حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا،یہ جملہ ہم اکثر سنتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم دن رات حقیقت کو بدلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یا حقیقت کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ حقیقت کو بدلنے کے لیے لفظ ہی جادو کے وہ اسم بن جاتے ہیں جنہیں ہم بول کریا لکھ کر حقیقت کو بدل دیتے ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں آپ میری بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں آپ خود بھی یہی کام کرتے ہیں۔
صاحب! آپ ناراض ہوگئے میں آپ کو ناراض کرنا نہیں چاہتا صرف اس بات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ حقیقت کو اکثر بدل دیا جاتا ہے اور یہ کام سادہ سے لفظوں سے لیا جاتا ہے شیکسپیئر کو یہ حقیقت معلوم نہ تھی اسی لیے اس نے کہا تھا کہ گلاب کو جو نام بھی دیا جائے وہ گلاب ہی رہتا ہے حالانکہ نام بدلنے سے اکثر اوقات حقیقتیں بدل جاتی ہیں۔ یہ واردات تاریخ کے واقعات کے ساتھ اکثر کی جاتی ہے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ کالے سترھویں اٹھارہویں صدی میں امریکہ آئے اوربکے،میں یہ سن کر چونکا اور عرض کیا کہ وہ کیوں آئے؟ کیا انھیں گھر والوں نے نکال دیا تھا ؟کہنے والے نے کہا، وہ دراصل انہیں اس وقت کے گورے لے کر آئے تھے،میں نے پھر سوال کیا ،گوروں کو کیا ضرورت تھی انہیں لے کر آنے کی کالوں نے خوامخواہ ان کے معاشرے کو خراب کیا ،وہ صاحب زچ ہو کر بولے، دراصل ان گوروں کے بڑے لے کر گئے تھے یہ تو نہیں۔
اس ساری گفتگو کے پیچھے سچا ئی یہ تھی کہ گوروں نے کالوں کو ان کے وطن سے اغوا کیا اور ظالمانہ طریقے سے انہیں امریکہ لے گئے، وہاں انہیں بیچ کرنوٹ کھرے کیے اور کالے ،نسل در نسل غلامی کا جوا کاندھے پر لادے جیون کا سفر کرتے رہے۔ گورے صدیوں نفرتوں کا زہر ان کی رگوں میں بھرتے رہے ،صدیوں کے اسی سفر میں ان بیچاروں نےکتنا کرب سہا، کتنا دکھ بھوگا، کتنے زخم اٹھائے، ان کی روحیں زخمی ہیں۔ وہ احتجاج کرتے ہیں تو وہ سرتاپا غیض و غضب کا ہو جاتے ہیں ، یہ صرف آدھے سفر کی داستان ہے، وہ کس طرح پکڑے گئے،کیسے زنجیروں میں جکڑے گئے، کس طرح جہازوں پر مال اسباب کی طرح اوپر نیچے ڈال دیے گئے، ان میں کتنے جان ہار گئے اور سمندر میں پھینک دیئے گئے ۔ان میں سے جو سخت جان تھے وہ امریکہ پہنچے ۔ یہ لوگ کتنی بیماریوں کا شکار ہوئے ،گوروں نے ان سے آزادی اور مذہب دونوں چھین لیے اور انھیں غلامی اور بائبل تھما دی، اب ان سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ مہذب بنیں، اپنی ثقافت اور اپنی الگ شناخت پر اصرار نہ کریں۔ ان بیچاروں سے ان کی زبان چھن گئی ان سے ان کا مذہب چھن گیا ۔ان کی ثقافت اور شناخت چھن گئی، اب یہ لوگ اپنی بچی کچھی پہچان کوپہچاننے اوربچانے کی کوشش کر رہے ہیں اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔ آپ اعتراض کرنے والے بہت اچھے آدمی ہیں آپ کسی طرح بھی نسل پرست نہیں ہیں ۔ یہ کالے ہی نسل پرست ہیں ۔آپ نے کتنی آسانی اور خوبصورتی سے تاریخ کواختصار سے بیان کردیا ۔
