ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ملک کی موجودہ صورتحال ناگفتہ بہ ہے ۔مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات کے لئے بھی حالات بہت مناسب نہیں ہیں ۔فاشزم کے فروغ کے ساتھ مہنگائی بھی شباب پر ہے ۔ملک کی اقتصادیات دیوالیہ ہونے کو ہے اور حکومت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے ۔ہر مسئلے کاحل صرف نفرت اور فرقہ پرستی میں تلاش کیا جارہاہے ۔ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے کوئی مضبوط لایحۂ عمل نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو دبانے اور کچلنے کے لئے منظم منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ ملک کے عوام کی توجہ اصل مسائل سے بھٹکائی جاسکے ۔اب وہ وقت آچکاہے جب ہندوستان کے مخلص افراد کو ملک کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔موجودہ سیاسی و سماجی جہت کیاہے اور اس کے کونسے عوامل سامنے آرہے ہیں ۔آزادی کے بعد پہلی بار ملک میں اس قدر انارکیت ،بین المذاہب نفرت ،طبقاتی کشمکش اور سیاسی قدروں کا زوال دیکھا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی ۔موجودہ صورتحال پر سنجیدگی سے غورکرنے والوں کی اشد کمی ہے یا انٹلکچول طبقہ موجودہ سیاسی انارکیت سے اس قدر دل برداشتہ ہے کہ اب اخلاق و اقدار اور فکری سیاست سے اعتبار اٹھ چکاہے ۔سیکولر ازم تو خیر کب کا کفن میں لپٹا پڑاہے مگر اس کے جنازے کو کندھا دینے والے موجود نہیں ہیں ۔ایسا کوئی نوحہ گر بھی موجود نہیں ہے جو اس کے جنازے پر فریاد کرسکے ۔فاشسٹ طاقتوں نےملک کے سیاسی و جمہوری اقدار کو اس قدر نقصان پہنچایاہے جس کی تلافی ممکن نظر نہیں آتی ۔سیکولر جماعتیں شتر مرغ کی طرح ریت میں سر ڈال کر شکاری سے غافل بنی ہوئی ہیں یا ان کاسیکولر ڈھانچہ ہی ختم ہوچکاہے ۔لے دے کے ایک کانگریس پارٹی ہے جس کی مثال ایسے چراغ کی ٹمٹاتی ہوئی لو سے دی جاسکتی ہے جس کا روغن ختم ہوچکاہے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں جس طرح ملک میں نفرت اور فرقہ پرستی کو فروغ دیا گیا اس نے ملک کے جمہوری اقدار کو مجروح کیاہے۔اس وقت ہندوستان کی سیاست کا سارا دارومدار مسلمانوں کو کچلنے اور انہیں سرعام بے آبرو کرنے پر ہے ۔ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہاہے ۔ان کی معیشت کو سرے سے ختم کیا جارہاہے ۔مسلمان اقتصادی طورپر پہلے ہی بہت کمزور تھا ،لیکن رہی سہی کسر زعفرانی سیاست نے پوری کردی۔ان کےسماجی و اقتصادی بائیکاٹ نے زور پکڑ لیاہے ۔ظاہر ہے یہ سارا کھیل حکومت اور انتظامیہ کی سرپرستی میں کھیلا جارہاہے ،جس کے برے نتائج سامنے آرہے ہیں ۔اذان پر جاری سیاست میں ضلع انتظامیہ بھی ملوث ہے ،اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔دیہات اور قصبات میں مسجدوں سے مائک اتروادیے گئے ہیں ۔اذانیں بغیر مائک کے ہورہی ہیں جبکہ سبزی فروش،خوانچہ والے اورشادی میں بینڈ باجے والوں کو شور شرابے کی کھلی اجازت ہے ۔ہم بھی اس حقیقت سے انکاری نہیں ہیں کہ عبادت گاہوں پر مائک کا غلط استعمال کیا جارہا تھا لیکن کیا یہ سلسلہ فقط ایک طرف سے تھا ؟ہر عبادت گاہ پر درجنوں مائک بندھے ہوئے ہیں ۔مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے یہاں دوراندیشی کی کمی ہے ۔ایک ایک گلی میں پانچ پانچ مسجدیں ہیں اور سب پر بلند بانگ مائک بندھے ہوئے ہیں ۔