پاکستان پیپلزپارٹی قائم ہوئی تو دو سال ہی بعد پاکستان میں انتخابات ہوگئے۔ پی پی پی نے مغربی پاکستان سے اکثریت حاصل کرلی اور اس میں کامیابی کا بنیادی مرکز پنجاب تھا۔ پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید اور دیگر پارٹی لیڈرز انتخابات میں بیس سیٹوں کے قریب امید لگائے بیٹھے تھے۔لیکن عوام کا فیصلہ پی پی پی کی توقعات سے بہت آگے نکل چکا تھا۔ شہرشہر، گائوں گائوں، پی پی پی کے افتادگانِ خاک نے محلات میں رہنے والوں کا صفایا کردیا۔ جنرل موسیٰ خان نے کہا، ’’بھٹو کے ساتھ تانگے، رکشے والے ہیں۔‘‘ پیر پگاڑا اور ایسے بڑے بڑے گدی نشین جاگیردار، جن کے ہاں ووٹرز قدم بوسی کرنا فخر سمجھتے تھے، انہی ووٹرز نے اِن سیاسی روایات کا دھڑن تختہ کردیا۔ ہر حلقے سے غریب جیتا، امیر ہار گیا۔ اسی بنیاد پر اخبار کی سرخی لگی، ’’بھٹو چھا گیا۔‘‘ عوام نے بیلٹ باکس میں ووٹ کے ذریعے انقلاب برپا کردیا۔ اس لیے کہ پی پی پی جس سیاسی منشور کو لے کر آئی، وہ انقلابی منشور تھا۔ لوگوں نے انقلاب کو ووٹ دیا تھا۔ پارٹی نے جنوبی ایشیا کی بڑی بڑی مارکسٹ جماعتوں سے بھی کہیں زیادہ سوشلسٹ منشور پیش کیا تھا۔ ایک آمرانہ ریاست اور رجعت پسند سماج میں یہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا پُرامن جمہوری انقلاب تھا۔ عوام نے اپنی پارٹی کو ووٹ دے کر کہا، ’’لیں اب آپ کے ہاں فیصلہ ہوگا!‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کے تمام ساتھی عمر کی تیسری دہائی کے خوب صورت، جوشیلے اور نظریاتی نوجوان تھے۔ خود ذوالفقار علی بھٹو کی عمر صرف اکتالیس سال تھی۔ یہ تھا انقلاب جو نوجوانوں نے پیدا کیا تھا، اس انقلاب کے پیچھے 1966-67ء کی عوامی تحریک تھی جس میں طلبا ہراول دستے کے طور پر شامل ہوئے۔ پنجاب کے دانشوروں نے اس تحریک کی آبیاری کی اور ذوالفقار علی بھٹو نے قیادت۔ اسی عوامی تحریک 1966-67ء کے بطن سے پاکستان پیپلزپارٹی نے جنم لیا۔ اسے کہتے ہیں، جوانوں کا انقلاب۔
انقلاب ہمیشہ شعور اور نظریے سے مل کر پرورش پاتا ہے۔ آج کی طرح شور شرابا برپا کرنے والوں کو جوانوں کو اس انقلاب کو پڑھنا چاہیے۔ عوام نے بھٹو کو انقلاب برپا کرکے دے دیا۔ جمہوری عوامی انقلاب۔ اور اسی بنیاد پر پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ اس سارے انقلاب اور مقبولیت کا مرکز پنجاب تھا۔ بھٹو کا عوامی سیاسی جنم پنجاب میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے جو ذوالفقار علی بھٹو تھا، وہ سرشاہنواز کے خاندان میں جنم لینے کے سبب حکومتوں میں شامل رہا۔ 1966-67ء نے اس ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا جسے آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ پہلے بھٹو کو خود بھٹو نے 1966-67ء میں انقلابی منشور اور پی پی پی قائم کرکے تحلیل کردیا تھا۔ اس بھٹو کو لوگوں نے قائدعوام کہا۔ پنجاب کے دل لاہور میں جنم لیا اس ذوالفقار علی بھٹو نے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی ساری بنیادی طاقت اس پنجاب سے اٹھی۔ کوئی اب اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ 1977ء تک یہی طاقت تھی جس پر ذوالفقار علی بھٹو نازاں تھے۔ 1977ء کے انتخابات میں بھی اسی پنجاب نے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی طاقت برقرار رکھی۔ 1977ء کے بعد 1985ء تک سیاست نے کروٹیں نہیں لیں بلکہ سیاسی قتل عام ہوا۔ حالات بدلے نہیں بلکہ حالات کا دھڑن تختہ کردیا گیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں آمریت نے اپنے چوزوں کو انتخابی میدان میں چھوڑا۔
