ہر انتخاب کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام جمہوریت سے مایوس نہیں ہوئے یہ الگ بات ہے کہ امیدوار خواہ جیتا ہوا ہو یا ہارا ہوا الیکشن کے بعد حلقے میں خال خال ہی نظر آتا ہے کیونکہ وہ واپس اپنے حلقہ خاص میں چلا جاتا ہے جہاں فلاں ابن فلاں اور فلاں بنت فلاں زندہ باد کے نعرے لگانے والے جذباتی جمہور نہیں ہوتے۔لاہور میں این اے120 کا ضمنی انتخاب ہوا اورمجموعی طور پر پرامن ہوا۔امن وامان کی ذمہ داری پولیس ،رینجرز اور فوج کی تھی جسے قائم رکھنے میں یہ ادارے کافی حد تک کامیاب ہوئے لیکن الیکشن کمیشن کا کردار ایک بار پھر سوالیہ نشان بن گیا ۔کسی بھی امیدوار کے لئے 15 لاکھ روپے سے زیادہ رقم انتخابی مہم پر خرچ کرنے پر پابندی تھی لیکن اس کی کتنی پابندی کرائی گئی سب کے سامنے ہے،صحافیوں کو شکایت رہی کہ انہیں الیکشن کمیشن نے الیکشن آبزور کے کارڈ جاری کئے لیکن بعض پولنگ اسٹیشن پر انہیں اندر جانے نہیں دیا گیا ۔فلیکس اور بل بورڈز کی برسات ہو یا وزیروں اور مشیروں کی بھرمار یا پھر پولنگ ایجنسٹس کی تعیناتی کا معاملہ سب جگہ بدنظمی بدانتظامی دیکھی گئی ۔پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے جہاں 29 ہزار ووٹرز کی تصدیق کا شور مچایا وہیں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے پولنگ کے ختم ہونے سے دو گھنٹے پہلے یہ اچھوتا انکشاف کردیا کہ اتوار تو چھٹی کا دن ہے لاہوری لیٹ اٹھتے ہیں اور لیٹ ناشتہ کرتے ہیں لہذا پولنگ کا وقت شام 5 بجے سے بڑھایا جائے جسے لازمی تھا تحریک انصاف والوں نے بچگانہ مطالبہ قراردےکر مسترد کردیا۔ دوسری جانب نوازشریف نے لندن میں یہ کہہ کر اپنی ہی حکومتوں پر اعتراض کردیا کہ الیکشن سے پہلے ن لیگ کے کچھ بندے غائب ہوئے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ بلدیاتی حکومت ان کی، پنجاب حکومت ان کی، وفاقی حکومت ان کی اگر اس کے باوجود آپ کے بندے غائب ہوئے ہیں تو ایف آئی آر کیوں نہیں کٹوائی ۔ میاں صاحب پتہ کر لیں کہیں یہ دوسرے حلقوں سے غائب کروا کر آپ کے بابوؤں نے این اے 120 تو نہیں ڈال دئیے تھے ووٹ ڈالنے کے لئے؟ کیونکہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب میں بھی یہ شکایت عام تھی کہ حلقے کے عوام نے پولنگ کے دن وہ اجنبی چہرے دیکھے جن کا سمن آباد کے حلقے سےکوئی تعلق ہی نہیں تھا۔
نوازشریف کی تاحیات نااہلی کی وجہ سے خالی ہونے والی یہ نشست ان کی اہلیہ کلثوم نواز 61745 ہزار ووٹ لے کر جیت گئی ہیں جبکہ ان کی مدمقابل تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد نے 47099 ہزار ووٹ لئے۔ پیپلز پارٹی ایک بار پھر بری طرح ناکام ہوئی اور ان کے امیدوار فیصل میرصرف 1414 ووٹ لے کر پانچویں نمبر پر آئے جبکہ ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھے۔ ضمانت تو جماعت اسلامی کے ضیا الدین انصاری بھی 592ووٹ لے کر ضبط کروا بیٹھے اور چھٹے نمبر پر رہے لیکن فیصل میر کی یہ بھی بدقسمتی رہی کہ لاہور میں ہوتے ہوئے بھی آصف زرداری نے اپنے امیدوار کے حق میں جلسہ کیا نہ ریلی نکالی۔زرداری صاحب ہار ماننے والے تو نہیں لیکن عمر اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے لگتا ہے کہ انہوں نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ لاہور ن لیگ کا لاڑکانہ ہے ۔
تحریک انصاف کی انتخابی مہم اچھی تھی۔عمران خان نے اپنی امیدوار کے لئے مزنگ چونگی میں جلسہ کیا اور مال روڈ سے داتا دربار تک ریلی بھی نکالی۔ڈاکٹر صاحبہ کے حق میں پارٹی رہنما بھی کافی متحرک رہے خود یاسمین راشد صاحبہ ضعیف العمری کے باوجود گھر گھر گئیں اور ووٹرزکو قائل کرتی نظر آئیں لیکن 11 مئی 2013 کے انتخاب سے تقابل کریں تو اس کی نسبت اس بار ہارنے اور جیتنے والے امیدوار میں ووٹوں کا فرق کم ہے جو پی ٹی آئی والوں کے لئے تو خوش کن ہے لیکن یہ بات ن لیگ کے لئے یقیناً پریشان کن ہوگی یہاں ایک بات کپتان کی پارٹی کےلئے بھی ضروری ہےکہ وہ بخوشی ہار تسلیم کرلے اور غلطیوں سے سیکھ کر آگے کی طرف دیکھے کیونکہ ن اور جنون کا بڑا مقابلہ عام انتخابات میں ہونا ہے ، تب تک ووٹرز مزید باشعور ہو چکا ہوگا اوروہ ہمدردی اور پارٹی وابستگی کے بجائے 5سال کی کارکردگی دیکھے گا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن نے عوام کے لئے کیا کیا۔