ایک مسجد سے ہورہی اذان کی آواز دوسرے مائک کی بلند بانگیت میں دب جاتی ہے ۔مسجد کے پڑوسیوں کے لیے یہ مائک ایک بڑا مسئلہ ہیں لیکن بیچارے سماجی مسائل کی بنیاد پر لوگ کچھ کہہ نہیں پاتے تھے ۔اس کا خمیازہ اس صورت میں بھگتنا پڑرہاہے کہ اب ہر طبقہ مائک کے خلاف ببانگ دہل بول رہاہے ۔اگر ہر عبادت گاہ پر مائک کی آواز عبادت گاہ کے صحن تک محدود رکھی جاتی تو شایدآج اتنے مسائل پیدا نہیں ہوتے ۔مائک پر اذانوں کا مسئلہ ہمارا قومی و ملّی تشخص نہیں ہے ۔ہمیں پوری توانائی کے ساتھ اپنے ملّی و مذہبی تشخص کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ملک میں جس طرح حجاب اورمسلمانوں کی زبان و تہذیب کو مسئلہ بنایاجارہاہے اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔نصاب میں تبدیلی کی مہم عروج پر ہے ۔مسلمانوں کی ہر تاریخی عبادت گاہ اور عمارتوں کو مندر ثابت کرنے کی تحریک چل رہی ہے ۔ہمارے شہری حقوق سلب کرنے کے لیے اُکسا یا جارہاہے ۔قانون ساز اسمبلیاں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں زعفرانی رنگ میں رنگ چکی ہیں ۔ناجائز قبضوں کو ہٹانے کے نام پر بلڈوزر کلچر کی داغ بیل پڑ چکی ہے ۔ایسے حالات میں بے دست و پا مسلمان کہاں جائیں اور کیا کریں ۔پر آشوب حالات میں ہمیشہ لیڈرشپ اہم کردار ادا کرتی ہے مگر افسوس مسلمانوں کے پاس مرکزی لیڈرشپ کا فقدان ہے ۔علاقائی لیڈران میں اخلاص اور جرأت کی شدیدکمی ہے ۔مسلمانوں میں سیاسی و سماجی سطح پر بیداری کا فقدان ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب مسلمانوں میں مزاحمت اور تحریک کا جذبہ ناپید ہوتا جارہاہے۔جس قوم میں مزاحمت کاجذبہ نہیں ہوتا وہ قوم کبھی بھیڑیوں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی ۔ان حالات سے ابھرنے کےلئے محاسبہ اور مزاحمتی عمل ضروری ہے ۔
ہندوستان کی موجودہ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اب تاج محل جیسا عجوبہ بھی فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے ۔یرقانی تنظیموں کے آلۂ کار تاج محل کو مندر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ان کے مطابق تاج محل کے بند کمروں میں ایسے دستاویز موجود ہیں جن سے تاج محل کومندر ثابت کیا جاسکتاہے ۔آلہ اباد ہائی کورٹ نے عرضی دہندہ کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہاکہ عرضی گذار کو پہلے یونیورسٹی جاکر اس سلسلے میں تحقیق کرنی چاہیے ،اسکے بعد عدالت سے رجوع کیا جائے ۔تاریخ کو عرضی گذار کے مطابق نہیں پڑھایاجاسکتا۔ہائی کورٹ کا یہ بیان عدلیہ کے وقار کو ظاہر کرتاہے جس سے دیگر ریاستوں کی عدالتوں کو بھی سبق لینا چاہیے ۔لیکن افسوس عدلیہ بھی جانبداری کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے جس نے ملک کے سیکولر ڈھانچہ کو بہت نقصان پہونچایا ہے۔مثال کے طورپرسپریم کورٹ نے ’آستھا‘ کی بنیاد پر بابری مسجد کو رام مندر کی تسلیم کرلیاتھا ۔اس فیصلے میں بھی اکثریتی طبقے کی ’آستھا‘ کو پیش نظر رکھا گیا تھا ،جبکہ فیصلے میں دونوں طبقات کی ’آستھا‘ کا لحاظ رکھا جاتا تو عدلیہ کا وقار بچ جاتا ۔لیکن یہ ممکن نہیں تھاکیونکہ اس وقت کےچیف جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا میں کرسی چاہیے تھی ۔بابری مسجد کا فیصلہ صرف متنازع ہی نہیں بلکہ عدلیہ کے وقار کے ساتھ کھلواڑ تھا ،اس کا اعتراف انصاف پسند ماہرین قانون کرچکے ہیں ۔