لاہور کے ضمنی انتخاب میں سیاست کے جو رنگ دِکھ رہے ہیں، اس سے ہم اپنی سیاست، جمہوریت، سماج، سیاسی نظام، سیاسی ثقافت اور اپنے مستقبل کا آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ موروثیت، دولت، دھونس، شخصیت پرستی، الزام تراشی، الزامات، سکینڈلز، دعوے، ہڑبونگ، ذات برادری، فرقہ پرستی، ووٹوں کی خریدو فروخت کے مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اگر ہم اس عمل سے جمہوریت کا خواب دیکھتے ہیں تو پھر اللہ ہی مالک ہے۔ ہمارے ہاں جب جمہوریت کا خواب ذہن میں اترتا ہے تو فوراً مغرب ، یورپ اور جدید جمہوری ممالک ذہن میں آتے ہیں کہ وہاں سیاسی نظام جمہوری اور سماج ترقی یافتہ ہیں اور ہم بھی ووٹ اور انتخابات کا عمل جاری رکھ کر جلد یا بدیر اسی طرح کامیاب ریاست اور کامیاب سماج بن جائیں گے۔ یہ ایک بڑی سطحی اپروچ ہے۔ مغرب کی ترقی کا آغاز کلیسا کی سیاست سے مکمل علیحدگی سے ہوا۔ کلیسا کے معجزوں کی جگہ سائنس، منطق اور دلیل نے لے لی۔ یہیں سے دوسرے کا حق اور سماجی انصاف کے تصور نے تقویت پکڑی۔ یورپ میں کلیسا کی فتویٰ گیری کی شکست کے بعد سائنس نے اُن کو دنیا میں معتبر بھی کردیا اور دنیا کے وسائل تک رسائی بھی دے دی۔ سائنسی ایجادات نے چھوٹے چھوٹے ممالک کو بڑی آبادیوں اور بڑی تاریخ رکھنے والی پسماندہ اقوام کے وسائل پر قبضوں کے مواقع بھی فراہم کر دئیے۔ انہوں نے ایک طرف اپنے معاشروں کو انصاف اور سیاسی نظام کو کلیسا سے آزادی لے کر فیصلے ایک پادری کے ہاتھ سے نکال کر سب کے ہاتھ میں دے دئیے۔ معجزوں کے تصورات کو مسترد کرکے تخلیق وتحقیق کا عمل اپنایا۔ اس کے بطن سے وہاں جمہوریت قائم ہوئی اور بعد میں اُن کی ترقی نے اُن کو کلونیل طاقتوں میں بدل دیا۔
ہمارا جمہوری سفر کیا ہے؟ اس حوالے سے متعدد بار میں اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں، ہماری جمہوری تاریخ کی ابتدا برطانوی سامراج کے بطن سے ہوئی ہے۔ یہ جمہوریت کلونیل جمہوریت ہے۔ انہوں نے اپنے ہاں جو جمہوریت قائم کی اور جو یہاں قائم کی، ان دونوں کی ہیت ہی مختلف ہے۔ لارڈ کرزن نے برصغیر میں جو سیاسی ڈھانچا دیا، آج تک ہم اُسی پر قائم ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے بڑے بڑے علمبرداروں نے شاید ہی برصغیر کی کلونیل جمہوریت کی تاریخ پڑھی ہو۔ برصغیر کی تمام ریاستیں 1947ء کی آزادی کے بعد ابھی تک اسی سیاسی ڈھانچے اور اسی ریاستی ڈھانچے پر چل رہی ہیں جو برطانوی سامراج نے قائم کیے، بھارت کی ریاست سمیت، اسی لیے ووٹ کے مسلسل حق کے باوجود بھارتی جمہوریت، بھارتی سماج اور ریاست کو جمہوری بنانے میں ناکام رہی ہے۔ بھارتی ریاست ایک Gang Land Democracy ہے۔ وہاں آج بھی طاقت کا سارا مرکز بیوروکریسی ہے اور اسی کے ساتھ وہاں کے سیکیورٹی ادارے، دنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا سراب بھارت ہی ہے۔ اسی طرح، پاکستان اور بنگلہ دیش میں قائم ہونے والی جمہوریتوں کی حقیقتیں ہیں۔ ہمارے ہاں فوجی آمریتوں نے یقینا اس جمہوری عمل کو روکا جو یہاں کچھ مرتبہ قائم ہوا۔ لیکن اگر ہم غور سے دیکھیں تو ہمارے ہاں قائم جمہوریتوں نے سماج حتیٰ کہ سیاسی جماعتوںکو Democratize کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی، ہماری تمام سیاسی جماعتیں جدید جمہوری سیاسی جماعتوں کے ڈھانچوں کی یکسر نفی ہیں۔ بغیر یونیفارم کے قیادت کرنے والی قیادت کو ہم ’’سول لیڈرشپ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک خودفریبی ہے۔ برصغیر کی تمام ریاستیں 1935ء کے کلونیل ریاستی ڈھانچے میں پنپ رہی ہیں۔ یہ کبھی بھی اس جمہوریت کو جنم نہیں دے سکتیں جس جمہوریت نے یورپ میں جنم لیا۔ ہم نے ایسی ہی سول لیڈرشپ کو جنم دیا جو فوجی وردی کی بجائے سول کپڑوں میں ملبوس نظر آتی ہیں۔ جیسے 1979ء کے نام نہاد افغان ’’جہاد‘‘ میں پاکستان اور افغانستان میں سول کپڑوں میں ٹخنوں سے اوپر شلواریں پہننے والے جنگ لڑنے والے پیدا کیے۔ اصل طاقت پھر بھی وردی میں ملبوس سپاہیوں کے پاس ہی رہی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی کلونیل ریاستی ڈھانچے کو کیسے توڑا جائے؟ جی! یہ سوال بہت اہم ہے۔ راقم اس نتیجے پر اُس وقت پہنچا جب خود ایکٹوسٹ تھا۔ ہم اُن لوگوں میں سرفہرست تھے جو اپنی ہی سیاسی جماعت کو Democratize کرنے کے درپے تھے۔ اسی لیے تکلیف دہ اور زخم خوردہ Intra Party Struggle کی، ناکام ہوئے۔ مجھے یہ باتیں کرنے کا موقع ملا اپنے چند اہم سیاسی رہنمائوں سے جن میں عمران خان، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری شامل ہیں۔ شہباز شریف اُن دنوں پنجاب میں گورنر راج لگنے کے سبب کچھ عرصے کے لیے خادمِ اعلیٰ کی اعلیٰ پوزیشن پر نہیں تھے۔ یہ ایک طویل ملاقات تھی اورپھر وہ مسلسل رابطے میں رہے۔ انہیں جب یہ بات عرض کی کہ اگر آپ اس ملک کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں تو اپنی جماعت کو جدید جمہوری تقاضوں پر منظم کریں۔ اس سے جہاں جمہوریت منظم، مضبوط اور مستقل ہوگی، وہیں ملک میں کسی عسکری آمریت کا امکان بھی ختم ہوجائے گا۔ وہ اس پر چونکے اور فرمائش کی کہ مدد کریں اور اس حوالے سے طے بھی ہوا کہ کیسے پارٹی کو منظم کیا جائے۔ لیکن ایک بات عرض کی کہ پھر آپ یہ توقع نہ رکھیں کہ پارٹی قیادت ہمیشہ آپ اور آپ کے اہل خانہ تک محدود رہے گی۔ پھر یہ جماعت جمہوری ہوگی، جمہور کی ہوگی۔ ملاقات کے بعد بھی رابطے رہے، لیکن جب اُن کو میری بات پوری طرح سمجھ آگئی تو رابطے ٹوٹ گئے۔
قبلہ عمران خان سے زیادہ قربت رہی ہے، لہٰذا انہیں میں یہ بات 1997ء سے کہہ رہا ہوں ۔ لیکن وہ سیاست کے ٹارزن ہیں۔ وہ نرگسیت کی انتہا پر ہیں۔ وہ اکیلے ہی مسیحائی کا حق لے کر چل رہے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک ایسی باتیں سننا بھی اہم نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری جوان ہیں، امنگیں ہیں، اس لیے انہوں نے اس تصور کو غور سے سنا اور میں نے انہیں دنیا میں ایسی جماعتوں کی مثالیں بھی دیں جنہوں نے اپنے آپ کو بدلا اور پھر ملک وسماج کو بدل دیا۔ انہوں نے بہت دلچسپی لی لیکن مجھے علم ہے کہ ’’سیاسی مجبوریاں‘‘، ’’خاندانی تقاضے‘‘ اور ’’طبقاتی مفادات‘‘ آڑے آجاتے ہیں ایسے معاملات کی طرف بڑھتے ہوئے۔ اس ساری بحث میں ملک کا ایک بڑا طبقہ 2002ء کے بعد یہ تصور لے کر بھی آگے بڑھا کہ اب الیکٹرانک میڈیا آزاد ہوگیا، اب حقوق، جمہوریت اور انصاف مضبوط ہوگا۔ پھر وکلا تحریک کے بعد بھی اسی تصور کے ساتھ لوگوں نے عدلیہ سے امیدیں لگا لیں۔ بس اب انصاف ہی انصاف۔
اب آپ 2017ء میں پچھلے پندرہ سالوں کے سیاسی سفر کے بعد کہاں کھڑے ہیں، آپ خود آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کتنی جمہوریت مضبوط ہوئی اور کتنی عوام۔ لگتا ہے کہ ہم سرابوں سے کھیلنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہر دس سال کے بعد ایک نیا خوب صورت سراب۔ اگر سرابوں سے کھیلنا چھوڑ دیں اور تپتے صحرا میں خود پانی تلاش کرکے کنواں کھود کر سرزمین کو نخلستان میں بدل دیں تو تب بات بنے گی۔ اب تو ہماری سیاست اوپری طبقات کے سکینڈلز، شادیوں، نکاحوں، طلاقوں کے گرد گھومتی ہے۔ شادیوں کی ناکامیاں اور قصے کہانیوں پر ہمارا قومی میڈیا جس طرح عوام کو مصروف رکھے ہوئے ہے، اسے افیون نہ کہیں تو اور کیا ہے۔ آخری بات، پاکستان اس وقت ایک نئے ریاستی ڈھانچے کا تقاضا کررہا ہے۔ عوامی، جمہوری اور فلاحی سیاستی ڈھانچا، ذات پات، موروثیت سے پاک، پوپائیت سے آزاد فکر، منطق، سائنس اور شعور کی بنیاد پر۔