’’ فلاں صدیوں میں یہ کالے امریکہ آئے اور بکے ‘‘۔
کالوں کو امریکہ جانے اور بکنے کا جرم تسلیم کرلینا چاہیے جیسے ایک شاعر نے اپنا جرم تسلیم کیا تھا
گر نازنین کہے سے برا مان گئے ہو تم
میری طرف تودیکھیے میں نازنیں سہی
اب ذرا اپنے ماحول میں آ کر دیکھیے، پی آئی اے کا حادثہ ہوا ،حادثے کی ذمہ داری بڑوں پر عائد ہوتی تھی، انہوں نے ایک لفظ کو اسم اعظم کی طرح استعمال کیا اور حقیقت حال ہی بدل ڈالی ۔ حادثے کے روز یا شاید ایک آدھ روز بعدیہ اسم اعظم پھونکا گیا اور پی آئی اے کے سربراہ ہر قسم کی ذمہ داری سے بری ہو گئے ۔ پتہ چلا کہ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کو شہید قرار دے دیا گیا، اب بھلا مرنے والوں کے لواحقین کیونکر احتجاج کریں گے، انھیں چاہیے کہ شہید ہونے والے کی شہادت پر فخر کریں۔
جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988 کو طیارہ حادثے میں جل کر ہلاک ہو گئے ،وقتی طور پر جاں بحق قرار پائے اور دو دن بعد خیال آیا کہ پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے انھیں شہید قرار دیا جائے تو انھیں ہلکا پھلکا ہیرو بنایا جاسکتا ہے۔ دو دن بعد کابینہ نے انہیں شہید کا درجہ عطا کر دیا ۔ کس کی مجال تھی کہ اعتراض کرتا اور کہتا کہ کسی کو شہادت کا درجہ عطا کرنا تو پیدا کرنے والے الہ الحاکمین کا اختیار ہے ۔ چند ایک خطباء نے باقاعدہ فتوی جاری کیا کہ جنرل ضیاء الحق باقاعدہ شہید ہیں، کسی نے یہ تک نہ پوچھا کہ یہ افتاءکی کونسی قسم ہے؟ جو بجائے صورت واقعہ کے ایک مخصوص فرد کے بارے میں ہے، یہ تو قضاءہے ، افتاءنہیں، مگر اصلی ہیئت ملکہ انھیں شہید بنانے کا فیصلہ کر چکی تھی، یہ الگ بات کہ ، تاریخ ہیئت حاکمہ کی بات ماننے سے انکار بھی کر سکتی ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی وی پر شہادت کا درجہ پانے والے پاکستانی میڈیا پر ڈکٹیٹر کا رتبہ پا گئے ہیں ۔ حالانکہ ڈکٹیٹر کا درجہ ان کی شخصیت سے کہیں زیادہ بلند ہے ۔
شہادت کا لفظ وہ اسم اعظم ہے جو حقیقت حال کو بدلنے کے کام آتا ہے مگر صرف ایک واقعہ پر یہ منتر پھونکا تو گیا ،کامیاب نہ ہو سکا ، دراصل مقابلےمائیں کھڑی تھیں۔ اے پی ایس کے واقعہ کو شہادت میں لپیٹنے کی کوشش تو ہوئی مگر کامیابی نہ ہوسکی ،دراصل ایک ماں بول اٹھی تھی :
ہمارے بچے محاذ پر جنگ لڑنے تو گئے نہیں تھے، وہ تو پڑھنے گئے تھے، آپ ہمارے بچوں کی حفاظت نہ کر سکے، ہمیں شہادت کا تمغہ نہیں چاہیے، ہمارے بچوں کے قاتل چاہیں۔
1947 میں 14اگست کو رات 12 بج کر ایک منٹ پر ایک حکم نامے پر دستخط ہوئے اور ہندوستان کو دو الگ ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا اور آزادی بخش دی گئی ۔ یہ آزادی کیسی تھی اس پر کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ 1857 کے غدر کے بعد بہت سے قوانین تشکیل دیے گئے تا کہ غلام ملک کے شہریوں کو غلام رکھا جائےاور انھیں غلامی کی عادت ڈالی جا سکے۔ یہ قوانین اب بھی موجود ہیں اور ہم آزاد ہیں۔
