افرادِ معاشرہ میں اعلیٰ اسلامی اقدار کیسے پروان چڑھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔؟ یہ سوال ہمارے ہاں اکثر فورمز پہ اٹھایا جاتا ہے،اس سوال کے جواب اور اس مسئلے کے حل کیلئے علمائے کرام کا طبقہ بھی فکر مند دکھائی دیتا ہے۔روزبروز، بگڑتی صورتِ حال ہر مکتبہ فکر کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ لوگ اس پر پریشان ہیں تو حیران بھی ہیں۔معصوم خواہشات کا تقاضا ہے کہ یہ سب کچھ راتوں رات درست ہو جائے ،سالہا سال کا بویا ہوا بیج اب تناور درخت بن چکا ہے اوراب ہم اس کے سائے سے بھاگ رہے ہیں۔مذہبی طبقے کے دو رویے اس درخت کی آبیاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جب امریکہ، روس،بھارت اور مغرب کے خلاف مظاہرہ اور جلوس نکالنا ہو تو اپنے ساتھ تمام فرقوں اور اُن کے راہنمائوں کو’’حلقہ بگوش اسلام‘‘قرار دینا اور ’’ہم سب مسلمان ہیں‘‘کا نعرہ وجدانہ لگادینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مل جل کر تحریک نفاذ اسلام کیلئے اجلاس منعقد کرنا ، مشترکہ اعلامیہ جاری کرنا، سیکولر قوتوں کو للکارنا، فرقوں کی باہمی لڑائی کو اغیار کی سازش قرار دینااور آئیندہ اکٹھے چلنے کا عہد کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی دوران ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھنے سے ممکنہ حد تک احتراز کرنا اس کے علاوہ اپنے اپنے حلقوں میں اتحاد کو وقت کی مجبوری یا سیاسی مجبوری قراردینا۔
ایک خاص طبقہ ہر فرقہ میں موجود ہے جو فتوئوں کی توپ کا رخ مسلسل دوسرے فرقے کی طرف کئے رکھتا اور تکفیر و تضلیل کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہے۔ہر مسلک میں،مزید متشدد طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنے ہی مسلک کے علمائے کرام پر فتوے لگانے سے باز نہیں آتا۔اپنے ہی مسلک کے مدارس کے نام کو بگاڑتا اورہجو کے انداز میں علماء و طلباء پہ تنقید کرتا دکھائی دیتا ہے۔کئی احباب میرے پاس تشریف لاتے اور ایسے عناصر کی نشاندھی کرتے ہیں، میں ان سے گز۱رش کرتا ہوں کہ آپ اس صورت حال پہ حیران و پریشان کیوںہیں یہ سب کچھ وہ ہے جس پہ ہم نے سالہا سال محنت کی ہے۔مخالف فرقے کے علمائے کرام کی کتب کچھ سیکھنے کیلئے نہیں پڑھی جاتیںبلکہ اس لئے پڑھی جاتی ہیں کہ اس پہ کیسے فتویٰ لگایا جائے، کیسے بحث و مناظرہ کے دروازے کھولے جائیں،کیسے ایک دوسرے کو چیلنج کیا جائے اور ایک دوسرے کی عزت اتاری جائے،جہاںہٹ دھرمی،ضد اور تعصب کا ماحول پیدا کر دیا جائے تو وہاں افہام و تفہیم کاماحول کیسے پیدا ہو گا۔بازارمیں،ایسی کتب بکثرت دستیاب ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے،صاحب کتاب نے ،مقابل عالم دین کی تکفیرو تضلیل کیلئے کتنی محنت کی ہے۔حالانکہ وہ یہی محنت کسی اہم موضوع پر بھی کر سکتے تھے جس سے انسانیت کا بھلا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ ایسا کیوں کرتے، ان کی تعلیم و تربیت جس ماحول میں ہوئی، ان کی صلاحتیں جس خاص ماحول میں پروان چڑھیں ،نتیجتاً انہوں نے یہی کچھ تو کرنا تھا۔