• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
 قیامت کی گھڑی — تحریر: انجنئیر ظفر وٹو قیامت کی گھڑی — تحریر: انجنئیر ظفر وٹو قیامت کی گھڑی — تحریر: انجنئیر ظفر وٹو قیامت کی گھڑی — تحریر: انجنئیر ظفر وٹو
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

 قیامت کی گھڑی — تحریر: انجنئیر ظفر وٹو

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  •  قیامت کی گھڑی — تحریر: انجنئیر ظفر وٹو
موجودہ سیاسی بحران اور حقیقی آزادی کے تقاضے: تحریر: محمد عباس شاد
مئی 10, 2022
اُسوۂ حسنہ:مولانا قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی (فاضل دیوبند)
مئی 18, 2022
Show all

 قیامت کی گھڑی — تحریر: انجنئیر ظفر وٹو

قیامت کی گھڑی آ ن پہنچی ہے۔ طبل جنگ بج چکا۔ بس وہی باقی رہے گا کہ جس نے عقل سے کام لیا اور بروقت سنجیدہ اقدامات کئے۔ غفلت دکھانے والے مٹا دئیے جائیں گے۔وقت کے یزید آپ کو بوند بوند پانی کے لئے ترسانے کے لئے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد شروع کر چکے۔اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ان کے لئے تر نوالہ بننا ہے یاحکمت سے ان کی چالوں کو ناکام بنانا ہے۔

دلوں کو تھام لیجئے کہ آپ کے گھر میں پہنچنے والا پینے کا پانی جو کہ ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے تیل کی طرح اب ایک انٹرنیشنل کموڈ ٹی بن چکا ۔ اسٹاک ایکسچینج میں پانی کی ایڈوانس خریداری شروع ہو چکی۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں آپ کا کوئی ہر دل عزیز حکمران پانی کی چائینہ کٹنگ کرتے ہوئے آپ کے حصے کا پانی نیویارک شہر کی کسی کاونٹی کو برسوں پہلے بیچ کر کمیشن پکڑ لے۔ٹینکر مافیا اب ایک شریفانہ گروہ محسوس ہو گا کیونکہ عالمی ساہوکار اب پانی کو کمرشل کرنے کا فیصلہ کر چکے۔

کیا وجہ ہے کہ عالمی بنک سمیت سارے اہم ڈونر ترقی پذیر ممالک میں بڑے ڈیموں کی فنڈنگ روک چکے جب کہ اس سے پہلے ترقی یافتہ ممالک اپنے دریاؤں کے تمام ممکنہ مقامات پر ڈیم بنا چکے۔پانی ہی اس صدی کا تیل یا “بلیو آئل “ہے اور پانی ذخیرہ کرنے والے یہ ڈیم اس کی آئل ریفانریاں۔

پانی کی قیمت کا یہاں سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے محکمہ آب پاشی کو صنعتی ادارے صرف ایک کیوسک پانی استعمال کرنے کا کم ازکم ایک کروڑ روپیہ سالانہ ادا کرتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والے ہمارے ملک میں چھوٹی سے چھوٹی نہر میں بھی سو پچاس کیوسک ( سو پچاس کروڑ روپے مالیت کا ) پانی سال کے گیارہ مہینے چل رہا ہوتا ہے۔

پچھلے سال جب میں نے “پراپرٹی نہیں واٹر ٹینکر خریدئیے “ کے عنوان سے بڑے شہروں میں پانی کے بحران پر لکھا تو کچھ متعلقہ حلقوں کی طرف اس کو پسند نہیں کیا گیا لیکن اس شئیر کی گئی ویڈیو کو غور سے دیکھ اور سن کر اندازہ لگا لیجئے کہ حالات اس سے زیادہ نازک ہیں جتنا ہم اسے اب تک سمجھتے رہے ہیں۔

