یہ سوال تو ہم اکثر اٹھاتے ہیں کہ سیاست دانوں نے پاکستان کو کیا دیا، کیا کبھی ہم یہ سوال بھی اٹھا سکیں گے کہ بیوروکریسی نے پاکستان کو کیا دیا؟ اہل سیاست تو پھر عوام کی دسترس میں ہوتے ہیں ، محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن آپ ان سے شکوہ بھی کر سکتے ہیں اور جھگڑ بھی سکتے ہیں ، ان سے سوال بھی پوچھ سکتے ہیں اور الیکشن میں اپنا حساب بھی چکا سکتے ہیں لیکن کیا یہ بیوروکریٹ بھی آپ کی دسترس میں ہیں ، کیا آپ اپنی عزت نفس قربان کیے بغیر ان سے ملاقات کر سکتے ہیں؟ یا آپ ان سے بھی کبھی کوئی سوال پوچھ سکتے ہیں؟ سیاست دان کے دفترا ور ڈیرے پر تو پھر کبھی نہ کبھی آپ کو چائے پیش کر دی جاتی ہے اور آپ کو خوش آمدید کہہ لیا جاتا ہے لیکن کیا کبھی کسی بیوروکریٹ کے دفتر میں توہین اور ذلت کے احساس کے بغیر آپ جا کر ایک عدد ملاقات کر سکتے ہیں؟ سیاست دان سے اس کی کارکردگی کا سوال تو یہاں ہر وقت ہوتا ہے ، اخبارات میں ، ٹی وی پر ، جلسوں میں ، پارلیمان کے اندر ۔ سوال یہ ہے کیا کبھی بیوروکریسی کی کارکردگی بھی زیر بحث آئے گی؟ وفاقی وزراء کی رہائش گاہ میں بنگلہ نمبر فلاں اور فلاں کے طعنے تو اکثر سیاست دانوں کو دیے جاتے ہیں لیکن کیا ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کمشنر سرگودھا کا سرکاری محل 104 کنال پر مشتمل ہے ۔یاد رہے کہ امریکی صدر کے وائٹ ہائوس کا رقبہ 152 کنال ہے۔ ہمارے ایس پی ساہیوال کا گھر98 کنال کا ہے جس میں درجن بھر ممالک کے سربراہان کی رہائش گاہیں سما سکتی ہیں۔ اہل سیاست سے تو ہم روز حساب مانگتے ہیں لیکن ان بیوروکریٹوں سے کبھی یہ سوال کیوں نہیں کیا جاتا کہ ایک غریب ملک میں اتنی عیاشی اور لوٹ مار کا حق تمہیں کس نے دیا ہے؟ صرف اس لیے تم اس واردات کو قانونی قرار دے لو کہ فیصلہ ساز تم خود ہو؟ ایک بیوروکریٹ کو ریٹائرمنٹ پر کروڑوں اور اربوں کا جو پلاٹ مال غنیمت میں دیا جاتا ہے کیا اس کا کوئی جواز ہے؟ ریٹائر منٹ کے بعد سارا مال ہتھیا کر ان میں سے اکثریت اللہ لوک اور انقلابی بن جاتی ہے اور قوم کی تربیت کے منصب پر مامور ہو جاتی ہے۔جنہوں نے جعلی پولیس مقابلوں میں بندے مارے ہوتے ہیں اور اس قتل کا اعتراف کیا ہوتا ہے وہ بھی ریٹائر منٹ کے بعد قوم کی رہنمائی فرمانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اہل سیاست جب بندر بانٹ کرتے ہوئے پارلیمان میں اپنی تنخواہیں خود بڑھاتے ہیںتو کم از کم اس پر بات تو ہوتی ہے اور شور تو مچتا ہے لیکن کیا کسی کو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ہمارے بیورکریٹ کی اوسط تنخواہ اقوام متحدہ کے سٹاف کی تنخواہ سے 12 فیصد زیادہ ہے؟باقی تو کس شمار میں ہیں، اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی ان کی بندر بانٹ کے آگے ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے کہ اتنا تو اس کے بس میں بھی نہیں۔ بیوروکریسی کی اندھی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ان کی تنخواہوں اور مراعات کی اندھیر نگری میں اصلاحات کی کوششیں28 مرتبہ کی جا چکی ہیں اور ناکام ہو چکی ہیں۔ لوگ یہاں اپنی ملکیتی زمینوں پر گھر بناتے ہیں اور یہ بابو لوگ جا کر گرا آتے ہیں ۔ دارالحکومت میںمتوسط طبقے کے لیے کوئی ایک سوسائٹی نہیں بن سکی لیکن صرف اسلام آباد میں بیوروکریسی کے محلات کا رقبہ 864 ایکڑ ہے۔اور یہ بیس تیس چالیس اور پچاس پچاس ایکڑ کے سائز کے ٹکڑوں میں بنائے گئے ہیں۔ یعنی یہ قطعات اراضی کمرشل استعمال کے لیے موزوں تر ہیں۔