ایسے رہنما مستقل مزاج، نڈر اور مختلف آراء کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں. اس طرح جو سیاسی میدان کے رہنما تیار ہوتے ہیں وہ قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں. اس طرح کے مستقل عمل کے نتیجے میں عام عوام کی تربیت بھی ہوتی جاتی ہےاور وہ بھی قومی ترقی میں اپنا کردار بے فکر ہو کر ادا کرتے ہیں. اس تربیتی عمل سے پیدا ہونے والے سیاسی رہنما اپنا کردار، مذہبی اور قومی فریضہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں. اور اس میں کوتاہی کو گناہ سمجھتے ہیں.
جب بھی سیاسی کارکن یا رہنما تیار کیے جاتے ہیں ان میں تعداد نسبتاً کم اور معیار کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے.
پاکستان میں موجود قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کا موازنہ کرنا بھی ضروری ہے.
پاکستان میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سیاسی تربیت کا نظام کسی بھی جماعت میں سرے سے موجود ہی نہیں. کارکن اور رہنما کی تفریق حتمی ہے. کوئی بھی کارکن اس تفریق کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا. جو رہنما ہیں ان کے لیے سیاسی شخصیت کی اولاد ہونا ، امیر ہونا، جاگیر دار ہونا، صنعت کار ہونا یا کسی بھی وجہ سے مشہور ہونا بنیادی معیار ہے. اس کے نتیجے میں جب یہ لیڈرز قومی سطح کی سیاست کرتے ہیں تو اس کا ذاتی یا گروہی مفاد اولین ترجیح ہوتا ہے. کیونکہ یہ لوگ کسی بھی تربیتی مرحلے سے نہیں گزرے ہوتےآسانی سے استعمال بھی ہوجاتے ہیں.
ہم اس عمومی معیار پر اپنے راہنماؤں کو جانچ سکتے ہیں، مثلاً ن لیگ کو لیجیے، نواز شریف شریف صاحب آخری کوشش تک پارٹی کے صدر رہے اور سب سے بڑا عہدے “وزیراعظم” سے بھی ہر بار لطف اندوز ہوتے رہے، لیکن جس دن ان پر تھوڑا سا سخت وقت آیا اس کا سامنا کرنے کی بجائے اپنے خاندان کے پاس آبائی شہر لندن روانہ ہو گئے. انہوں نے ہر بار اپنے بھائی کو اعلی عہدے پر چنا، بیٹی کو غریبوں کے لئے بنائی گئی سکیم کا مالک بنایا، بھتیجے کو ایم این اے بنایا،سمدھی کو وزیر خزانہ بنایا، اور بھی کافی رشتہ داروں کو عوامی خدمت کا اعزاز بخشا. یعنی کہ جو بھی گھر کا فرد سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے اسے کوئی نہ کوئی عہدہ ضرور ملا. کچھ لوگوں کے مطابق نواز شریف صاحب کو اپنی کابینہ کے سب وزیروں کے نام تک معلوم نہیں تھے. سب ایم این اے اور ایم پی ایز کو ذاتی طور پر جاننا اور ان کی صلاحیت کا ادراک کر کے ان کو استعمال کرنا تو بہت دور کی بات ہے. کارکن کی تربیت نہاری اور بریانی کھانے سے آگے نہ بڑھ سکی. اس جماعت کے کم و بیش تیس سال کے اقتدار کے نتائج یمارے سامنے ہیں.
دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہے.جس کابھٹو چار دہائیوں سے زندہ ہے. لیکن باقی بھٹوز اللہ کو پیارے ہو چکے اور پارٹی بھٹو خاندان سے زرداری خاندان کو شفٹ ہو چکی، ایک نئی ایجاد بھی سامنے آئی ہے کہ سیاسی ضرورت کے تحت ایک زرداری خاندان کا سپوت بھٹو بھی بن سکتا ہے. پیپلزپارٹی میں باقی وڈیرے، جاگیردار اور پیر صاحبان ہیں. سب کے سب پیدائشی سیاست دان ہیں. اس جماعت کے نظریات سوشلسٹ ہیں لیکن عملی طور پرن لیگ کے ہم پلہ ہیں.
