اس وقت ملکی سیاست جس انتشار کا شکار ہے، اس میں کوئی ایک موضوع نہیں جس پر کچھ کہہ کر یہ سمجھ لیا جائے کہ حالات و واقعات پر اپنے خیالات پیش کرکے اپنا مکمل نقطۂ نظر قوم کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ حالات دن بہ دن اتنے پہلودار اور پیچیدہ ہوتے چلے جارہے ہیں کہ وہ ایک ایسے سمندر کی مانند ہیں جس کا کوئی کنارہ ہی دکھائی نہیں دیتا۔ اور ایک عام شہری کی زندگی اس سمندر میں اُس کشتی کی سی ہے، جو اس بحرِ بے کراں کی بپھرتی موجوں پر سفر کرتی ہے۔
اس وقت ملک کا سیاسی سٹیج دو حصوں میں منقسم ہے: ایک حصے پر ملک کی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور دوسرے حصے پر اقتدار سے الگ کی جانے والی جماعت براجمان ہے۔ اس وقت دونوں کیمپوں کے بیانیے سیاسی فضا میں گونج رہے ہیں۔ سابقہ اپوزیشن اتحاد _ جو اَب حکومتی اتحاد میں تبدیل ہوچکا ہے _ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اس کے پاس گورنمنٹ کے خلاف مہنگائی کا ایک قابلِ ذکر بیانیہ تھا، لیکن اب حکومت میں آکر نہ صرف اس کے پاس کوئی خاص بیانیہ نہیں ہے، بلکہ اس اتحاد کی سب سے نمایاں پارٹی نے ایوانِ اقتدار کی طرف بڑھتے ہوئے امریکا کے حق میں چند ایسے بودے بیانات دیے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے لیے جگ ہنسائی کا کافی سامان جمع ہوگیا ہے۔ یہ اقتدار کے پجاری سیاست دان اقتدار کے لیے ہر طرح کی ذلت قبول کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کل تک جن اداروں کو یہ جمہوریت دشمن باور کرواتے تھے؛ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، اور سول بالادستی جیسے نعروں سے عوام کو دھوکا دیتے رہے، آج یہ پھر اپنی پرانی پچ پر آ کر دوبارہ اُن کے زیر سایہ کھیلنے میں بڑی راحت محسوس کررہے ہیں۔بہ قول میرؔ یہ اپنی زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں ؎
ہم غلامی میں ہوتے ہیں حاضر
اب نہ خدمت سے ہوویں گے قاصر
جاری سیاسی صورتِ حال نے ایک بار پھر یہ واضح کردیا ہے کہ ہمارے ہاں نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ یہاں سسٹم نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اداروں کے بجائے افراد طاقت کا منبع ہیں۔ ادارے، آئین اور قانون ان کے ہاتھ میں موم کی ناک ہیں، جنھیں جب جدھر چاہیں حسبِ خواہش موڑ لیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں اداروں کا بہ حیثیتِ ادارہ کوئی رول نظر نہیں آرہا۔ یوں لگ رہا ہے کہ یہ سارا بندوبست چند افراد کی خواہشات کے تابع ہے۔ وہ جب چاہیں‘ کھیل کو بدل سکتے ہیں۔ اسی لیے سیاسی پارٹیاں بھی اداروں کو آزاد، خودمختار اور مضبوط بنانے کے بجائے ان طاقت ور لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ اگر وہ ساتھ ہیں تو پھر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اور اگر مقامی آقا کے ساتھ بیرونی آقا کی بھی حمایت حاصل ہو جائے تو: سونے پر سہاگہ۔
قوم کے لیے یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر وقفے وقفے سے ایسے بحران کیوں جنم لیتے ہیں؟ ان کا ذمہ دار کون ہے ؟ ظاہر ہے ان کی ذمہ داری انھیں قوتوں پر آتی ہے، جو کٹھ پتلیاں بناتی اور توڑتی رہتی ہیں۔ ملک کے پہلے وزیراعظم کے قتل اور پہلے منتخب عدالتی مقتول وزیراعظم سے لے کر موجودہ عدمِ اعتماد کے شکار وزیراعظم تک اس کی کلاسیکل مثالیں ہیں۔ یوں ملک کا کوئی بھی وزیراعظم اپنی مقرر کردہ مدت پوری نہیں کرسکا۔
