کراچی میں عمران خان نے ایک زبردست خطاب کیا۔عمران خان سے متعلق اکثریت کا خیال ہے کہ انہیں سیاست نہیں آتی لیکن میراذاتی خیال ہے کہ اِنہیں صرف سیاست ہی نہیں بلکہ پاکستانی سیاست آچکی ہے ۔اسکی بے شمار مثالیں بطور دلیل میں مہیا کر سکتا ہوں۔مثلا عمران خان نے پہلی بار کراچی میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیاتو انہوں نے ایم کیو ایم سے کسی قسم کی مخالفت مول نہیں لی ۔اپنی تقریر میں الطاف حسین ایم کیوایم اور رابطہ کمیٹی کو دوستی اور سلامتی کا پیغام دیا جس کا انہیں یہ فائدہ ہوا کہ اُن کا کراچی میں جلسہ بخیروعافیت انجام پایا۔جبکہ 6ستمبرکے جلسہ میں انہوں نے الطاف حسین کی کلاس لیتے ہوئے کہا”الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف زبان استعمال کی اس لیے مجھے کراچی آناپڑا افسوس کہ الطاف حسین نے سب سے زیادہ مہاجر قتل کرائے ،مجھے ہندوستان ٹائمز کے صحافیوں نے بتایاکہ بھارت میں الطاف حسین کو آنے کی دعوت ”را“ نے دی تھی”وغیرہ وغیرہ“عمران خان کو الطاف حسین کے کرتوتوں کے خلاف بولنابھی چاہیے تھایہی قومی اور محب الوطن راہنماکی ذمہ داری بھی ہے۔
حسب معمول عمران خان نواز شریف کے خلاف گرجے اور فرمایا ” ہمارے وزیراعظم روزانہ جھوٹ بولتے ہیں ،ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ بھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو وزیراعظم کا ”درباری “ قرار دیا،یہ بھی فرمایاوزیراعظم کا ایک بیٹا لندن میں چھ ارب کے گھر میں رہتاہے“انہوں نے کہا” نواز شریف شاہ ایران ،صدام حسین ،کرنل معمر قذافی سوہارتو اور حسنی مبارک سے زیادہ مضبوط نہیں ہوسکتے ۔انہوں نے نواز شریف کو الطاف حسین سے زیادہ غدار وطن قرار دیتے ہوئے کہا”نواز شریف پر الطاف حسین سے بڑا چارج لگاہے“ یعنی ان کا اشارہ ان الزامات کی طرف تھا جو قبلہ طاہر القادری صاحب نے لگائے تھے۔ ان الزامات کے بعد قادری صاحب انگلینڈ سدھار گئے ہیں تاکہ وہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کو ”عالمی سطح“پہ اجاگر کریں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے آصف زرداری ،فریال تالپور ،خورشید شاہ اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کے خلاف کچھ نہیں کہاجو لوگ کہتے ہیں عمران خان پاکستانی سیاست نہیں جانتااُن کے لیے یہی ایک مثال کافی ہے اگر عمران خان زرداری اور پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ میں بولتے تو وفاق میں ان کی حمایت سے محرورم ہوسکتے تھے یا کم از کم نیم رضامندی کا مینڈیٹ چھن سکتاتھا اوراپوزیشن تقسیم ہوسکتی تھی ۔عمران خان نے سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں تقریر کرتے ہوئے سندھ کی حکومت کو مخاطب کرکے ایک لفظ بھی نہیں بولا ۔سوچیئے ! اگر وہ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور میں تقریر کررہے ہوتے ،کیاوہ حکومت کو معاف کرتے ؟کبھی معاف نہ کرتے انہوں نے مسلم لیگ کو اس وقت بھی معاف نہ کیا جب کہ وہ صرف پنجاب میں حکمران تھی۔
عمران خان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ اُنہیں معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی ”مریل گھوڑا“ہے اسے وہ اتناگنداکر چکے ہیں یا وہ اپنے اعمال سے اتناگنداہوچکی ہے اب اسکے خلاف بولناضیاع وقت کے مترادف ہے ۔اگر سیاسی میدان میں ان کا کو ئی حریف ہے تو وہ نواز شریف ہے ۔اب نواز شریف کو عوام کی نگاہوں میں اتناگندا کر دو کہ عوام ہرالزام کو سچ ماننے لگ جائے جیسے کہتے ہیں ۔اتنا جھوٹ بولوکہ سچ لگے ۔ عوام کی محبت اور عقیدت کا یہ عالم ہوتاہے کہ وہ اپنے لیڈر کی بات کو ایک سوایک فیصدحق اور سچ مانتی ہے ۔اس کے لیے ثبوت اور دلیل فقط اپنے لیڈر کی زبان ہوتی ہے۔عمران خان کی سیاست میںپاکستانی سیاست کے وہی روایتی جھلک ہے جس کے ذریعے پاکستانی سیاستدان اپنے مخالف کو روند کربلکہ اقدار و اخلاق کو کچل کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے رہے ہیں ۔ عمران خان کے بارے میں ویسے بھی مشہور ہے کہ یہ بدعنوان نہیں ہیں یقینا وہ مالی بدعنوانی نہیں ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے ”انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں پہ یقین کرلے “۔
عمران خان کی سیاست کی ایک مثال طاہرالقادری صاحب سے اشتراک بھی ہے ۔یہ اشتراک بھی نواز شریف کی سیاست کا عکس ہے ،نوے کی دھائی میں اسلامی جمہوری اتحاد وجود میں آیا۔ نواز شریف صاحب نے اقتدار تک پہنچنے کے لیے جماعت اسلامی ،جمعیت علمائے پاکستان کی سیاسی قوت کو پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال کیا۔آج اپنے اقتدار کے لیے نواز شریف مولانا فضل الرحمان کو کبھی کبھی یاد کرلیتے ہیں اور مولانا فضل الرحمن بھی دوستی کا حق ادا کرتے ہیں جیسے وہ زرداری صاحب کے ساتھ بھی نبھاتے رہے ۔آج اسی طرح عمران خان نے نواز شریف صاحب پہ دبا وبڑھانے کے لیے قادری صاحب کو ساتھ ملایاہے ۔طاہر القادری صاحب گزشتہ ادوار کے مذہبی راہنماسے زیادہ باصلاحیت ان کی جماعت زیادہ منظم اور سرگرم ہے لیکن عوامی حمایت سے محرومی ان کی تمام خوبیوں کو منفی کردیتی ہے اس لیے وہ عمران خان کے لیے ایک مہرے یا ایک ریس کے گھوڑے کے سوا کچھ نہیں ہیں جسے وہ وقت بوقت استعمال کرتے رہیں گے۔
عمران خان کی” سیاسی پختگی “کی اعلیٰ مثال جہانگیر ترین اور عبد العلیم خان کے حق میں ان کی خاموشی حمایت ہے کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں پاکستانی سیاست میں رہنے اور اقتدار تک پہنچنے کیلئے سرمائے کی بہت ضرورت ہے بلکہ سرمایہ ہے جو فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک انصاف کے ورکرز اور نوجوان ان دو شخصیات کے خلاف ہیں احتجاج اور مظاہروں کے باوجود عمران خان انہیں کسی طرح تحریک انصاف سے علیحدہ نہیں کر سکتے ،ورنہ خوابوں کا حسین محل چکنا چور ہو سکتا ہے۔