نبی عربی ﷺ کے اخلاقی معجزوں کی عظمت و رفعت کے سامنے زمین اور آسمان پانی اور ہوا سے صادر ہونے والا بڑے سے بڑا مادی معجزہ بے حقیقت معلوم ہوتا ہے لاریب سرکار کے علم وحلم و برداشت، تواضع وایثار، صدق و اخلاص اور عفوودرگزر کے کھلے معجزے، اہل عرب کے لیے، سنگریزوں کی تسبیح، چاند کے انشقاق، درختوں کی حرکت اور پتھروں کی نرمی سے زیادہ حیرت انگیز تھے. یہ اس لیے کہ مادی معجزے کا ہنوں کی کہانت اور جادوگروں کے جادو سے ایک قسم کی ظاہری مشابہت رکھتے تھے لیکن روحانی معجزے اس شبہ سے بالکل خالی تھے، اگر اخلاق عالیہ و اوصاف حمیدہ کی زبردست طاقت آپ کے ساتھ نہ ہوتی تو صرف معجزات و خوارق کے بل بوتے پرناممکن تھا کہ آپ اپنے پیرووں کے دماغوں پر وہ دسترس حاصل کرسکتے جو آپ نے حاصل کی، اور دلوں کو اس طرح فتح کرسکتے جس طرح فتح کیا۔
آخر کیا بات تھی کہ بلال حبشی، صہیب رومی، عمار بن یاسر، عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہم نے سخت سے سخت تکلیفیں سہیں اور یاسر و خبیب رضی اللہ عنہما نے جسم و جان کے رشتہ کو قطع کرنا گوارا کیا مگر رسول اکرم صلعم کے دامن کو چھوڑنا پسند نہ کیا یہ آپ کے ’’خلق عظیم‘‘ ہی کا کرشمہ تھا اسی لیے فرمایا گیا
وَ لَو كُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلبِ لَا نفَضُّوا مِن حَولِكَ
اگر آپ درشت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کو چھوڑ بھاگتے
آپ قوی دل اور بلند ہمت تھے، آپ اس قوم کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے ذرا نہ جھجکتے جس کے متعلق آپ کو معلوم تھا کہ وہ ظالم و جابر، وحشی، خونخوار ہے اپنے مذہب کی اپنی آبرو سے زیادہ عزت کرتی ہے، اور اپنے بتوں سے اپنی اولاد سے زیادہ محبت رکھتی ہے اور جس کا قول ہے
وَيَقُولُونَ اَئِنَّا لَتَارِكُـوٓا اٰلِـهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجنُـونٍ
کیا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے اپنے بتوں کو چھوڑ دیں گے
ذرا اس منظر کا تصور کرو، چاروں طرف دشمنوں کا مجمع ہے، ہر جانب کفر کا تسلط ہے لیکن جب حکم خداوندی پہنچتا ہے۔
فَاصدَع بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِض عَنِ الْمُشرِكِیْنَ
تم کو جو حکم دیا جاتا ہے اسے کھول کر سناؤ اور مشرکوں کی پروا نہ کرو
تو خدا کا اولوالعزم پیغمبر، سیدھا کوہ صفا پر جا چڑھتا ہے اور نام بنام ایک ایک قبیلہ کو پکارتا ہے اور انہیں حق کا پیغام سناتا ہے اور عذاب الٰہی سے ڈراتاہے، آپ کی زبان سے یہ غیر متوقع کلمات سن کر کافر مذاق اڑاتے ہیں، اور ایک بدبخت کہہ اٹھتا ہے
تبالک یا محمد الھذا جمعتنا
اے محمد تم ہلاک ہو، کیا اسی لیے تم نے ہم کو جمع کیا تھا؟ اور پھر آپ کی منظم مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔
