قارئین !آج ہمارے گردوپیش اسلام کی سماجی حوالے سے ایسی تعبیر پیش کی جارہی ہے،جو امن،رواداری،برداشت اور انسان دوستی سے تہی دامن ہے۔یہ تعبیر شدت پسندی کی نمائندہ تعبیر ہے۔اسی طرح سے آج بعض نادان دوست عناصر نے اسلام کی معاشی تعلیمات کی تعبیرکوبھی سرمایہ دارانہ طرز فکر سے ہم آہنگ مان لیا ہے۔درج ذیل شذرہ مفکر احرار چوہدری افضل حق مرحوم کی ایک کتاب ’’اچھوت اور پاکستان ‘‘سے ماخوذ ہے جو انہوں نے انگریزی میں تصنیف کی تھی لیکن بعد ازاں عام عوام کے لیے اردو کے قالب میں ڈھالی گئی۔اس کو انگریزی میں لکھنے کا بنیادی مقصد بھی دراصل اس پڑھے لکھے طبقے کو مخاطب بنانا تھا جو مغربی تعلیم کے زیر اثر اسلام کے بارے میں مغربی پروپیگنڈے سے متاثرتھا اور وہ ہندوستان میں ہندو مسلم تنازعے کا سبب مذاہب اور بالخصوص مسلمانوں کی تنگ نظری کو قرار دیتا تھا چوہدری صاحب مرحوم نے اس کتاب میں یہ باور کرایا ہے کہ ہندوستانی عوام میں تضادات اوراختلافات کاذمہ دار اسلام کو قرار نہ دیا جائے اور کسی قوم کے ایک مخصوص طبقے کے فرقہ وارانہ کردار کو دین اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ نہ سمجھاجائے اس کا ذمہ دار وہ رویہ ہے جس کے تحت مذہب کو اپنے سیاسی اغراض کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ رویہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کا قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے۔آج پاکستان میں موجود دینی حلقوں کو اپنا کردارکی نوک پلک کو اس تحریر کے آئینہ میں سنوارنے اور درست کرنے کی ضرورت ہے۔
( چیف ایڈیٹر ،دارالشعورمیگزین)
اسلام امن ومحبت کا علمبردار ہے۔اگرچہ ہر مسلمان خدا کا سپاہی ہے۔ اس پر خدا کی اطاعت لازمی ہے۔ دنیا میں یہ غلط نظریہ پھیل چکا ہے کہ ایک سپاہی صلح کن اور امن کا خواہاں نہیں ہوسکتا۔ اسی غلط نظریہ کی بنا ء پر اسلام کو جنگجو مذہب سمجھا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اسلام اپنے پیروؤں پر ایمان واعتقاد کے مسائل کی پابندی کے سلسلہ میں کسی قسم کی نرمی کو روا نہیں رکھتا۔ لیکن غیر مسلموں کے لئے اس کا پیغام محبت اور رواداری کا ہے۔
مسلمان چونکہ اپنے مذہب کے بارے میں سخت ہے۔ اس لئے اسے غیر مسلم متعصب سمجھتے ہیں جونکتہ چین اسلام کی خوبیاں اجاگر کرنے کی بجائے اس میں کیڑے نکالتے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اسلام کو نہایت گھنائونی شکل میں پیش کیا ہے۔اسلام میں نسل ونسب کو کوئی امتیازحاصل نہیں۔ یہ غیر طبقاتی سماج قائم کرنا چاہتا ہے اس لئے اس کے اصول غریبوں اور مزدوروں کے مناسب حال ہیں۔ یہ ظلم واستبداد کی مخالفت کرتا ہے۔
قرآن میں آیا ہے:
’’مذہب میں کسی قسم کی سختی نہ کرو۔ سچائی جھوٹ سے متمیز ہے جو برائی کو چھوڑ کر خدا پریقین کرتا ہے۔ اس نے سب سے زیادہ قابل اعتبار گرفت پر قبضہ کرلیا ہے یہ گرفت کبھی ڈھیلی نہیں ہوتی۔ خدا ہر چیز سنتا اوردیکھتا ہے۔‘‘
ایک مسلمان دوسروں کو حلقہ بگوش اسلام ہونے کی دعوت تو دے سکتا ہے لیکن کسی کوبہ زور مسلمان بنانا تو درکنا رتبلیغ کے سلسلہ میں درشت الفاظ بھی استعمال نہیں کرسکتا۔
قرآن کہتا ہے:
’’سب کو اپنے رب کے راستہ کی طرف بلاؤ۔ عقل مندی اور نرمی کے ساتھ۔ ان سے بہترین انداز میں بڑی خوش خلقی کے ساتھ بحث کرو۔‘‘