جن کے ہاتھوں میں اداروں کی باگ ڈور اور پاور ہوتی ہے، وہ ایک خرابی کو نظر انداز کرتے ہیں اور دوسری خرابی کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ اگر تحریکِ عدم اعتماد کو اِلتوا میں ڈال کر تاخیری حربے استعمال کرنا آئینی تقاضوں کی پامالی ہے تو مرکز سے لے کر پنجاب کے صوبے تک میں ممبروں کی منڈی لگاکر کرپشن کے پیسوں سے ہارس ٹریڈنگ کرنا اور عدالتی تشریح کا سامنے نہ آنا‘ آئین کی کون سی شق کی پاسداری کہلائے گا؟ بس یہی وہ خرابی ہے، جس نے موجودہ بحران کو جنم دیا ہے۔
اقتدار سے بے دخل پارٹی کا یہ بیانیہ کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو اقتدار میں واپس آنے کا راستہ دیا گیا ہے۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ کیوں کہ یہ بات اب ایک عام پاکستانی بھی جانتا ہے کہ قیامِ پاکستان سے اب تک اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں کی باقیات ہی نے ملک کو موجودہ صورتِ حال تک پہنچایا ہے۔ اور فردِ جرم کے زد میں کھڑے ضمانت پر رہا باپ بیٹے کے لیے جب ایوانِ اقتدارکا راستہ ہموار کیا جائے گا تو پھر بے دخل پارٹی کا بیانیہ عوامی مقبولیت تو حاصل کرے گا۔ اسے کیسے روکا جاسکتا ہے۔
اب دوسری طرف آجائیے! جہاں تبدیلی اور نئے پاکستان کے بعد اب خود مختار پاکستان کے نعرے گونجنے لگے ہیں۔ اس ملک میں مقبول بیانیوں کی سیاست کی پوری ایک تاریخ ہے۔ یہاں ’اسلام‘، ’نظامِ مصطفی‘، ’روٹی کپڑا مکان‘ اور ’اسلامی ملکوں کا بلاک بنانے‘ کی سیاست بھی ہوتی رہی ہے۔ آج کل بھی کچھ نئے بیانیے تشکیل دیے گئے ہیں۔ در اصل اس نظام میں چند سالوں بعد اُٹھنے والی نئی سیاسی قوت روایتی سیاست میں ’’انقلابی تقریروں‘‘ کا سہارا لے کر عوام میں نمایاں ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں اَوسط ذہن ہمیشہ جذباتی بیانیوں سے متأثر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے سیاسی کارکنوں کی اکثریت _ خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہو _ ہمیشہ جذباتی بیانیوں کے پیچھے چلتی ہے۔ یہ جذباتی بیانیے سیاسی کھیل کا حصہ ہوتے ہیں، تاکہ عوام کی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔ یہ بے چارے دُکھیارے عوام بھی ان نعروں اور تقریروں کو حقیقت سمجھ ♫بیٹھتے ہیں اورحکمران‘ عوام کی حمایت سے نظام کی ’’کان‘‘ میں جاکر عوام کے علی الرغم نظام کے ہوجاتے ہیں: ہر کہ درکانِ نمک رفت، نمک شُد (جو نمک کی کان میں گیا، نمک ہوگیا)۔
امریکی بلاک کی مخالفت اس وقت کا مقبول بیانیہ ہے۔ اس مقبول بیانیے کواقتدار سے بے دخل سیاسی جماعت عوامی حمایت کے لیے بھرپور استعمال کررہی ہے۔ اگر تو کوئی پارٹی امریکی بلاک کے بارے میں سنجیدہ اقدامات کرے تو یہ اس ملک کی قسمت کو بدل دینے کا ایک بہت بڑا فیصلہ ہوگا۔
لیکن بغیر کسی جماعتی تیاری اور نظام کی تبدیلی کے ایسے دعوؤں کو محض ووٹ بینک کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ بھی ویسا ہی ایک سیاسی حربہ ہے، جیسے پہلے سیاست دان مقبول بیانیوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
کسی بھی قوم کاوقار اور غیرت اس ملک کی آزاد تجارت ومعیشت اورخود مختار قومی نظامِ تعلیم، آزاد خارجہ پالیسی جیسے اُمور سے ہوتا ہے۔ ہم ان سب چیزوں میں بُری طرح پستی اور زوال کا شکار ہیں، لیکن ہماری سابق حکومت کی ایلیٹ صرف جلسوں سے خطاب اور لاؤڈ سپیکروں پر نغمے چلاکر قوم کی ’’غیرت‘‘ کو بحال کرنے نکلی ہوئی ہے۔ ہمارے یہ بابو ’’اِمپورٹڈ _حکومت _نامنظور‘‘ کا ٹرینڈ تو چلارہے ہیں، لیکن اِمپورٹڈ سرمایہ داری نظام سے ان کی صلح ہے۔ قومی سلامتی، عدالتی ماحول، صحت، تعلیم اور معیشت سے لے کر نہ جانے کہاں کہاں ہمارے پاؤں اِمپورٹڈ بیڑیوں میں جکڑے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اِمپورٹڈ حکومت سے زیادہ اس اِمپورٹڈ نظام سے قوم کی گلو خلاصی کے تقاضے پورے کیے جائیں۔
(شذرات، ماہنامہ رحیمیہ لاہور، شمارہ مئی 2022ء)