اس دوران گیارہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ایم آر ڈی (Movement of Restoration of Democracy) جو جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف جدوجہد کررہی تھی، اس نے فیصلہ کیا کہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس اتحاد میں سب سے بڑی انتخابی جماعت پی پی پی ہی تھی۔ اس بائیکاٹ نے پی پی پی کی انتخابی سیاست کی چولیں ہلا دیں۔ 1988ء میں جب پی پی پی نے عام انتخابات میں حصہ لیا تو زمانہ ہی نہیں، ملک ہی بدل چکا تھا۔ سیاست کے رسم ورواج اور سماج کے طور طریقے، طویل آمریت اور 1985ء کے انتخابات نے انتخابات کے نئے انداز طے کردئیے تھے۔ پی پی پی ان انتخابات میں اتری اور بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے الیکشن بھی لڑا۔ لیکن اہم بات، گو پارٹی طویل اور بے مثال جدوجہد کے بعد عوام کے سامنے انتخابات میں آئی، لیکن پی پی پی نے 1986ء سے اپنا تشخص بھی بدلنا شروع کردیا تھا۔ اپنی انفرادیت چھوڑ کر، اپنے آپ کو اپنے مقابل جیسا بنانے کا آغاز کردیا تھا۔دوسروں کی پچ پر کھیلنے کا انداز۔ جن لوگوں کے خلاف پارٹی بنائی گئی اور جن لوگوں کے خلاف گیارہ سال تک اس پارٹی نے جدوجہد کی، انہی لوگوں کو پارٹی قیادت کا حق دار بنانے کا آغاز بے چینی سے ہوچکا تھا اور نظریاتی Deviationکا آغاز۔ اس نے اُس انقلاب کر رد کرنا شروع کردیا جو 1966-67ء کی عوامی تحریک اور بعد میں 1970ء کے انتخابات میں عوام نے برپا کیا تھا۔ اور جس کا عنوان پارٹی نے منشور کے ذریعے لکھا تھا، یہیں سے اس ’’سفر‘‘ کا آغاز ہوا تھا جس سفر میں آج یہ پارٹی چھکاچھک دوڑ رہی ہے۔ جی ہاں، مفاہمت کا آغاز 1986ء سے ہوا تھا۔ ایک نئی پارٹی، 1967ء میں قائم ہونے والی پارٹی سے مختلف۔ 1988ء کے انتخابات میں پارٹی پنجاب میں سکڑتی نظر آئی۔ اور پھر پنجاب میں سکڑتی ہی گئی۔ 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء، 2006ء،2008ء کے تمام انتخابات اسی ’’سیاسی مفاہمت‘‘ کے تحت ہوئے۔ اپنے نظریات سے مفاہمت۔ 2008ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیں۔ انہوں نے 1986ء کے بعد پارٹی کو جس انداز میں چلایا، وہ پارٹی ان کے شوہر جناب آصف علی زرداری کو ملی۔ 2008ء تک جو لوگ اس پارٹی کے کرتا دھرتا تھے، اُن کی آبیاری محترمہ بے نظیر بھٹو ہی نے کی۔ وہ خود شہید ہوگئیں اور اقتدار پارٹی کو مل گیا۔ یہ اقتدار محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارٹی کو ملا تھا۔ اور یہ پارٹی جس نے 2008ء میں حکومت بنائی، یہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بنائی۔ اس کی قیادت میں اُن کے والد کا شاید ہی کوئی ساتھی شامل تھا۔ مفاہمت کی پارٹی۔ 1986ء میں لاہور میں اپنی آمد کے بعد انہوں نے اس سیاست کا آغاز کیا۔ اس میں مفاہمت اور نظریاتی Rejection شامل تھی۔ اس پارٹی نے یوسف رضا گیلانی اور ان جیسوں کو اس پارٹی کا رہبر بنایا۔افسوس، وہ اس ’’سیاسی سفر‘‘ میں قتل کردی گئیں۔ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ قتل ہوگئیں۔ اُن کے والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کسی سڑک پر یکدم قتل نہیں ہوئے تھے، جیل میں مسلسل مقدمے کے بعد سولی پر چڑھائے گئے۔ انہوں نے مفاہمت کی بجائے جدوجہد اور سر نہ جھکانے کا فیصلہ کیا۔ خود سولی پر جھول گئے اور لوگوں کو پارٹی اور بے نظیر بھٹو دے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے جانثار کارکنوں نے ایک نہتی لڑکی کو ایک مرد معاشرے میں لیڈر ہی نہیں، وزیراعظم بنا دیا۔ ان کارکنوں نے پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا معجزہ کردکھایا جس میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کامیابی حاصل نہ کرسکیں، وہاں ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کو انہی جانثاروں نے قیادت اور حکمرانی کے ایوانوں تک پہنچا دیا۔
اور آج۔۔۔ آج پارٹی کہاں کھڑی ہے، خصوصاً پنجاب میں۔ اس کا اندازہ NA120 کے حتمی انتخاب سے لگایا جا سکتا ہے۔ پنجاب اور لاہور میں لاکھوں ووٹ لینے والی پارٹی جیت نہیں، بلکہ اچھے یعنی دس پندرہ ہزار ووٹ لے کر اپنی ساکھ کی بحالی کا خواب دیکھ رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری، بہت دعائیں آپ کے لیے۔ لیکن دعائوں کے ساتھ اہم بات ہے پارٹی کی نظریاتی مراجعت۔ پارٹی کو جب تک آپ اپنے نانا کے اصولوں اور نظریات پر استوار نہیں کریں گے، آپ حکومتیں تو بنا لیں گے لیکن عوام کی تقدیر بدلنے میں بے بس ہی رہیں گے۔ آپ کی پارٹی عوام کی قسمت بدلنے کے تب ہی قابل ہوگی، جب پارٹی عوام کے طے کیے ہوئے نظریاتی منشوراور انہی لوگوں کے ہاتھوں نہ دے دی جائے جن کے لیے یہ پارٹی بنی تھی۔