اللہ تعالیٰ کے انسان پر جو بے شمار احسانات ہیں ان میں ایک اہم احسان دولت ِ ایمانی بھی ہے، کہ جس کو اس سے حصہ مل گیا وہ گویا ایک بہت بڑی نعمت سے سرفراز ہوگیا۔ لیکن جیسے کوئی بھی عہدہ اپنے ساتھ ذمہ داریوں کا بار ِ گراں بھی رکھتا ہے، بعینہہ بحثیت ِ مسلمان ہمارے اوپر بھی نہایت اہم ذمہ داری ہمارے خالق و مالک کی طرف سے لاگو ہے، جس کا نہ صرف ہمیں احساس ہونا چاہیے بلکہ یہ بات بھی پیش ِ نظر رہنی چاہیے کہ اس کی بابت خدا وند کریم ہم سے استفسار کرے گا۔ اس کائنات میں قسم ہا قسم کی مخلوقات پائی جاتی ہیں، ان میں سے انسان کو فضیلت حاصل ہے۔ مگر اس کی وجہ اس کے اندر رکھی گئی دو اہم خصوصیات ہیں، یعنی عقل اور احساس۔ اور یہ دو چیزیں جب کسی انسان کے اندر موجود ہوں، تو وہ لامحالہ اس کائنات کی غرض و غایت کو جان کر اس کے خالق کو پہچان لیتا ہے اور اس کے احکامات کے آگے سرِ تسلیم خم کردیتا ہے اور اسی حالت کو مسلمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم خدا وند کریم کی حقیقی منشاء اور اپنی پیدائش کی اصلی وجہ جاننے کے واسطے حضرات ِ انبیاء کی تقلید کرنا انسان کے واسطے خدا کی جانب سے لازم کی گئی ہے، تاکہ وہ خدا کی اصلی رضا اور اس کے قرب کو حاصل کرسکے۔
دنیا میں انبیاءؑ کے سلسلے کی آخری کڑی جناب محمد مصطفیﷺ کی ذات ہے، اور آپ ﷺ کی اطاعت اور فرماں بردای میں ہی خدا نے اپنی رضا اور قرب کا وعدہ فرمایا ہے۔ ویسے تو وہ تمام انسان جو اس زمانے میں کہیں بھی بستے ہیں، وہ امت ِ محمدیہ ﷺ میں داخل ہیں تاہم ان میں سے مسلمان قوم کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ آپﷺ کی نائب اور آپﷺ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کی ذمہ دار ی سے بہرہ مند کی گئی ہے۔ امام الانبیاءﷺ جب دنیا میں تشریف لائے تو جہاں بھر میں گھٹا ٹوپ اندھیرا اور معاشرتی برائیاں پوری طرح مسلط تھیں۔ ان تمام برائیوں کی جڑ کوئی اور نہیں بلکہ وہ چند انسان تھے ، جنہوں نے اپنے مفادات کے واسطے پوری دنیا کو جہنم بنا دیا تھا۔ تاہم نبی مکرمﷺ کی ذات ِ با برکات نے محض توکل علی اللہ کی بنیاد پر ان ظالم انسانوں اور ان کے بنائے ہوئے ظالمانہ قوانین اور رسوم و رواج کے خلاف آواز بلند کی۔ آپﷺ کی آواز پرجن لوگوں نے لبیک کہا، انہیں آج ہم صحابہ کرام کے نام سے جانتے ہیں۔ ابتداء میں یہ جماعت مختصر ضرور تھی، مگر اپنے عزم اور حوصلے کے باعث پر امید اور لگن سے سرشار تھی۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ جب یہ جماعت اس قابل ہوگئی، تو اللہ تعالی ٰ کے فضل و کرم اور بانی جماعت ﷺ کی شبانہ روز محنت سے اس جماعت نے دنیا کو ایک نیا صالح نظام دیا ، جس نے اس وقت کے تمام ظالمانہ نظاموں اور ان کے رکھوالوں کو للکارا۔
آپﷺ کی بدولت جب دنیا اس نئے صالح نظام کی برکات سے مستفید ہوئی، تو دکھوں اور مصائب کے مارے اللہ کے بندے اس جماعت میں برضا و رغبت شامل ہوکر دنیا اور عاقبت کو سنوارنے میں لگ گئے۔ یہ صالح نظام ایک عرصے تک دنیا کے ایک بڑے حصے کو خوشحالی ، امن، سکھ چین، تعلیم اور مساوات کا درس دیتا رہا، تاہم اغیار کی سازشوں اور دیگر عوامل نے بالآخر اس نظام کا خاتمہ کردیا اور دنیا پھر سے اُسی نقطے کی طرف لوٹ آئی کہ جہاں لوٹ مار، معاشرتی عدم مساوات، جہالت، انارکی، طوائف الملوکی اور لاتعداد لسانی اور مذہبی عصبیتیں موجود ہیں۔ آج ہماری دنیا جو کسی دور میں جنت کا نمونہ تھی کہ جہاں، معاشرتی اور اخلاقی گرا وٹ کا نام و نشاں تک نہ تھا، وہ ایک ایسی حالت پر پہنچ چکی ہے کہ انسان اپنے مقام سے گر کر حیوانیت سے بھی بدتر درجے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اور اس پہ مستزاد اس تباہی و بربادی کی دبیز لہر کے سائے بلا تفریق رنگ ، نسل ، مذہب تمام اقوام عالم پر پڑے ہوئے ہیں اور دنیا میں موجود مظلوم انسانوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ آخر اس کا انجام کیا ہوگا۔
لیکن اس سارے عالم میں اصل دکھ اس بات کا ہے کہ ، آج کا مسلمان جو ان تمام مصائب اور تکالیف کا مداوا کرنے کا منصب رکھتا ہے وہ اپنی اس اہم ذمہ داری سے غافل ہوکر کسی اور ہی جہاں کے خواب دیکھنے اور اُسے پالینے کی تمنا دل میں لیے ہوئے اپنے گردوپیش سے بے خبر خواب ِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ ہم اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ پاک کو اپنی مخلوق سے کس قدر اور انسان سے کس حد تک محبت ہے۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ جب کوئی اُس کے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیے گئے انسان کو تکلیف اور دکھ میں مبتلا کرتا ہے تو یہ چیز اُسے کس قدر غضبناک کرتی ہے۔ لہذا آج جب پوری دنیا دکھ کے سمندر مین ڈوبی ہوئی ہے اور مدد کو پکار رہی ہے، تو یہ بات کس قدر باعث ِ تکلیف اور شرمندگی ہے کہ ان تمام مصائب اور آلام کا چارہ گر اپنے ماحول سے بے خبر ایک رہبانیت نما زندگی بسر کرنے کو خداوند تعالیٰ کی رضا اور جنت کے حصول کا ذریعہ سمجھ رہا ہے۔ لیکن اُسے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ، بحثیت ِ مسلمان اُس کے ذمہ اپنی جنت کے حصول سے کہیں بڑھ کر دوسروں کی جنت کی فکر ہے۔ آج کا مسلمان محمد عربیﷺ کا کلمہ پڑھنے کے باوجود انسانیت پرروا رکھے گئے مظالم سے بے پرواہ اور بے حس ہوچکا ہے۔ اور یہ زوال کی اس سطح پر آچکا ہے کہ جہاں، وہ عبادات کے اندر بھی محض اور محض اپنی ہی عافیت اور عاقبت کا متمنی ہے، لیکن ان عبادات کی اصل روح اور ان کی اصلی غرض و غایت کو بھلا چکا۔ لہذا ہم سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے کل ، خدا کے سامنے جب پیش ہونا ہے تو یہ تمام انسانیت ہمارا گریبان پکڑے گی ، اور ہم خدا کے دربار میں ان کے لئے جواب دہ ہوں گے۔ اس لئے کہ بحثیت محمدیﷺ ہونے کے یہ ہمارا سب سے مقدم فریضہ اور سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ روایات میں منقول ہے کہ ، جب کوئی بھی شخص حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ کو سید کہہ کر پکارتا اور اُن سے دعا کی درخواست کرتا تو اُن کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اسی چیز کا غم کھائے جارہا ہے کہ کل ، اگر روز ِ قیامت نانا ﷺ نے پوچھ لیا ، کہ میری امت کو کس حال پہ چھوڑ کر آئے تھے تو بتلاؤ میں کیا جواب دوں گا۔ اب ہم اس پہ غور کرلیں کہ وہ شخص جس کے یہاں سے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ جیسی شخصیت تزکیہ نفس کی دولت سے مالا مال ہوئی ہے، وہ اپنے آپ کو کس قدر جواب دہ سمجھتا ہے تو ہمارا کیا حال ہوگا اور ہم اپنے اس فرض سے کس قدر عہدہ برا ہورہے ہیں۔