• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
باچا خان کا تحریک شیخ الہند سے تعلق — تحریر: یاسر خان بنوںباچا خان کا تحریک شیخ الہند سے تعلق — تحریر: یاسر خان بنوںباچا خان کا تحریک شیخ الہند سے تعلق — تحریر: یاسر خان بنوںباچا خان کا تحریک شیخ الہند سے تعلق — تحریر: یاسر خان بنوں
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

باچا خان کا تحریک شیخ الہند سے تعلق — تحریر: یاسر خان بنوں

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • باچا خان کا تحریک شیخ الہند سے تعلق — تحریر: یاسر خان بنوں
فرقہ واریت اسباب ونتائج — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول
جنوری 12, 2017
اسلام امن و محبت کا علمبردار
جنوری 14, 2017
Show all

باچا خان کا تحریک شیخ الہند سے تعلق — تحریر: یاسر خان بنوں

 خان عبد الغفار خان المعروف باچا خان وہ عظیم شحصیت ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی آزادی کے لئے تقریباَ 35 سال جیل میں گزارے۔ باچاخان 1890 میں ھشنغر اتمان زئی میں بھرام خان کے گھرمیں پیدا ہو ئے۔ باچاخان ایک سلیم الفطرت انسان تھے وہ اس فکر میں تھے کہ وطن کی آزادی کیسے ممکن ہو؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم فکر اور ہم خیال لوگ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ایک دوسرے سے ضرور ملتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت نے ان کو جماعت شیخ الہند سے متعارف کرایا۔جس کے بارے میں وہ خود لکھتے ہے ۔
پشتونوں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے ۔اس لئے میں ( باچاخان) اور عبد العزیز نے سکول بنانے شروع کئے ۔اور مختلف علاقوں میں دورے کر کے پشتون قوم میں علم کی ضرورت اور احساس پیدا کرنے کی کوشش کی ۔پشتون ایک زندہ قوم ہے ۔اوراس میں قربانی کا ایک اعلی مادہ موجود ہے ۔جب سکول بنانے شروع کئے تو مختلف مولویوں نے فتوے لگائے کہ عبد الغفار خان قوم کو غلط راستہ دیکھا رہا ہے ۔ایسے حالات میں مولانا حاجی صاحب ترنگزئی اور فضل ربی صاحب نے ہماری تائید کی ۔ اس وجہ سے ہمیں خوشی ہوئی اور ہم تخریب سے بچ گئے ۔
حاجی صاحب اور اس کے ہم قدم ساتھیوں سے تعلق تو عرصے سے چلا آرہا تھا ۔ لیکن مدرسے بنانے کی تائید کر نے کی وجہ سے تعلقات اور بھی مضبوط ہوئے ۔ان رفقاء کی وجہ سے رفتہ رفتہ دارا لعلوم دیوبند سے تعلق پیدا ہوا ۔ جس کی وضاحت میں وہ خود رقمطراز ہیں۔
دار العلوم دیوبند کے پرنسپل شیخ الہند مولانا محمود حسن سے قریبی تعلق پیدا ہوا۔ شیخ الہند ایک نیک بزرگ ، پاک دامن اور خدا پرست عالم تھے ۔ شیخ الہند صرف ایک کتابی عالم نہ تھے بلکہ سراپا عمل تھے ۔ان کا بنیادی فکر ہندوستان کو فرنگی غلامی سے آزادی دلانا تھا ۔
اس کے بعد باچاخان لکھتے ہے ۔ جب بھی میں دار العلوم دیوبند جاتا ۔ پٹھان طالب علموں سے ملنے کے بہانے جاتا ۔ پٹھا ن طالب علموں میں مولانا عزیر گل بہت مشہور طالب علم تھے ۔ اس دوران جماعت شیخ الہند سے بھی تعلق پیدا ہوا ۔جس میں مشہور نام مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا محمد میاں صاحب تھے ۔ باچاخان کا قول ہے ۔ کہ سوسائٹی میں وہ افراد جن کا مقصد اور نصب العین ایک ہو ۔ان میں محبت اور بھائی چارہ ہوجاتاہے ۔
اپنی کتاب میں باچاخان لکھتے ہیں ۔ کہ دار العلوم دیوبند میں آزادی کے حصول کے لئے ہمارے زیادہ تر صلاح و مشورے بحث و مباحثے شیخ الہند اور مولانا عبید اللہ سندھی کے ساتھ ہوتے تھے۔اس دور میں فرنگی کا رعب ود بد بہ بہت زیادہ تھا ۔اس لئے جب کبھی ہم دارلعلوم دیوبند جاتے ۔تو سیدھا دار العلوم نہیں جاتے تھے بلکہ ایک سٹیشن آگے یا پیچھے ٹرین سے اتر جاتے ۔ اور دیوبند پید ل چلے جاتے ۔ تاکہ انگریز کو اس کی خبر نہ ہو ۔ یہ وہ وقت تھا جب مولانا عبید اللہ سندھی دہلی فتح پوری مسجد میں بی اے پاس طالب علموں کو قران کا درس د یا کرتے تھے ۔اور 50 روپے وظیفہ بھی دیا کرتے تھے ۔
ایک جگہ باچاخان لکھتے ہے ۔ کہ مولانا عبیداللہ سندھی وہ واحد عالم دین تھے ۔ کہ اس د ور میں آپ جیسا قران شناسی کا فہم کسی اور کو نصیب نہ تھا ۔مولانا سندھی صاحب کی خواہش تھی ۔ کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں حریت فکر اور آزادی کا جذ بہ پیدا ہو جائے ۔ جماعت شیخ الہند سے تعلق کے بارے میں مولانا حسین احمد مدنی (نقش حیات )میں لکھتے ہے ۔ خان بادشاہ عبد الغفار خان صاحب موصوف اتمان زئی پشاور کے مشہور قومی خادم اور کارکن ہیں ۔
ابتداء میں ان کا تعلق شیخ الہند سے پیدا ہوا خد مت میں حاضر ہوئے کہا جاتا ہے کہ بیعت بھی ہوئے انھوں نے اپنے سیاسی تعلقات کو بڑے مجمع میں دار العلوم میں تقریر کرتے ہوئے ذکر فرمایا ۔ کہ میں بارہا حضرت شیخ الہند کی خدمت میں آیا ہوں ملاقات کا وقت اور جگہ کی اطلاع کسی شخص کے ذریعے کر د یتا تھا اور دیوبند سے پہلے یا بعد کے سٹیشن میں اترجاتا تھا ۔
اور وہاں مجتمع ہو کر باتیں کر لیتے تھے ۔ پھر اپنے اپنے مقصد کے لئے مناسب گاڑیوں پر راونہ ہو جاتے تھے ۔ سی آئی ڈی کو کوئی اطلاع نہ ہوتی تھی ۔ٹکٹ آگے کے ہوتے تھے ۔اس طرح بارہا ہوا  کہ خان صاحب بہت بڑے بڑے کام انجام دیتے تھے جن کے انجام دینے کی کا رروائیاں اس قد ر اخفا کی محتاج ہوتی تھی ۔
اس سارے مضمون کا خلاصہ یہ ہے ۔ کہ باچاخان کی عد م تشد د کی سوچ اور فکر کا اصل منبع دار العلوم دیوبند اور جماعت شیخ الہند تھی ۔ حضرت مولانا محمود حسن کی تعلیمات کے باعث  ان کے سینے میں آزادی کی جو آگ دھک رہی تھی اس کے اثرات اور عکس ہمیں باچاخان کی زندگی اور طرز عمل میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے  کہ آپ نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔
مناظر: 254
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