مسلمان دوسرے مذاہب کے دیوی دیوتاؤں اور خدا کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتا۔’’ وہ جن کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ تم انہیں برا بھلا نہ کہو۔ کیونکہ وہ غصہ میں آکر کہیں اپنی لاعلمی اور جہالت کی بنا پر خدا کو کوسنا شروع نہ کردیں۔‘‘قرآن کے بعد مسلمان حدیث کو درجہ دیتے ہیں ۔
ایک حدیث میں آیا:
رسول کریم ﷺکے ایک صحابی حضر ت عبداللہ ؓ بن عمر نے ایک دفعہ ایک بکری ذبح کی۔ ایک یہودی ان کے ہمسایہ میں رہتا تھا۔ حضرت عبداللہ نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ آیا اس نے یہودی ہمسایہ کو گوشت بھیجا ہے یا نہیں۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ تو حضرت عبداللہ نے کہا ’’اسے فوراً کچھ گوشت بھیج دو کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺکو یہ کہتے سنا ہے کہ ان پر حضرت جبرائیلؑ نے ہمسایہ کے حقوق کے سلسلہ میں اتنا زور دیا ہے کہ بعض اوقات وہ یہ سمجھنا شروع کردیتے تھے کہ کہیں ہمسایہ وراثت میں بھی حصہ دار نہ ہوجائے۔‘‘
یہ یاد رہنا چاہیے کہ اسلام ہندو اورمسلمان ہمسایہ میں کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھتا۔اور سب کے ساتھ ایک سا سلوک کرتا ہے۔
ایک دوسرے صحابی حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
’’میں نے رسولؐ خدا کو یہ کہتے سنا ہے کہ جس شخص سے اس کے ہمسائے امن میں نہیں وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا‘‘۔
پیغمبراسلام ﷺ نے یہ بھی کہا ہے :
’’تم اس وقت تک مسلما ن نہیں ہوسکتے جب تک تم اپنے ہمسایہ سے محبت نہ کروگے‘‘۔
ایک اورحدیث بھی اسی مضمون کی ہے:
’’اگر تم خدا اوراس کے رسولؐ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہوتو اپنے ہمسایوں کی خدمت کرو۔‘‘
سینکڑوں حدیثیں اس قسم کی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسلام ہر مسلم اور غیر مسلم ہمسایہ کا بہت احترام کرتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں اختلاف مذاہب کو کچھ اہمیت نہیں دیتا۔
رسول پاک ﷺ کا واضح حکم موجود ہے:
’’اپنے غیر مسلم رشتہ دار کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤاور ضرورت کے وقت اس کی مدد کرو۔‘‘
ایک مسلمان ایک غیرمسلم اہل کتاب عورت سے شادی کرسکتا ہے اور اس عورت کو اپنی مذہبی اور معاشرتی رسوم پر کاربند ہونے کی اجازت ہے۔غیر جانبدار فضا میں انصاف مشکل نہیں ہے لیکن انسان کی انصاف پسندی کا اصلی امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اسے ان لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا ہوجو اس سے نفرت کرتے ہوں۔ ایک مسلمان کے لئے یہ لازمی ہے کہ بلند تراخلاقی قانون کی پابندی کرے۔
قرآن مجید میں لکھا ہے:
’’اے وہ جو ایمان لائے ہو اللہ کے راستہ پر استقلال کے ساتھ ڈٹ جائو۔ دوسروں کی نفرت تم سے ظلم اورناانصافی نہ کرائے۔ انصاف کرو۔ تقوی کے بعد اسی کا درجہ ہے۔ اللہ سے ڈرو کیونکہ وہ تمہارے ہر فعل سے واقف ہے۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہب کی پابندی نے نہیں، بلکہ مذہب سے غداری نے اس ملک کو دنیا میں دوزخ بنارکھا ہے۔ مذہب کے خلاف ہر قسم کی تحریک لایعنی ہے اورجتنی جلدی بند ہوجائے مفید ہے کیونکہ ہندومت اور اسلام دونوں ہی نفرت کی بجائے محبت کے پیغامبر ہیں ہمیں متحد ہوکر ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے جو مذہب کے نام پر غیر مذہبی فعل کرتے ہیں۔
(ماخوذ’’پاکستان اور چھوت‘‘مکتبہ اردو،لاہورطبع کا سن کتاب پر درج نہیں ہے)