حکمت ربوبیت کی وجہ سے انسانی تربیت کے اندر معلم کا ہونا انتہائی ضروری ہے جو انسان کو قانون الہی اورحکمت سکھائے تاکہ انسان کی تربیت مکمل ہو اور وہ بغیر کسی غلطی کے اپنی جسمانی اور روحانی ترقی کے مراحل طے کرسکے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے انبیاء کو مبعوث کیا جنہوں نے انسانیت کی روحانی اور مادی ضرویات کی تکمیل کے لیے ان کی تربیت و رہنمائی کی۔پھر انہی انسانوں میں سے انبیاء کی تربیت کے نتیجے میں ایسے افراد تیار ہو ئے جو کہ عقل نقل اور کشف کے جامع ہوتے ہیں ۔شریعت(فقہی قانون) ،طریقت (جماعتی تربیت)اور سیاست (عملی اجتماعی نظام)کے ماہر ہوتے ہیں۔یہ انسانوں کی جماعت انبیاء کی وارث ہوئی اور بلاواسطہ یا بالواسطہ انبیاء کے شاگرد ہوئے۔اس نوع کے فرد کو عالم ربانی کہا جاتا ہے۔
ولی اللہی فلاسفی کے اندر یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ تمام امور میں اصل حکمت ہوتی ہے اور اس کی عملی شکل،حالات اور مزاج سے متاثر ہوتی ہے۔حکمت constant ہوتی ہے جب کہ practically اس میں تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔اسی اصول کے تحت عالم ربانی کی ابدی ،سرمدی اور غیر متبدل خصوصیت یہ ہے کہ وہ شریعت ،طریقت اور سیاست نبویہ کا جامع ہوتا ہے تاہم ان امور کو روح عصر کے تناظر میں سر انجام دیتا ہے۔اپنے زمانے کے رنگ میں ان اصولوں کو پیش کرتا ہے۔علم و ٖفکر کے اس کے دور میں جو ڈھانچے ہوں ان پراپنی تحقیقات کو بٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔اس کی تمام تحقیقات مشیدبالکتاب والسنۃ کے مسلک پرہو تی ہیں۔وہ دین اسلام کے تمام شعبہ جات میں تجدیدی اور انقلابی کردار ادا کرتا ہے۔اپنے زمانے کا پیش رو ہوتا ہے۔
ان باتوں کو اگر فی زمانہ بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ علمائے ربانیین شریعت میں متبحر ہوتے ہیں۔کائنات کے تمام شعبوں کو مربوط انداز میں سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔قرآنی تعلیمات کا افہام و تفہیم ان کا اہم ترین شغل ہوتا ہے۔وہ قرآن کی کلامی اور منطقی مباحث میںنہیں پڑتے۔قرآنی تعلیمات کو اس انداز میں بیان کرتے ہیںکہ جس کاعملی زندگی کے ساتھ گہراتعلق ہوتا ہے۔ان کی بیان کردہ قرآنی تشریحات ہر طرح کے سیاسی، عمرانی ،معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل کا احاطہ کیے ہوتیں ہیں۔ان کی گفتگو ہر قسم کے شبہات اور تضادات سے پاک ہوتی ہے ۔ان کی تشریحات اور توضیحات کے درمیا ن ربط اور وہ تمام قسم کے اوھام کو رفع کرتیں ہیں۔حکمت دین اور فلسفہ اسلام کو بیان کرتے ہیں۔ان کی مجلس میں قرآنی حقائق و معارف اور حکمت وشعور کا ہر وقت فیضان ہوتا ہے۔
علمائے ربانیین کی تعلیمات سے متقدمین کے درمیان موجود اختلافات حقیقی نہیں رہتے بلکہ وہ ایک ہی سلسلے کی کڑی ہوتے ہیںاور ان کی تعلیمات کے نتیجے میںوہ تمام اختلافات، اختلاف العلماء رحمۃ کا حقیقی مصداق معلوم ہوتے ہیں۔ وہ حق و باطل کی پہچان کے معیارات واضح کرتے ہیں۔انسانی سوسائٹی میںموجود نفوس قدسیہ و اہل افراد ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیںان کی صحبت سے خدا پرستی اور انسان دوستی کی فکر کو جلا ملتی ہے۔
وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نظام کو جاری کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔جاہلوں ،تنگ نظروں اور متشدد عقل پرستوں سے دور رہتے ہیں ۔سرمایہ پرستی ان سے کوسوں دور بھاگتی ہے۔ان کے افکار سرمایہ شکن ہوتے ہیں۔وہ فقراء و مساکین کا ملجاء و ماوی ہوتے ہیں۔اخلاقیات کے حقیقی شعورکو اجاگر کرنا ان کا مشن ہوتا ہے۔
علمائے ربانیین کی جماعت کا ہر فرد اپنے سے پہلے سلسلے کے افراد کافکری تسلسل کے ساتھ حقیقی جانشین ہوتاہے۔اپنے اسلاف کی خوبیوں کا جامع ہوتا ہے۔یہ عالم ربانی ہر قسم کی مخالفت کے باوجود اتباع شریعت کے عمومی اور خصوصی ہر دو پہلووں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔یہ علماء ہر اس جماعت کی سرپرستی کرتے ہیںجو صحابہ کی جماعتی زندگی کو معیار مانتے ہوئے ،ان کے اصولوں اور ضابطوں کے تحت ،معاشرے میں نظام ظلم کے خاتمہ کی فکری اور عملی جدوجہد کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر ،کسی طرح کی بھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے۔اچھائی اور برائی کے فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔ان کافکر وعمل کسی بھی معمولی سے ظلم کی اشاعت و ترویج میں معاون نہیں بنتا اوراسی فکراور حکمت عملی سکھانے کے نتیجے میں ان کے شاگردوں کی ایسی تربیت ہوتی ہے کہ وہ بھی برے نظام کا آلہ کار نہیں بنتے۔
تمام علماء ربانیین کی یہ ہی خصوصیت ہوتی ہیں اگرچہ زمانہ کے اعتبار سے اس کا رنگ مختلف ہوسکتاہے۔ہزارہ دوم کے تمام علماء مجددین باالعموم جبکہ بر عظیم پاک وہند کے بالخصوص انہی خصو صیات کے حامل تھے ۔چاہے وہ شاہ ولی اللہ سے لے کر شیخ الہند اور ان کی جماعت کے علماء ہوں یا سلسلہ رائے پور کے مشائخ ،تمام فراست و ذکاوت کے مالک،اصابت رائے و مردم شناسی کے ماہراور تمام مزکور الذکر خوبیوں کے جامع تھے۔آج بھی ان کے تربیت یافتہ علماء معاشرے میں اپنا تجدیدی اور انقلابی کردار ادا کر رہے ہیں۔کوئی بھی دور علمائے ربانیین سے خالی نہیں ہوتا۔اللھم اجعلنا منھم۔