کرونا یا کووڈ-انیس نامی بیماری ،سارس-کو-2 نامی وائرس سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں چھیکنے یا سانس کے ذریعے منتقل ہو سکتا ہے۔ لیکن کتنے وقت میں ؟ اس سوال کا جواب ابھی تک نہیں دیا گیا۔ یقیناً یہ وائرل لوڈ پہ منحصر ہوگا۔ موجودہ تحقیق کے مطابق 40 سال سے زیادہ عمر والے افراد کیموت کے مواقع ہیں، جبکہ اس سے کم عم والے صحت مند افراد کی موت کی کوئی مصدقہ اطلاع کسی طبی تحقیق کے جرنل میں شائع نہیں ہوئی ہے، سوائے میڈیا کی خبروں کے۔ اس مرض میں مبتلا شخص آٹھ دن سے ایک مہینے تک مر سکتا ہے۔ یہ وائرس 4سینٹی گریڈ پہ زندہ رہتا ہے اور اس سے زیادہ پہ مر جاتا ہے۔تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ وائرس عام جگہ پہ ہاتھ لگانے سے نہیں پھیل سکتا۔پلاسٹک اور سٹین لیس سٹیل پہ زیادہ زندہ رہتا ہے، زیادہ سے زیادہ بہتر گھنٹے، البتہ کارڈ بورڈ یا کاپر کی سطح پہ جلدی مر جاتا ہے۔[1, 2]
اس مرض کا ٹیسٹ جس کٹ سے کیا جاتا ہے اس ٹسٹت کے درست ہونے کے امکانات کم ہیں۔ مرض کو ثابت کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ چھاتی کا سی ٹی سکین کیا جائے؟ لیکن قوی امکان ہے سی ٹی سکین بہت کم لوگوں کا کیا گیا ہوگا۔ صرف کٹ کے ٹیسٹ کی بنیاد پہ ہی ڈھول بج رہے ہیں؟چونکہ ڈاکڑ بھی ڈرے ہوئے ہیں اور اس مرض کے پیچھے سیاست کو کم ہی دیکھتے ہیں ،اسی لیے تمام ہسپتالوں نے اپنے ڈاکڑوں کی صحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ، دیگر بیمایوں کے تمام “انڈور مریضوں” کا اپریشن سے پہلے کورونا ٹسٹ لازمی قرار دے دیا ہے۔ اب اگر مریض کا ٹیسٹ مثبت آ گیا تو اس کا علاج یا آپریشن سرے سےنہیں ہوگا یا دیر سے ہو گا اور مریض کرونا کی بجائے دوسری بیماری سے مرجاتا ہے ، البتہ اس مریض کو کرونا کے کھاتے میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح بہت سارے لوگ جو مرے ہیں وہ دیگر بیماریوں کی وجہ سے مرے ہیں ،کرونا سے نہیں۔دیگر بیماریوں کی وجہ سے اموات میں کمی بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بہت سارے مریض جو کہدیگر بیماریوں سے مرے ہیں، ان کو بھی کرونا کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے ،جبکہ او پی ڈی بند کرکے باقی امراض میں مبتلا افراد کو موت کی جانب دھکیلا گیا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی جنگ بھی ہے۔ اس جنگ میں میڈیا ، انٹر نیٹ، فون یا دیگر تمام اداروں کے ذریعے اتنی تشیہر کی گئی ہے کہ لوگ خوف کا شکار ہیں۔ خوف میں مبتلا شخص ویسے ہی سینے میں درد یا سردی محسوس کرتا ہے، اس کی قوت مدافعت ویسے ہی جواب دے جاتی ہے ،ا ور اس حالت میں کوئی بھی مرض لگ سکتا ہے۔ بخار ہونا تو دفاعی نظام کے رد عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی بیماری تھوڑی ہوتی ہے۔ ورزش سے دفاعی نظام طاقت ور ہوتا ہے، اسی لیے پارکس کو پوری دنیا میں اور وطن عزیز میں بھی بند کر دیا گیا۔ البتہ دیحات کھلے ہیں؟ وہاں کرونا نہیں ہے!