مدارس میںجب اساتذہ کرام ایک خاص مسلک کی کتب پڑھائیں گے اور اُسی خاص سوچ پر تربیت کریں گے تو نتیجہ یہی ہوگا۔ مسلک ہمیشہ اختلاف کی بنیاد پر وجود میں آتا اوروقت کے ساتھ اختلاف اس مسلک کی شناخت بن جاتا ہے ،جو جس مسلک سے وابستہ ہوگا اُسے اختلافی مسائل کے علاوہ کچھ نہیں بتایا جائے گا، اس لئے فراغت کے بعد ،طالب علم انہی مسائل ہی کو دین سمجھے گا۔۔۔۔ تحقیق و تفتیش کے جو’’گُر‘‘ اس نے سیکھیں ہوں گے، اسی نہج پہ وہ مزید تحقیق کا کام آگے بڑھائے گا کیونکہ دورانِ طالب علمی ،سوچ و فکر کا زاویہ متعین ہو جاتا ہے۔
میں نے مندرجہ بالا جو کچھ تحریر کیا ہے، یہ سب ہمارے باہمی انتشار کی بنیادی وجہ ہے۔ہم مسلمان سالہا سال سے اسی فکر ی جہت کو پروان چڑھاتے آرہے ہیں۔اگر آپ نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو یہ مظاہرے انٹرنیٹ پہ بآسانی مہیا ہیں۔ہمارے مسالک کے نمائندے مختلف علمی مسائل پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔کس طرح ایک دوسرے کی ڈاڑھی نوچتے ، گالی گلوچ کرتے، گریبان پھاڑتے اور پھر نعرے بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔آپ یہ سب کچھ دیکھ کر حیران نہ ہوں ۔۔۔۔یہ سالہا سال کی محنت ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔یہ وہی رویے ہیں جب ہم اپنے معاشرے میں ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے ہیں اور وہ بھی اسلام کے نام پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب ہم باہر ہوتے ہیں تو پھر بھی اپنی لڑائی کو حق و باطل کا عظیم معرکہ قرار دے کر باہم دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر ملک سے باہر کا Exposure حاصل ہوتا ہے تو پھر شیطان بزرگ،امریکہ، بھارت اور مغرب کے خلاف تقریریں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کہیں یہ جذبہ ایمانی بن جاتا ہے اور کہیں جذبہ مسلکی اور کہیں جذبہ نسلی و زبانی ہو جاتا ہے۔یہ ہماری کرشمہ سازی ہے ہم کس وقت اپنے جذبے کو کونسا نام دیتے ہیں ۔
ہم بحیثیت قوم اپنی تربیت و تعلیم کا اہتمام ایسے ماحول میں کررہے ہیں جس میں ہمیں مقابل و مخالف سے مذاکرات نہیں مناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ اپنے مخالف کے بارے میں پہلے سے ہی طے کر لو کہ وہ ’’ایسا ایسا‘‘ہے۔ایسی کوشش ہرگز نہ کرو کہ اپنے مقابل سے بیٹھ کر بات کر لو،جبکہ بہت سی نفرتیں ملنے سے ختم ہو جاتی ہیں ہمیں تربیت دی جاتی ہے کہ ہزاروں میں بیٹھے اغیار کی سازش کا رونا روتے رہو لیکن اپنے رویّوں کا جائزہ نہ لینا کہ ہم خود کتنے’’پاک صاف‘‘ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔جذباتی تقریریں۔۔۔۔۔۔۔۔فتوے اور مناظرے ہمیشہ Communication Gap کو بڑھاتے ہیں ، انہیں کم نہیں کرتے۔ہمارے باہمی معاملات ہوں یا باہر کی دنیا سے تعلقات ، میرے نزدیک کمیونیکیشن گیپ کا سبب یہی اندازِ فکر ہے۔