے، اس کے علاوہ پاکستانی ایکسپورٹ کے نہ بڑھنے کا اہم سبب پاکستان کی عالمی برادری میں تنہائی ہے ، پاکستان کی مقتدرہ جس طرح سامراج کے ہاتھوں کھیل کر نہ صرف پاکستان کو ایک بے اعتبار ملک بنا چکی ہے بلکہ حکمران اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دیکر اپنا فائدہ حاصل کر کے اس عالمی تنہائی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
پاک ایران گیس پائپ لائن جو کہ عرصہ دراز سے تیار ہے ہم آزاد خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ایران سے سستی گیس لیکر اپنی پروڈکشن کی قیمت کم کرسکتے ہیں ، ہمارا ہمسایہ بھارت اسی ایران اور روس سے تجارت کر رہا ہے جب کہ ہم غلامی کی وجہ سے مجبور ہیں۔البتہ سروس انڈسٹری کو ترویج دیکر زرمبادلہ بڑھایا جاسکتا ہے۔
ورنہ ”آج مرے کل دوسرا دن“ کے مصداق ہمارا مستقبل بھی خدانخواستہ سری لنکا جیسا نظر آ رہا ہے۔ہمیں اس سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے نکلنے کے لئے شعور حاصل کرنا ہوگا اور اپنی قوم میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا ورنہ ملک میں جہالت اور شدت پسندی کا اژدہا ہمیں نگلنے کے لئے منہ کھولے تیار بیٹھا ہے۔خدارا شخصیت پرستی سے باہر نکل کر ایک قوم بنیں۔اللہ ہم سب کو شعور دے اور ملک پاکستان پر رحم کرے۔آمین۔
1 Comment
بہت اچھی تحریر۔
دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے ۔ واقعی جب تک سرمایہ داری نظام موجود ہے یہ مسائل رہیں گے ۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے سرمایہ داریت سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