تیسری بڑی جماعت تحریک انصاف ابھری ہے. جو انقلاب کے نعرے کے ساتھ میدان میں آئی. اس کے بانی کا سیاسی پس منظر نہیں تھا لیکن اپنی شہرت کی بنیاد پر سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی. اس جماعت کے بنیادی اہداف میں جاگیردار اور وڈیرہ مافیا سے نجات حاصل کرنا تھا. سترہ سال تک کافی محنت کے باوجود چند لوگ ہی ان کے ساتھ شامل ہوئے لیکن جونہی انہیں کسی نے بتایا ایسے انقلاب نہیں آنا، اسی مافیا گروپ کو ساتھ ملائیں اورایک باراقتدارمیں آ کر سب کو کھڈے لائن لگائیں. انقلاب کے نام پر جتنی زیادہ نوجوان نسل ان کے ساتھ شامل ہوئی تھی، اس مافیا کے شامل ہونے سے اب تذبذب کا شکار نظر آنے لگی ہے. اس کی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ جن کے خلاف انقلاب لانا تھا وہی سٹیج پر بیٹھے ہوتے ہیں. اکثریت روایتی جماعتوں سے شامل ہوئی ہے. اب چونکہ یہاں بھی تربیت نہ ہونے کے برابر رہی اور لوگوں کو صرف تعداد اور اپنا اثر دکھانے کے لیے شامل کیا تھا تو پھر یہاں بھی سیاسی مہاجرین نے اپنی اصلیت خوب دکھائی. ایک طرف “باغی” نے بغاوت کی تو دوسری طرف ایک جسٹس (ر) صاحب انصاف کا تقاضا کر بیٹھے. اور آج کل ایک خاتون اپنی سیاسی اور اخلاقی تربیت کا اظہار بخوبی کر رہی ہیں. جسے یہ بھی اندازہ نہیں کہ پارٹی ڈسپلن کی کیا اہمیت ہے، ایک بار پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شریک ہوئیں اوراپنی ایم این اے کی سیٹ اپنے پاس ہی رکھی پھر کسی نے انہیں بتایا کہ بی بی جس پارٹی میں آپ آنا چاہ رہی ہیں اس نے بھی آپ کو صرف استعمال کیا ہے تو وہ اب سوشل میڈیا پر پھر اپنے آپ کو تحریک انصاف کا رکن بتا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ پارٹی چیئرمین اور پارٹی کی ضمنی الیکشن مہم کی مخالفت بھی کر رہی ہیں. یعنی کچھ پتہ نہیں کہ کیا کرنا ہے. ماضی میں یہ خاتون بھی پیپلز پارٹی سے ہجرت کر کے انصاف کی داعی بنی تھی.
چوتھی جماعت شائد متحدہ قومی موومنٹ ہو سکتی تھی، اس نے اپنے نظم وضبط سے باقی پارٹیوں کو کافی حیران کیا تھا لیکن شخصیت پرستی نے اس کو تباہی کے دھانے پہنچا کر ہی دم لیا.
پانچویں یا چوتھے درجے پر ہی ق لیگ تھی، اس میں بھی وڈیرے زیادہ تعداد میں تھے اور چونکہ اس کی پیدائش بھی سیاسی مہاجرین کے ذریعے سے ہوئی تھی اس لیے اکثریت اپنی آبائی پارٹیوں میں واپس ہو گئی یا پھر نئے سیاسی مہاجر کیمپ کا رخ کر بیٹھیں.
چھٹے نمبر پر جماعت اسلامی آتی ہے، جماعت اسلامی کی خوبی یہ رہی ہے کہ ہمیشہ امریکہ کے فائدے کے لیے انتہائی کامیابی سے امریکہ خلاف کامیاب جلسہ اور ریلی نکالتی ہے. اس کے بنیادی فلسفہ میں صرف یہی “اسلامی” ہیں. انہیں ہمیشہ اقتدار کا” جھولا” کسی اور کے کندھے کی بدولت نصیب ہوا. گرم پانی کی حفاظت اور مسلمان ملک افغانستان کی تعمیر وترقی میں بھی اعلی کردار ادا کیا. ان کے ہاں کچھ نظریاتی تربیت کا انتظام موجود ہے. لیکن اپنے عمل سے ہمیشہ مفاد پرستی کا شکار رہی.
ساتویں بڑی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) ہوسکتی ہے لیکن یہ قومی سطح پر اپنا اثر پیدا نہ کر سکی، خیبر پختون خواہ اور کراچی میں اپنا وجود بمشکل قائم رکھ سکی. اس جماعت کی بنیادوں میں تو عظیم باچا خان کا نظریہ ہے لیکن ولی خان کے بعد یہ صرف برائے نام ہی نظریاتی جماعت رہ سکی اور مفاد پرستی کی طرف مائل ہوئی اور اپنے آپ کو کو بے اثر کر لیا. اس جماعت نے بھی نظریہ تو بنایا لیکن اس پر جماعت سازی نہ کی.
ویسے تو پاکستان میں کوئی دو سو سے اوپرجماعتیں رجسٹرڈ ہیں، ان کی اکثریت یک شخصی جماعتیں ہیں.اس سارے تجزیے سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ حقیقی معنوں میں قوم میں تبدیلی لانے کے لیے تربیت اور عملی تجربہ کا ایک لمبا سفر طے کیے بغیر نتائج کی امید رکھنا بے ایک خواب ہی ہے.