طبی جرنلز میں چھپنے والی اس تحقیق پہ کئی ایک سوالات جنم لیتے ہیں۔ یہ وائرس چین کے تمام علاقوں میں کیوں نہ پھیلا؟ جبکہ پاکستان یا انڈیا کی حکومتوں نے پورے ملک بند کر دیے۔ باوجود اس المیہ کے کہ ان ممالک میں کروڑوں لوگ اسی دوران بے روزگار ہو گئے۔سندھ حکومت کا اپنی تمام تر نااہلیوں کے باوجود کرونا کے لیے متحرک ہونا ،ثابت کرتا ہے یہ مرض طبی سے زیادہ سیاسی ہے۔ کوئی بھی مشہور آدمی اس مرض سے نہیں مرا اور اگر کسی کی خبر ہے بھی تو اس کو دیگر امراض لاحق ہونے کا قوی امکان ہے۔ اسی دوران دیگر اموات میں کمی آئی ہے۔ جبکہ کرونا کی اموات 1فیصد سے زیادہ نہیں ہیں، تو پھر اتنا شور کیوں؟ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی موذی مرض میں مبتلا ہے تو اس کو بخار یا گلے کی خرابی ہو سکتی ہے۔ بخار یا گلے کی خرابی پرانے دائمی مرض ہیں اور ان کے ٹھیک ہونے کا دورانیہ بھی ایک سے دو ہفتے ہیں اور کرونا بھی اسی دورانیے میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔
جب سے کرونا آیا ہے ٹرمپ کی چائنہ سے وار کھل کے سامنے آ گئی ہے۔ افغانستان سےانخلا، ایران پہسیاسی دباؤ اور دہشت گردی میں نمایاں کمی سب بتاتے ہیں کہ ان کا اصل ہدف چائنہ ہے۔پہل کرتے ہوئے امریکہ نے چین کی ٹیک کمپنیوں پہ پابندیاں لگا دی، ان کی ائیر لائن کی امریکی فلائٹ بند کر دی اور حد سے زیادہ تشیہر کر کے ان کی تجارتی سرگرمیاں روک دیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی قوم یہ سب کر رہی ہے یا امریکہ کو بھی چلانے والی اصل طاقت یہ کر رہی ہے؟امریکہ میں نسلی فسادات کروا کے امریکہ کو کمزور کروانے میں کس طاقت کا ہاتھ ہے؟ یقیناًاسی طاقت کا یہ کام ہے جس کو سرمایہ دارانہ نظام کی لیڈرشپ کہا جاتا ہے۔ وال سٹریٹ بھی امریکی نسلی فسادات پہ چپ ہے یا حمایت کر رہی ہے۔ یہ سارے واقعات بتا رہے ہیں کہ سرمایہ داری نظام کا مرکز اب امریکہ کی جگہ کوئی اور ملک ہو گا۔ شائد آسٹریلیا؟ عرصے دراز سے حقیقت ٹی وی والے تو اسرائیل کو نیا سنٹر دیکھ رہے ہیں، لیکن اس سے نئے مسائل جنم لیں گے۔خیر جو بھی ہو؟ ہو سکتا ہے نظام زر کی قیادت بھی اس پہ ابھی متفق نہ ہو۔مودی انڈیا اس وقت دو محبتوں میں انتخاب نہیں کر پا رہا ہے:انڈیا کا پرانا قومی کردار اور بین الاقوامی سطح پہ نیوٹرل رہنا۔ اب واضح طور پہ انڈیا کا جھکاؤ سرمایہ دار طاقت کی طرف ہے۔ آسٹریلیا اور انڈیا کا دفاع میں قریب آنا اس اتحادکی ایک علامت ہے۔انڈیا و چین فوجی تنازہ اگر طول پکڑتا ہے تو یہ ایشیا کے لیے لیے اچھا نہیں ہو گا۔شنگھائی تعاون تنظیم اس سے متاثر ہو گی۔
یہ تمام سیاسی تبدیلیاں اس وقت ہو رہی ہیں جب کرونا کی مرض کا چرچا عام ہے۔ یہ عوامل بتاتے ہیں کرونا کی آڑ میں نیا نظام عالم تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس نئے نظام عالم میں مختلف اقوام کا کردار کیا ہو گا، یہ تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ نئے بین الاقوامی نظام میں سرمایہ دار طاقتیں دنیا کے وسائل کو مزید قابو میں رکھنا کرنا چاہتی ہیں۔ کرنسی نوٹ کو ختم کرکے مالیاتی نظام کو کرپٹو کرنسی یا دیگر خود ساختہ سوفٹ کرنسیوں کے ذریعے قابو کر کے افراد پہ مزید گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہیں، جو کہ جدید دور کے نئے اجتماعی نظام کی ایک شکل ہے۔ زمین کو کنڑول کرنے کے بعد اب باقی سیاروں اور سپیس فورس کا قیام عمل میں لانا چاہتی ہیں، جس میں خلائی سپیس سٹیشن کو مضبوط کرنا اورباقی سیاروں پہ آباد کاری کرنا ہے۔ 5 جی ٹکنالوجی کے ذریعے تعلیم کو مدرسے کی بجائے آن لائن کرنا چاہتی ہیں۔ خاندان، یا معاشرے کو مزید کمزور کر کے سماجی فاصلوں کے نام پہ ایک دوسرے سے دور کرنے کے بعد سرمایہ داری اداروں کے طابع کرنا چاہتی ہیں۔
اب یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے مقتدر طبقے جتنے ہو سکے لاک ڈاؤن کو مسلط کرکے نظام زر کی قیادت کو اپنی وفاداری ثابت کر چکے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کرونا ختم نہیں ہوا ، بلکہ ہر روز کیسز میں اضافہ ہوا ، جوکہ ہونا ہی تھا، کیونکہ یہ کٹس تو بھیڑ ،بکری کو بھی کرونا مثبت کر چکی ہیں ،جبکہ وہ زندہ سلا مت ہیں۔ ہم آج بھی انفرادی طور پہ جینا چاہتے ہیں۔ ہمارے انفرادی گول ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس ملک کا نوجوان جب تک جہالت میں ڈوبا رہے گا، بہادری اور جرت کے ساتھ درست قومی سوچ نہیں رکھے گا، یہ ملک ایسے ہی رہے گا۔ جب تک ہم انفرادی اڑان بھرنے کی بجائے اجتماعی مقاصد کو حاصل کرنے کی سوچ نہیں رکھیں گے، ایسے ہی رہیں گے۔ اس وقت دھرتی کے لیے نئے عمرانی معاہدے کے لیے جدوجہد کرنے کا وقت ہے اور اگر نوجوان اس میں فیل ہو گیا تو زر کی غلامی ہی اس کا مقدر بنے گی۔
ریفرنسز
1. Patients, L., Taylor, D., Lindsay, A.C., Halcox, J.P.: Aerosol and Surface Stability of SARS-CoV-2 as Compared with SARS-CoV-1. The New England Journal of Medicine. 0 (2020).
2. Chin, A.W.H., Chu, J.T.S., Perera, M.R.A., Hui, K.P.Y., Yen, H.-L., Chan, M.C.W., Peiris, M., Poon, L.L.M.: Stability of SARS-CoV-2 in different environmental conditions. The Lancet Microbe. 1, e10 (2020).