آپ کو کفرستان میں اپنے دین کی کامیابی کا اسی طرح یقین تھا جس طرح رات کی اندھیری کے بعد دن کی روشنی کا یقین ہوتا ہے، قریش آپ کا مذاق اڑاتے تھے آپ پر فقرے کستے تھے لیکن آپ اطمینان ویقین کی پوری طاقت کے ساتھ فرماتے تھے۔
اے جماعت قریش! تھوڑے ہی دن بعد میری دعوت سے تمہارا انکار اقرار سے بدل جائے گا، اور مجھ سے تمہاری عداوت محبت میں تبدیل ہوجائے گی۔
آپ حلیم و کریم تھے۔ آپ کی قوم آپ کی تذلیل و تحقیر اور تکلیف و ایذا میں کوئی کسر نہ چھوڑتی تھی، آپ کی نورانی پیشانی پر کیچڑ پھینکی جاتی تھی، اور آپ کی پشت مبارک پر نجاست ڈالی جاتی تھی، لیکن آپ کے ماتھے پر بل نہ آتا تھا۔ ذرا سفر طائف کا نظارہ دیکھو، خدا کا مقدس پیغمبر خدا کے دین کا پیغام لے کر قبائل ثقیف میں پہنچا تو ان بدبختوں نے دعوت حق کا خندہ واستہزاء سے جواب دیا شہر کے غنڈے آپ کے پیچھے لگادیئے، جنہوں نے اتنی سنگباری کی کہ آپ کی جبین مبین خونا خون ہوگئی اور زخموں سے چور ہوکر بستی سے باہر ایک باغ میں پناہ گزیں ہوئے اس حالت میں آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا تو فرمایا :اے اللہ
إن لَم يَكُن بِك عَلَيّ غَضَبٌ فَلَا أُبَالِي
اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو میں ان تکلیفوں کی پروا نہیں کرتا
آپ بلند ارادہ اور پختہ عزیمت تھے، اپنی قوم میں تیرہ سال تک خدا کے دین کا بلاوا دیتے رہے اس بلاوے کو آپ کی قوم کے اکے دکے ہی خوش قسمت افراد نے قبول کیا لیکن مایوسی آپ کے پاس نہ پھٹکی۔ مہربان چچا ابو طالب، جن سے کچھ پشت پناہی کی امید تھی، جب ایک دفعہ دشمنوں کی دھمکیوں سے وہ بھی مرعوب ہوگئے اور کہنے لگے اے محمد تم مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جسے میں برداشت نہ کرسکوں تو آپ نے بے پروائی کے ساتھ جواب دیا۔
اللہ کی قسم! اگر میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند دے کر کہا جائے کہ کامیابی یا موت سے پہلے میں اپنے مشن کو چھوڑ دوں تو بھی میں ہرگز نہ مانوں گا۔ سرکار اسی طرح اپنے فرض کی ادائیگی میں مصروف رہے حتیٰ کہ آپ کو وحی الٰہی کی زبان سے معلوم ہوگیا کہ مکہ دعوت اسلام کا مرکز اور نیر اسلام کا مطلع نہیں بن سکتا۔ اب آپ نے اشارہ خداوندی کے ماتحت مکہ سے مدینہ کو ہجرت فرمائی، جہاں اسلام نے گوشہ سکون کو چھوڑ کر راہ حرکت اختیار کی اور خاموش تبلیغ بلند آہنگ نعرہائے تکبیر میں تبدیل ہوگئی۔ واقعہ ہجرت تاریخ اسلام کا اسی لیے قرار پایا کہ وہ اسلام کی بلند روایات کا ایک بہترین نمونہ اور داعی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جذبہ ثبات علی الحق وجہاد فی سبیل اللہ کی ایک عمدہ یادگار ہے۔ حضور نے اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کے لیے اپنے وطن کو ترک کیا اپنے عزیزوں سے جدائی اختیار کی، پھر بھی مخالفین نے پیچھا نہ چھوڑا، انہوں نے آپ کو روکنے کی کوشش کی اس لیے نہیں کہ انہیں آپ کی جدائی شاق تھی، بلکہ اس لیے کہ انہیں خوف تھا کہ کہیں آپ مدینہ میں اپنے مددگاروں اور فداکاروں کی جماعت پیدا کر کے ان کی ایذا سے محفوظ نہ ہوجائیں، گویا وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ داعی حق ہیں اور داعی حق کو حق پرستوں کے گروہ میں سے کچھ نہ کچھ یارومددگار مل جاتے ہیں۔ ہجرت کی رات قریش نے آپ کے ہجرہ مبارک کے اردگرد پہرہ لگادیا مگر آپ ایک فداکار کو اپنے بستر پر لٹا کر اور ایک یار غار کو ساتھ لے کر بے پروائی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے باہر نکل گئے، کافروں نے آپ کا تعاقب کیا اور آپ کی گرفتاری کے لیے انعامات مقرر کیے مگر آپ پہاڑوں کی چوٹیوں اور وادیوں کی گہرائیوں کو عبور کرتے ہوئے ان کی دسترس سے باہر ہوگئے۔ پھر ذرا تواضع وانکسار اور عفوو درگزر کی بھی شان دیکھو! فتح مکہ کے موقع پر یہی مظلوم و مقہور شخصیت حاکم و فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہورہی ہے، دس ہزار لشکر جرار ساتھ ہے سواروں اور پیادوں سے زمین پٹی پڑی ہے، اسلامی جھنڈوں کے پھریروں سے آسمان ڈھکا ہوا ہے ہر ہر قبیلہ اپنے اپنے نشان امتیازی کے ساتھ شان وتمکنت کے ساتھ چلا جارہا ہے۔ سرکار نامدار بھی اپنی سواری ”قصوا“ پر سوار ہیں، سر نیاز درگاہ بے نیاز میں جھکا ہوا ہے، خداوند قدوس کی عظمت وکبیریائی کا وظیفہ زبان پر ہے اور اعلان کیا جارہا ہے۔
الیومَ یومُ المرَحمۃ، والیوم یوم تکسی الکعبۃ، الیوم یعز اللہ قریش!
آج کا دن رحم کا دن ہے، آج کعبہ پر غلاف چڑھایا جائے گا، آج خدا قریش کو عزت عطا فرمائے گا۔
سرکار نامدار صحن حرم میں تشریف فرما ہیں، مفتوحین کے قدم کانپ رہے ہیں، ہاتھ لرز رہے ہیں اور دل دھڑک رہا ہے کہ دیکھے آج ہمارے ظلم وستم کا ہمیں کیا بدلہ ملتا ہے، رحمۃ اللعالمین ﷺ نے ان کی طرف ایک نگاہ اٹھا کر دیکھا اور پوچھا:
اے قریش تمہیں آج مجھ سے کس قسم کے سلوک کی توقع ہے؟ سب یک زبان ہوکر بولے آپ ہمارے شریف بھائی کے بیٹے ہیں، ارشاد ہوا اچھا تو جاؤ تم سب آزاد ہو حضور پرنورﷺ کی زندگی بہترین رہنما ہے جو اوصاف کریمہ اور اخلاق شریفہ کی ہوا راہوں سے انسانیت کبریٰ کی اعلیٰ منزل پر پہنچاتی ہے، اور آپ کی سیرت ایک بلند پایہ درسگاہ ہے جہاں یہ سیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح زبان کی سچائی، عمل کا خلوص اور رائے کی پختگی کامیابی کا وسیلہ بن سکتی ہے اور کیونکر راہ حق میں قربانی باطل کو ملیامیٹ کرنے کا ذریعہ ہوسکتی ہے، ہمیں فلسفہ یونان، حکمائے روم اور علمائے فرنگ کی سوانح حیات سے کیا مطلب؟
ہماری عظیم الشان تاریخ کی لائبریری میں ایک ایسی حسین وجمیل کتاب موجود ہے جو سعی وعمل، صبر وثبات، محبت ورحمت، حکمت و سیاست اور شرف حقیقی و انسانیت کاملہ کے سنہری نقش ونگار سے جگمگا رہی ہے اور وہ سیرت طیبہ ہے۔