مستقبل کا ممکنہ منظر نامہ یہ بنتا نظر آرہا ہے کہ پنجاب کے کسی گاوں کا پانی برسوں پہلے کسی یورپی اسٹاک ایکسچینج میں بک چکا ہوگا جب کہ گاوں والے قطاروں میں لگ کر ایم پی اے اور ایم این اے کی سفارشی چٹ پراپنے کوٹے کی ایک ایک بوتل کے حصول کےلئے کھڑے ہوں گے۔ آپ کو سستی چینی اور گھی کے لئے یوٹیلٹی سٹوروں پر بننے والی لمبی قطاریں بھول جائیں گی کیوں کہ چینی اور گھی کا متبادل بھی ہے اور یہ انسان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہیں لیکن پانی، ہوا کے بعد دوسری اہم چیز ہے جس کے بغیر انسان  زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

مستقبل کے ولیموں ے کی سب سے قیمتی ڈِش پانی کی ایک چھوٹی بوتل ہوگی۔ جہیز میں دولہا میاں ایک مہینے کے استعمال کا پانی مانگ لیں گے۔ ایڈوانس میں بک کئے گئے پینے کے پانی کی فائلیں بحریہ ٹاون کے واٹر ڈیلرز سے مل رہی ہوں گی ۔ آئی ایم ایف ہر مہینے پانی کی قیمت بڑھانے کی شرائط رکھنے والا ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک کیلئے سب سے بڑا بنک مستقبل کے لئے پانی ذخیرہ کرنے والا “واٹر بنک” ہوگا جو “ورلڈ بنک” کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ یہ حالات زیادہ دور نہیں اور آپ کو دوتین سال میں ہی اس طرف کئے جانے والے عملی اقدامات عالمی سطح پر نظر آنا شروع ہو جائیں گے جب کہ اس کی تیاری تو سمجھدار ممالک بیس تیس سال پہلے ہی شروع کرچکے۔

آج سے پندرہ سال پہلے ناروے کے محکمہ بجلی کے ہیڈ آفس جانے کا اتفاق ہوا تھا تو وہاں کئی سال ایڈوانس میں ممکنہ طور پر میسر ہونے والے پانی کے تخمینے اور اس سے بننے والی بجلی کے خریداری کے لئے سٹاک ایکسچینج میں اپنے سامنے لائیو بولی لگتے دیکھی تو ماتھا ٹھنکا کہ حالات کس طرف جارہے ہیں۔

ملائیشیا کا محکمہ آب پاشی آج سے بیس پچیس سال پہلے ہی پورے ملک سے ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے پانی کے حجم کی مقدار ہر پندرہ منٹ بعد انٹرنیٹ پر بالکل مفت آن لائن دستیاب کردیتا تھا تاکہ پانی کے بارے میں بروقت فیصلے کئے جاسکیں۔بارش کا سارا پرانا ریکارڈ فری میں دستیاب ہوتا تھا۔

ہمارے محکمہ موسمیات سے بارش کے پانی کا پرانا ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے ایڈوانس میں پیسے کیش ڈیپازٹ کروانے پڑتے ہیں اور پھر بھی پورا ڈیٹا دستیاب نہیں ہوتا۔ جو ملتا ہے وہ بہت مہنگا ہوتا ہے ۔ تقریباً ہزاروں روپوں کی قیمت میں اور وہ بھی کبھی درمیان سے ادھورا ہوتا ہے۔

آنے والا منظرنامہ بہت تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ دنیا کی دو تہائی آبادی 2030 سے پہلے پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہونے جارہی ہے۔ پانی کے حوالے سے ہماری موجودہ روش ہمیں مستقبل میں کچھ نہایت ناپسندیدہ قسم کے کام کرنے پر مجبور کر سکتی ہے ۔جنہیں کھل کر لکھا جائے تو اس وقت ایک مذاق لگے گا۔

مثلاً اگر ہم اسی طرح صاف پانی کے حوالے سے غافل رہے تو مستقبل میں عوام کے لئے میلوں دور دریاوں یا تالابوں سے پیدل، جانوروں پر یا گاڑیوں پر پانی لانا  انتہائی ضروری کام بن جائے گا جس پر گھر کے ایک فرد کو کل وقتی طور پر کام کرنا پڑے گا۔

پانی کی راشننگ ہوگی اور استحصالی طبقہ اس پر قابض ہوگا۔ ہم جیسے لاپرواہ لوگ بھی ایک مہینے تک اتنا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے جتنا ہم آج کل دو تین دنوں میں ضائع کر لیتے ہیں۔