اب اگر فاتح امیدوار کلثوم نواز کی طرف آئیں تو ان کی گود میں تو یہ نشست پکے ہوئے پھل کی طرح گری ہے۔کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے ساتھ ہی وہ لندن چلی گئی تھیں جہاں ان کے حلق کے سرطان کی تشخیص ہوئی اور ان کی عدم موجودگی میں غائبانہ انتخابی مہم مریم نواز چلاتی رہیں انہوں نے یہ مہم کیسی چلائی گزشتہ بلاگ میں اس پر سیر حاصل لکھ چکا ہوں۔ کلثوم صاحبہ کی جیت کے بعد ان کی واپسی کب ہوتی ہے اس کااعلان تو لندن میں موجود نوازشریف صاحب ہی کریں گے کیونکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ شائد کلثوم نواز کو مزید علاج کے لئے امریکا لے جایا جائے تاہم اس کا امکان کم ہے البتہ مریم نواز کی جلد لندن جانے کی خبریں ہیں ۔
نوازشریف فیملی کے لئے اب دو چیزیں خاصی اہم ہیں ایک یہ کہ احتساب عدالتوں کا سامنا کیا جائے یا نہیں ۔کیو نکہ پہلے تو ان کی طرف سے یہ قانونی جواز پیش کیا جاتا تھا کہ جب تک پاناما نظر ثانی کی درخواستوں کا فیصلہ نہیں آتا شریف فیملی نیب کورٹس میں پیش نہیں ہوگی ۔سپریم کورٹ نے 15 ستمبر کو یعنی بائے الیکشن سے دو روز پہلے اس کا فیصلہ کرلیا اور تمام گیارہ درخواستیں خارج کردیں دوسرے معنوں میں 62 ون ایف کے تحت نوازشریف کی تاحیات نااہلی پر مہر ثبت لگ گئی لیکن جیسا کہ ن لیگ کی مریم ِمین یعنی مریم نوازصاحبہ اور وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب صاحبہ( جن کی 17 ستمبر کی رات مریم نواز کے قدموں میں بیٹھی ہوئی تصویر وائرلیس ہوئی ہے) کہہ چکی ہیں کہ شریف خاندان احتساب عدالتوں میں پیش نہیں ہو گا اس کا مطلب ہے کہ عدالتوں سے محاذ آرائی شریف فیملی جاری رکھنا چاہتی ہے اس کے لئے وہ خواہ پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر وہ اپنی مرضی کر سکتے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں کیونکہ پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی وہ تین نوٹسز کے باوجود نیب کی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
دوسرا معاملہ جو کلثوم نواز کی کامیابی کے بعد سامنے آئے گا وہ یہ کہ سابق خاتون اول جو اب منتخب عوامی نمائندہ ہیں اپنے شوہر کی ہمراہ پاکستان آتی ہیں (چودھری شجاعت حسین کے بقول وہ بارہ سال سے نوازشریف کو جانتے ہیں یہ لوگ اب پاکستان نہیں آئیں گے) اور ایم این اے کا حلف اٹھاتی ہیں تو ایم این اے ہاسٹل یا پارلیمنٹ لاجز میں تو نہیں رہیں گی نہ نوازشریف یہ چاہیں گے کہ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم ہاؤس میں ہوں اور وہ عام سے گھر میں ۔یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم عباسی جو ابھی تک نوازشریف کا دم بھرتے ہیں وہ وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہ رہے کہ 45 سے 50 دنوں بعد ان کی جگہ شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کا منصوبہ تھا لیکن پارٹی ہائی جیک کرنے کے لئے چودھری نثار علی خان اور شہبازشریف صاحب کے درمیان حد سے زیادہ ہم آہنگی کو دیکھ کر بڑے میاں صاحب کا ماتھا ٹھنکا اورانہوں نے این اے 120 کا ٹکٹ اپنے بھائی کو دینے کے بجائے بیوی کو دے دیا۔ اب ایک تصویر یہ بھی بنتی نظرآ رہی ہے کہ کلثوم نواز کی حلف برادری کے بعد انہیں وزیراعظم بنادیا جائے بھلے اس کے لئے نوازشریف کو چند مہینوں کے لئے مرد اول بن کر ہی کیوں نہ گزارا کرنا پڑے تاہم اس سے ایک اعزاز یہ بھی پاکستان کو حاصل ہو جائے گا کہ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ایک ایسا سیاسی جوڑا بھی تھا جو دونوں وزیراعظم رہ چکے ہیں۔
کلثوم نواز اگر وزیر اعظم بنتی ہیں تو ن لیگ کو پھر ایک اندھی طاقت مل جائے گی اور وہ پارلیمنٹ میں اپنی مرضی کی قانون سازی اور اپنی مرضی کی ترمیم بھی کر سکےگی اور وہ بھی راتوں رات۔ذرا تصور کریں کہ گزشتہ چند روز سے قومی اسمبلی میں جو باربار کورم ٹوٹ رہا ہے کلثوم نواز کے قائد ایوان بننے سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا حکومتی ارکان اب حاضری لگانے ایوان میں نہیں آئیں گے بلکہ درخواستیں تھا میں باری باری کلثوم نواز کے پاس آئیں گے کہ ایک نظر التفات اس پر بھی بیگم صاحبہ !
شہزاداقبال18 سال سے صحافت میں ہیں ان دنوں ایک نیوز چینل میں بطور پروڈیوسرکام کر رہے ہیں۔ ان سے ای میل
پررابطہ کیا جا سکتا ہے
مناظر: 87