1947 کے واقعے کو مختلف لوگ مختلف لفظوں میں بیان کرتے ہیں مثلا پاکستان میں ہم کہتے ہیں:
1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا
1947 میں پاکستان بنا
جبکہ ہندوستانی مسلمان مجھے حج کے موقع پر مکہ اور مدینہ میں ملے تو اس واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں:
1947 میں ہندوستان تقسیم ہوا
جب بٹوارہ ہوا
ذرا غور کیجیے لفظوں کے استعمال سے حقیقت بدل گئی ہے۔
ویسے تو ہمارے ان پڑھ دیہاتی 1947 کے واقعے کو جن لفظوں میں بیان کرتے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں، وہ ایک تو پنجابی بولتے ہیں دوسرے وہ کتابوں کی باتیں کرنے کی بجائے آس پاس کی باتیں کرتے ہیں، وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں:
جب فسادات ہوئے اور لوگ لٹ پٹ کر اپنے گھروں سے نکلے
وہ غلامی کے زمانے کو امن کا دور کہتے ہیں۔
وہ آزادی کے لیے کہتے ہیں:
جب لوگ اجڑے
یہ ان پڑھوں کی باتیں ہیں، مگر وہ بھی تو حقیقت کو اپنے طور پر بیان کرتے تھے۔ کیا ان کے جملے حقیقت کو بدل دیتے ہیں یا نہیں۔
ایک اور مصیبت بھی ہے دنیا میں زبانی تاریخ کے شعبے کھل رہے ہیں ، ان پڑھ بزرگوں کی روایتوں اور حکایتوں کو زبانی تاریخ میں شامل سمجھا جاتا ہے ایسا کرنے سے ہماری تاریخ تو بدل جائے گی ،یا ویسی ہی رہے گی جیسی ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔
1947میں پنجاب میں فسادات ہوئے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ ٓزادی کے لیے دی جانے والی قربانی تھی، اب ذرا سوچیے آزادی تو 14 اگست کو دی گئی فسادات اس کے بعد بھی جاری رہے بلکہ فسادات تو صحیح معنی میں 17 اگست کو ریڈ کلف ایوارڈ کے بعد ہوئے ۔ پھر قربانی دینے والوں کو توپتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کیوں قربانی دے رہے ہیں، قیادت قربانی دینے والوں کی قربانیوں سے لاعلم تھی وہ حکومت سازی کے عمل میں مصروف تھی ۔
صاحب !ہم لفظوں کے استعمال سے حقیقتیں بدل دیتے ہیں اگر ایسا نہ کریں تو حقیقت ناقابل بیان اور ناقابل برداشت ہوجائے۔ لفظ کیپسول ہوتے ہیںجو سچائی کی کڑوی کسیلی دوائی کو قابل برداشت بنا دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات انتہائی خوشگوار اور قابل فخر بنا دیتے ہیں ۔ کبھی کبھی کوئی فرد اپنا دکھ سنا کر لفظوں کا طلسم توڑتا ہے جیسے ننکانہ صاحب کی زیارت کے لئے آئی ایک سکھ عورت نے کہا :
’’میں مسلمان تھی 1947 میں اٹھا لی گئی اب سکھ ہوں مسلمانوں! تمہیں پاکستان مبارک ہو ‘‘
تاریخ کا سرکاری بیان بھیانک سچائیوں کو قابل رشک بنا دیتا ہے۔ ایک مؤرخ سرکار کی رضا کی لیے حقیقت بدلتا رہے گا، برناڈ شا نے کہا تھا:
’’مؤرخ ہمیشہ کی طرح جھوٹ بولتا رہے گا ‘‘
ہم سب لوگ لفظوں سے حقیقت بدلنے کا کام لیتے ہیں مگر مؤرخ کا فرض کیا ہے؟ حقیقتیں بدلنا یا سچ کھول کر کڑوا سچ بیان کرنا۔
میری جھولی میں بس ایک ہی سوال ہے