جگ گلاس یا بوتلوں میں پانی پینا ایک خواب ہوگا۔ ہم مہینوں نہائیں گے نہیں۔ وضو اور غسل کی ضرورت اکثر تیمم سے پوری کرنا ہوگی۔ لوگ کار دھونا بند کردیں گے اور نہ ہی گھروں کے فرش  پائپ سے دھوئے جائیں گے۔ مسجدوں میں وضو خانے بند ہوجائیں گے اور گھر سے وضو کا بندوبست کرنا ہوگا جو اکثر پھوار والی ٹوٹی سے ہوگا۔ طہارت کے لئے پانی کی بجائے ٹشو کا استعمال ہو گا۔

بارش کا پانی جمع کرنے کا وسیع پیمانے پر بندوبست ہوگا ۔ سڑکوں گلیوں پر بارش کا پانی بہت کم نظر آئے گا۔ بلکہ لوگ ایک دوسرے کی چھتوں اور گھروں سے بارش کا پانی باقاعدہ چوری کریں گے اور ان حالات میں کسی ملک کیُ معیشت کہاں ہوگی یا قومی خود مختاری کا کیا بنے گا آپ خو اندازہ لگا لیں۔

پاکستان الحمدللہ صاف پانی کے لحاظ سے دنیا کے امیر ممالک میں شامل ہے۔ دنیا کے صرف تیس پینتیس ملک ہم سے زیادہ پانی رکھتے ہیں ۔ ہمارے پاس ہماری ضرورت کا سارا پانی موجود ہے لیکن ہماری واٹر مینجمنٹ  انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔

زراعت ہمارا کم ازکم نوے فی صد سے زیادہ پانی پی جاتی ہے جس میں سے آدھا پانی ہم زمین سے پمپ کرتے ہیں۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم زراعت میں جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات کا سہارا لیتے ہوئے مائکرو مینجمنٹ  اور ہر پودے کے لیول تک جائیں تاکہ فلڈ اری گیشن کے موجودہ طریقے سے ضائع ہونے والا پانی بچ سکے۔

اس سلسلے میں اب تک کی جانے والی ساری کوششیں انتہائی ایمانداری سے ناکام ہو چکی ہیں۔ہمارا زیادہ تر کسان بے وسیلہ اور کم پڑھا لکھا ہے اور پائپ سسٹم کے منصوبے بناتے ہوئے اسے چلانے اور مرمت کرنے یا پھر اس کے اسپئیر پارٹس کی آسانی سے دستیابی کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔

زمینی پانی کی پمپنگ پر پابندی لگا کر اسے اسٹیٹ اون کردیا جائے۔اچھی نسل کی فصلیں لگا کر فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جائے۔ آبادی کنٹرول کی جائے۔ شہروں، گھروں اور کارخانوں میں استعمال ہونے والا پانی ہر سطح پر بچایا جائے۔ کارواش سروس ا سٹیشنز یا گھروں میں پائپ سے گاڑیاں دھونے پر مکمل پابندی ہو۔ گھروں کے فرش پائپ سے نہ دھوئے جائیں۔ گھروں کا نیلا پانی جیسے وضو کا پانی یا سبزی دھونے والا پانی پودوں کو لگا کر ری سائیکل کیا جائے۔ وضو کا پانی ری سائیکل ( دوبارہ استعمال) ہو۔ بارش کے پانی کو گھروں، میدانوں اور ویرانوں میں ذخیرہ کرنے اور اس سے زیرزمین پانی میں جذب کرنے کے لئے اقدامات ہوں۔

سب سے اہم بات کہ پانی کی اہمیت اور اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہمارے اسکولوں ، کالجوں، مدرسوں اور جامعات  میں ہر کلاس میں خصوصی مضامین  پڑھائے  جائیں۔ سوشل میڈیا پر آگاہی پھیلائی جائے۔ اس سلسلے میں خواتین کا کردار سب سے اہم ہے جو گھروں کی واٹر منیجمنٹ کا کنٹرول سنبھال سکتی ہیں اور بچوں کی چھوٹی عمر سے ہی پانی دوست تربیت کر سکتی ہیں۔

مناظر: 625
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