آصف علی زرداری کی پاکستان آمد کے بعد پیپلزپارٹی کے اندر خوشی سے زیادہ خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری جب سے متحرک ہوئے اور انہوں نے پنجاب میں تنظیم نو کے لیے جو اقدامات اٹھائے اور اس دوران انہوں نے اپنے اردگرد پارٹی کے نظریات کے حوالے سے جانے گئے لوگوں کو اکٹھا کیا اور اپنے بیانات وتقریروں میں پارٹی کی نظریاتی اور فکری اساس کے نقصانات کو قبول اور اس کے ازالے کے لیے اقدامات اٹھانے کا آغاز کیا تو پارٹی کے اندر ہی نہیں بلکہ عوام میں بھی ایک خوش گوار احساس اجاگر ہوا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اپنی نظریاتی، فکری اور مقبولیت کے خطرناک حد تک محروم ہوجانے پر پریشانی بھی ہے اور اس طرف دوبارہ سفر کا آغاز بھی کردیا ہے۔ بلاول بھٹو نے پارٹی کے اندر تنظیم سازی اور بیانات اور عمل سے مثبت اقدامات کاآغاز کردیا تھا۔ گزشتہ ماہ میں دیگر صحافیوں کے ہمراہ جب اُن سے ملا تو میں نے اُن سے یہی سوال کیا کہ آپ پاور چاہتے ہیں کہ پارٹی تو انہوں نے فوراً جواب دیا کہ پارٹی۔ میرا بھی یہی کہنا تھا کہ اگر آپ صرف پاور چاہتے ہیں تو 2018ء کے انتخابات کے بعد آپ کو اس میں شیئر مل جائے گا اور اگر آپ پارٹی چاہتے ہیں تو پارٹی کی تنظیمی، نظریاتی، فکری اور عوامی بنیادوں پر تشکیل نو کرنے پر آپ کوپاور بھی ملے گی اور ممکن ہے کہ آپ آئندہ زیادہ طاقتور حکومت بنا سکیں اور اقتدار میں آکر اپنی پارٹی کے منشور پر عوامی حقوق کے لیے عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اس حوالے سے بڑے Clear تھے۔لیکن جب سے آصف علی زرداری کی پاکستان آمد ہوئی ہے ، پارٹی سے زیادہ پالیٹکس بلکہ پاور پالیٹکس کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
فیصل صالح حیات اور جناب خالد کھرل پارٹی کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت کے دوران ابھر کر سامنے آئے، خصوصاً خالد کھرل صاحب قابل احترام شخص ہیں۔ لیکن دونوں کا سیاسی تعارف کبھی نظریہ نہیں رہا۔ البتہ اپنے انتخابی نتائج کے پس منظر میں ان کی اہمیت زیادہ ہے۔ لہٰذا یہ تصور کرلینا کہ ان دونوں رہنمائوں کی واپسی سے پارٹی کی نظریاتی اساس اور مقبولیت بحال ہوجائے گی، یہ خام خیالی ہے۔ یقینا ان دونوں رہنمائوں کی آمد سے اُن کے متعلقہ حلقوں میں پارٹی بہتر نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے، پنجاب بھر میں نہیں اور نہ ہی یہ دونوں رہنما پنجاب کی سیاست کو پی پی پی کے حوالے سے متحرک کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں اور نہ ہی تجربہ۔ پی پی پی کی پنجاب میں نظریاتی اور فکری مقبولیت کی بحالی پارٹی کے نظریات اور عوامی جدوجہد سے عبارت ہے۔ وگرنہ کھیل صرف اور صرف پاور پالیٹکس کا ہے جس میں آصف علی زرداری سیاسی شطرنج کھیل کر انتخابی نتائج کو بہتر کرکے اپنے ذاتی اقتدار کا راستہ ہموار کرسکتے ہیں اور اس کے لیے وہ کسی سے بھی سیاسی اتحاد کرسکتے ہیں۔ اگر وہ مسلم لیگ (ق) سے سیاسی اتحاد کرکے پچھلی حکومت میں داد لے سکتے ہیں تو آئندہ جماعت اسلامی کے ساتھ اقتدار کے لیے مفاہمت کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ لیکن ایسے عمل سے نہ پارٹی مضبوط ہوگی اور نہ ہی عوامی سیاست۔ پاکستان کی انتخابی سیاست کے ذریعے کئی ایسے لوگ بھی حکومت کی معراج تک پہنچنے میں کامیاب رہے جن کی سیاسی مقبولیت پی پی پی کے رہنمائوں (بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو) جیسی نہ تھی، جیسے محمد خان جونیجو، غلام اسحاق خان، ظفراللہ جمالی، شوکت ترین اور غلام مصطفی جتوئی سمیت چند دیگر رہنما۔ لیکن کیا پی پی پی کی جدوجہد کا حتمی حاصل وزارتِ عظمیٰ یا ایوانِ صدر ہے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر ایسے میں یہ یقین کرلینا کہ جناب آصف علی زرداری کی سیاسی شطرنج اُن کو اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ داخل کر دے گی، غلط نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اقتدار یا اقتدار میں شرکت داری عوام کے لیے ہوگی کہ ذات کے لیے اور اپنے اردگرد چند احباب کے لیے؟
پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے یہ آئیڈیل وقت ہے کہ وہ اپنی تنظیم نو، فکری، نظریاتی اور عوامی بنیادوں پر کرے اور آئندہ انتخابات میں اچھے نتائج حاصل کرکے اچھی حکومت بنائے جس کے ثمرات ملک، قوم، اور خصوصاً درمیانے اور پسے ہوئے طبقات تک پہنچیں۔ وگرنہ یہ سارا عمل ایک سراب ہے اور جذباتیت سے لوگوں کا جذباتی استحصال ہے۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو سے محترمہ بے نظیر بھٹو تک اور دیگر سینکڑوں پارٹی کارکنان ایسے اقتدار کے لیے قربان ہوئے جس کے بعد نااہل اور بدعنوان وزیراعظم اُن کا اور ملک کا مقدر بنیں اور اپاہج حکومت قائم کرکے خوشی کے اعلانات کیے جائیں کہ ’’ہم نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرلی‘‘۔ اس کامیابی سے عوام کو کیا ملا۔ یہی وہ سوال ہے جو پی پی پی کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے، اگر پانچ سال مدت پوری کرنے سے عوامی حقوق کی بحالی کی ندیاں جاری ہوگئیں ہوں تو شاباش۔ اور اگر نہیں تو پھر کیا حقیقت ہے ایسی مدت کی تکمیل کی۔ اور چلیں یہ نہیں تو ہم اس پر بھی اطمینان کرلیں کہ پانچ سال کی حکومتی مدت پوری ہونے سے جمہوریت مضبوط ہوئی تو بھی، مگر عملاً خاندانی موروثیت مضبوط ہوئی۔ ایک خاندان سے اقتدار دوسرے خاندان کو منتقل۔ انتقالِ اقتدار۔ جمہوریت سے جمہوریت تک نہیں بلکہ خاندان سے خاندان تک ہوا۔ اس سارے عمل میں جمہور تو مزید محدود کر دئیے گئے اُن کے حقوق کے حوالے سے اور جمہوریت Institutional حوالے سے طاقتور نہیں ہوئی۔ جمہوریت کی مضبوطی کے حوالے سے پاکستان میں یہ کہنا کہ ’’جمہوریت کا تسلسل جاری رہنا چاہیے‘‘ ، ایک ڈھکوسلا ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ایسے سیاسی، سماجی، معاشی، ثقافتی اور عوامی اقتدار کے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے جمہور مضبوط ہو۔ لوگوں کے معاشی حقوق، صوبوں اور تحصیل تک لوگوں کی اپنی حکومتیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اقتدار موروثی خاندانوں تک مزید مرتکز ہوگیا ہے۔ اقتدار خاندانوں میں مزید جڑیں پکڑ گیا ہے۔ ان سارے حالات کا تجزیہ کرکے پی پی پی فیصلہ کن عوامی سیاسی اقدامات کرتی ہے تو پی پی پی وہ نتائج حاصل کرسکتی ہے جو 1970ء کے انتخابات کے ذریعے حاصل ہوئے۔ اپنے کارکنان کو متحرک، ووٹرز کو اپنی طرف مائل اور اپنے سیاسی نظریے کو سربلند کیے بغیر کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اور آج کی صورتِ حال پی پی پی کے لیے آئیڈیل ہے۔ ایک موقع ہے جسے وہ عوامی اقتدار کی مضبوطی کے لیے حاصل کرے یا اقتدار میں شراکت داری کے ذریعے ’’سب پر بھاری‘‘ کے فلسفے پر چلتے ہوئے شخصی سیاسی واقتداری مفادات ، اس کا انحصار پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر ہے۔ خصوصاً آصف علی زرداری اور جناب بلاول بھٹو زرداری پر کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