بلیو ایریا میں جو نئے کمرشل پلازے بن رہے ہیں وہ تین ، چار اور پانچ ایکڑ کے سائز کے ہیں۔ ان محلات کو اگر کمرشل کر کے یہاں بڑی بڑی عمارات بنائی جائیں تو تقریبا سات آٹھ سو ارب روپے قومی خزانے میں جمع ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ اگر آپ اسلام آباد کلب کو بھی شامل کر لیں جہاں اس بیوروکریسی کے موج میلے کے لیے 244ایکڑ سرکاری زمین مبلغ ایک روپیہ فی ایکڑ سالانہ پر انہیں عطا فرمائی گئی۔جو 2018 میں بڑھا کر گیارہ روپے فی ایکڑ سالانہ کر دی گئی۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ، کیا ریڈ زون کے پہلو میں زمین کا کرایہ گیارہ روپے فی ایکڑ سالانہ بنتا ہے؟ ملک دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار ہو چکا ہے لیکن یہ بیوروکریسی ایسے لوٹ کر کھا رہی ہے جیسے انہوں نے مقابلے کے امتحان میں یہ ملک فتح کیا تھا۔ آپ کسی سرکاری دفتر میں جائیں اور ان سرکاری بابوئوں کا رویہ دیکھیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ کس گریڈ میں ہے ، گردن میں سریا ہی ملے گا۔ محکمانہ گریڈ کے ساتھ ساتھ گردن کے سریے کا گریڈبھی بڑھتا جائے گا مگر امکان یہی ہے کہ سریا ہر جگہ ملے گا۔ کام کرنا تو دور کی بات ہے یہ عوام کی بات سن کر بھی احسان کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا عوام کو معلوم ہے کہ اس رویے اورا س رعونت کی کیا قیمت ہے جو عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے؟ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ملک میں یہ سرکاری رہائش گاہیں ، جہاں یہ چھوٹے اور بڑے بابو صاحبان قیام پذیر ہیں اگر نجی شعبے کے حوالے کر دی جائیں تو تقریبا پونے دو کھرب روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔انہیں صرف کرائے پر چڑھا دیا جائے تو تیرہ چودہ ارب روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ سر شام پارکوں اور شاپنگ مالز کے باہر یہ سبز نمبر پلیٹ والی کنال کنال کے سائز کی گاڑیاں کہاں سے آتی ہیں؟ کیا عوام کو معلوم ہے کہ ان گاڑیوں کا پٹرول عوام کی رگوں سے نکالا جاتا ہے تا کہ صاحب لوگوں کی فیملی سیر سپاٹے کر سکے؟ کیا ہمیں معلوم ہے کہ اعلی افسران کے ذاتی استعمال کی ان گاڑیوں کی لاگت ان کی’ بیسک پے ‘سے کتنی متناسب ہوتی ہے؟ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بیوروکریسی کا یہ مال غنیمت ہماری جی ڈی پی کا پانچ فیصد یا اب شاید اس سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ اب اگر معاشی حالات خراب ہیں تو یہ کون سا طریقہ ہے کہ بجلی اور پٹرول مزید مہنگا کر دیا جائے؟ سوال یہ ہے کہ بیوروکریسی کے یہ اللے تللے پہلے کیوں نہ ختم کیے جائیں؟ بیوروکریسی کی مراعات کے ساتھ ساتھ اس کے فرسودہ ڈھانچے کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ محض بی اے کے بعد مقابلے کے امتحان کے ذریعے اس شعبے میں لوگ نہ لیے جائیں۔ بلکہ اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کو کسی بھی مرحلے پر براہ راست بیوروکریسی میں شامل کرنے کی گنجائش پیدا کی جائے۔وقت بدل رہا ہے اور ضروریات بھی۔ ہمیں بھی بدلنا ہو گا۔ ریاست کو ہمدرد اور فعال بیوروکریسی کی ضرورت ہے ، اسی لیے انہیں ’’ سول سرونٹ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ وائسرائے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قوم ان کی غلام اور رعایا ہے کہ بی اے کے بعد ان کے لگائے گئے رٹے کا تاوان ادا کرتی جائے۔