اسی طرح حجاب کے مسئلے پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ عجلت پسندانہ تھا یا پھر عدالت حجاب کے قضیہ پر مسلمانوں کے خلاف فیصلہ سنانے کی ذہن سازی کرچکی تھی ۔ورنہ کرناٹک عدلیہ کا یہ کہنا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے ،اپنے آپ میں ایک متنازع اور غیر فکری بیان تھا ۔اگر عدالتیں مسلمانوں کے مذہبی معاملات اور ملّی تشخصات میں اس قدر دخیل ہوں گی ،تو پھر قانون کی اساس پر دیے گئے حقوق کا کیا حشر ہوگا۔آیا قانون اس بات کی اجازت دیتاہے کہ عدلیہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات یا قومی تشخص میں بیجا دخیل ہو۔ ان مسائل میں عدلیہ کو تبصرہ کا کس حدتک حق حاصل ہے اس پر الگ سے گفتگو کی جاسکتی ،جس کا لحاظ نہیں رکھا جارہاہے ۔یکساں سول کوڈ کا نفاذ اسی تشخص کو ختم کرنے کی راہ میں اٹھایا گیا قدم ہے ۔جبکہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ فقط مسلمانوں سے مربوط نہیں ہے ۔اس کے عواقب اور نقصانات پر غور کئے بغیر فقط مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات کی جارہی ہے ۔
افسوس یہ ہے کہ عدلیہ کی راہداریوں تک نفرت کا زہر پہنچ چکاہے ۔اس کی زندہ مثال سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی ہیں جنہوں نے بابری مسجد پر متنازع فیصلہ سنانے کے بعد راجیہ سبھا کی کرسی حاصل کرلی ۔یہی نہیں انہوں نے اپنی کتاب میں لکھاہے کہ رام مندر کے حق میں فیصلہ سنانے کے بعد انہوں نے اپنی پسند کی شراب پی تھی ۔اپنے مردہ ضمیر کو مطمئن کرنےکا اس سے آسان نسخہ ان کے پاس تھا بھی نہیں ۔ جبکہ کتاب کی اشاعت کے بعد وہ اپنے اس بیان کی توجیہ کرتے نظر آئے ۔اسی طرح گیان واپی مسجد میں عدالتی سروے کی اجازت کےبعد وارنسی کورٹ کے وکلاء نے جشن مناکر جمہوری و قانونی اقدار کی موت کا اعلان کردیا ۔ظاہر ہے گیان واپی مسجد کا سروے مسجد کو مندر ثابت کرنے کی راہ میں پہلا قدم ہے ۔سروے کی یہ روایت فقط گیان واپی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ دیگر عبادت گاہیں بھی اس کے دائرے میں آئیں گی ۔مسجد کے سروے کے بعد اس کی کھدائی کا مطالبہ کیا جائے گا ۔لیکن جس طرح عدالت میں یہ ثابت نہیں کیا جاسکاکہ بابری مسجد کی تعمیر مندر کو مہندم کرکے کی گئی تھی ،اسی طرح یہ بھی ثابت نہیں ہوسکے گا کہ اورنگ زیب نے مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی تھی،اس کے باوجود عدالت اکثریتی طبقے کی ’آستھا ‘ کے نام پر مسلمانوں کےخلاف فیصلہ سنادے گی ۔ اس لئے منظم لایحۂ عمل کی ضرورت ہے تاکہ ہماری عبادت گاہیں اور قومی آثار محفوظ رہ سکیں ۔
موجودہ صورتحال مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خود اعتمادی پیدا کریں ۔حالات سے نبردآزمائی کا جذبہ حاصل کریں ۔مرکزی قیادت کی تلاش کریں اور سیاسی و سماجی مسائل میں ایک نقطۂ ارتکاز کی طرف متوجہ ہوں ۔علاقائیت ،ذاتی اختلافات ،مسلکی تنازعات اور فکری انتشار ملت کے لئے سودمند نہیں ہے ۔سیاسی دلالوں سے دوری اختیار کی جائے اور ملّائیت زدہ نظام کو خدا حافظ کہہ دیا جائے ۔آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کو سب سے زیادہ سیاسی دلالوں نے نقصان پہونچایا ہے ۔یہ دلالی جب تک ختم نہیں ہوگی حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے ۔