محکوم و مغلوب قومیں اس وقت تک زندہ رہتی ہیں جب تک ان میں آزادی کا جذبہ زندہ رہے، جب تک ان کے رہنما انہیں آزادی کا سبق پڑھاتے رہیں اور جب تک ان کی مائیں وہ بیٹے پیدا کرتی رہیں جو حریت فکر و عمل کے لیے اپنی زندگی تیاگنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ ملت اسلامیہ اس بابت تاریخ کے کسی دور میں بھی بانجھ نہیں رہی کیونکہ اسے بدترین حالات میں بھی ایسے لوگ میسر رہے جنہوں نے ان کے دلوں میں آزادی کی لو کبھی بجھنے نہیں دی۔ تاتاریوں کا غیظ و غضب ہو یا کہ ہلال و صلیب کے معرکے، آپسی خانہ جنگی ہو یا اقوام مغرب کی غلامی، تاریخ کے ہر موڑ پر مسلمانوں کو فکر و عمل کے وہ لازوال کردار میسر آتے رہے ہیں جن کے پیہم اصرار نے آزادی کی جوت کسی نہ کسی صورت میں مسلسل جگائے رکھی تھی۔ تہذیبوں کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ بے شمار قومیں وقت کے دھاروں میں بہہ کر فنا ہو گئیں اور دوبارہ کبھی اٹھ نہیں پائیں لیکن ملت اسلامیہ کا معاملہ اس کے برعکس رہا ہے۔ کئی بار تباہ و برباد ہونے کے باوجود دوبارہ اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
شاہ ولی اللہؒ برصغیر میں مغل سلطنت کے زوال کے آغاز میں پیدا ہوئے تھے۔ مرہٹوں کے منہ زور طوفان کا سامنا کرنے والے شاہ ولی اللہؒ نے اپنی تحریروں اور اپنے عمل سے ایسا فکری سرمایہ مہیا کر دیا تھا جس نے آنے والے بدترین دور میں ملت اسلامیہ کے لیے بہترین رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ شاہ ولی اللہؒ کے لائق فرزند شاہ عبدالعزیزؒ نے اس فکری روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے دور میں اسے مزید ترقی دے کر ایک باقاعدہ منظم سکول آف تھاٹ کی صورت دے دی تھی۔ اسی سکول آف تھاٹ کی بنیاد پر اگلے سو سال میں آزادی کی کئی تحریکوں نے جنم لیا۔ بدقسمتی سے ان تمام تحریکوں کا انجام ناکامی کی صورت میں سامنے آیا مگر اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا رہا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی لگن زندہ رہی۔ بعد میں آنے والوں نے اسی فکر میں اپنے اپنے حالات کے مطابق کئی تبدیلیاں کیں تاکہ مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہو پائے لیکن غیر جانبدارانہ تجزیے کے مطابق ان تبدیلیوں کا رخ درست سمت میں نہیں تھا جس کی وجہ سے منزل دور سے دور ہوتی گئی۔ غیر جاندار محققین کے مطابق رد و بدل اور پیہم جدوجہد کے اس سفر میں دو مواقع ایسے آئے ہیں جن میں ہونے والی تبدیلیاں انقلابی نوعیت کی تھیں اور انہی موقعوں پر وجود پانے والی تحریکیں آج تک اپنا سفر کامیابی کے ساتھ جاری رکھ سکی ہیں۔
پہلا موقع 1857 ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد دارالعلوم دیوبند کے قیام کا فیصلہ تھا۔ اپنی نوعیت کا یہ پہلا موقع تھا جب رزم گاہ کے شیروں نے اپنی معروف فکر سے بظاہر بالکل برعکس رخ پر گھوڑے دوڑانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ دارالعلوم دیوبند سے قبل برصغیر میں دینی تعلیم کے ادارے نہ ہوں یا خانوادہ شاہ ولی اللہی تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ نہ رہا ہو بلکہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی تھیں لیکن دارالعلوم دیوبند کا قیام دراصل ایک ایساپالیسی شفٹ تھا جس نے شاہ ولی اللہؒ کی فکر سے وابستہ افراد کے لیے عمل کا ایک نیا باب کھول دیا۔ بنیادی پالیسی کی اس تبدیلی سے بظاہر یہ اعلان بھی کر دیا گیا تھا کہ آئندہ وہ لوگ میدان جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ خیال رہے کہ دارالعلوم دیوبند کو موجودہ دور کے روایتی دینی مدرسے کی طرح کا ایک عام ادارہ سمجھنا بھی غلط فہمی پیدا کرتا ہے۔ دارالعلوم دراصل اس عہد کی ایک جدید ترین یونیورسٹی تھی جس میں برصغیر میں مروجہ تمام علوم و فنون کی تعلیم دی جاتی تھی۔ علوم و فنون کی جتنی بھی شاخیں اس وقت کی اسلامی دنیا میں معروف تھیں سبھی کی تربیت کا وہاں بندوبست کیا گیاتھا۔ عصری و دینی تعلیم کی تقسیم جیسا مضر خیال کسی کے دماغ میں نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم نے برصغیر کے مسلمان تو مسلمان ہندوؤں پر بھی گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔
دوسرا 1919ء کا وہ موقع تھا جب مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلویؒ نے ہندوستان میں عوامی جمہوری سیاست کو شاہ ولی اللہؒ کی فکر میں شامل کر کے یا یوں کہیں کہ انہی کی فکر سے اخذ کر کے شیدائیان شاہ ولی اللہؒ کے سامنے عمل کی دنیا کا ایک وسیع جہاں روز روشن کی طرح واضح کر دیا۔ بالاکوٹ تحریک، جنگ آزادی، تحریک ترک موالات اور تحریک ریشمی رومال جیسی خونیں تحریکوں کے تانے بانے بننے والے اور ان تحریکوں میں جان کے نذرانے پیش کرنے والے جانبازوں کو مفتی کفایت اللہؒ نے فلسفہ عدم تشدد کا سبق دے کر ان کی جدوجہد کا رخ موڑ دیا۔ مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں تو خود کو عقیدت کی گل پاشی کرنے پر مجبور پاتا ہوں۔ کس قدر عجیب معاملہ ہے کہ شیخ الہند ؒ کی اسیری کے دور میں ان کا ایک شاگرد برسوں سے چلی آ رہی متفقہ پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی کرتا ہے جس سے ان کی جدوجہد کا رخ بالکل ہی ایک الگ میدان کی طرف مڑ جاتا ہے اور جب استادوں کے استاد شیخ الہندؒ اپنی مالٹا میں اپنی قید سے واپس آتے ہیں تو شاگرد کی رائے پر اپنی تصدیق کی مہر ثبت کردیتے ہیں۔ شیخ الہند ؒ کی عظمت کا ادراک رکھنے والوں کے لیے مقام حیرت ہے کہ وہ کتنا مہان انسان ہو گا جس کی رائے پر عمل کرنے واسطے شیخ الہندؒ نے اپنی برسوں کی جدوجہد کو یکسر تیاگ دیا تھا اور وہ فلسفہ بھی کس قدر بلند پایہ ہو گا کہ جس کے لیے پوری فکر شاہ ولی اللہی اپنا ڈھانچہ ہی تبدیل کر دیتی ہے۔ جی ہاں، عدم تشدد کے فلسفے میں وہ تاثیر ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔
آج کے دور میں تو فلسفہ عدم تشدد کسی قسم کے اعتراض اور سوال و جواب کے بنا بھی سب کے لیے قابل قبول ہے کیونکہ دنیا مسلح تحریکوں اور ان سے جنم لینے والے ان سانحات سے واقف ہو چکی ہے جن کی وجہ سے کامل انسانیت شرمندہ ہے لیکن 1919ء میں حالات ایسے نہیں تھے۔ جدید قومی ریاستوں کا تصور اجنبی تھا۔ عوامی سیاست کے بجائے گروہی اور مذہبی سیاست کا دور دورہ تھا۔ ہندو اور مسلمان دونوں فقط اپنی اپنی قوم کے لیے مراعات حاصل کرنے ہی کو کامیابی تصور کر بیٹھے تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد جیسا عالی دماغ شخص بھی خلافت کے رومان میں مبتلا تھا۔ کمال اتا ترک کو مسلمانوں کے ہاں مقبولیت نہیں ملی تھی کیونکہ انہیں عثمانی خلافت کو ختم کرنے کا مجرم سمجھا جاتا تھا۔ علامہ اقبال کمال اتا ترک کو مخاطب کر کے یوں گویا تھے :
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
لیکن اسی دور میں دیوبند کا ایک فرزند عوامی جدوجہد کی بنیاد رکھتے ہوئے مسلمانوں کو جمہوریت کا درس دے رہا تھا۔ اندازہ کیجیے کہ انہیں یہ نئی راہ چننے میں کتنی مشکلیں پیش آئی ہوں گی حالانکہ آج سو سال بعد بھی ان لوگوں کی کمی نہیں ہے جو جمہوریت کو کفر کہتے نہیں تھکتے۔ مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کے اس انقلابی قدم نے آزادی کے متوالوں کی جدوجہدکو صحیح رخ عطا کیا۔ یہی وہ راستہ تھا جس پر چل کر پاکستان کا قیام بھی ممکن ہو پایا۔ 1919ء میں جمعیت علماء ہند کا قیام در اصل اس بات کا اعلان تھا کہ مستقبل کے انسان اگر تعمیر و ترقی اور بہتر زندگی کی سہولیات حاصل کر نا چاہتے ہیں تو اس کا فقط ایک ہی راستہ ہے کہ جمہوری سیاست اور عوامی جدوجہد کو حرز جاں بنا لیں۔ تہذیب انسانی کا صدیوں پر محیط تجربہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ معاشرے کا ارتقائی سفر بنا کسی توقف کے ہمیشہ آگے کی جانب جاری رہتا ہے۔ اس سفر میں جو قومیں وقت اور حالات کا ساتھ دیتی ہیں وہی ترقی کرتی ہیں اور جو قومیں وقت کا پہیہ الٹی سمت گھمانے کی کوشش کرتی ہیں بے دریغ کچلی جاتی ہیں۔ اسی تجربے سے سیکھ کر فرزندان دیوبند نے مسلمانوں کی بقا کی جدوجہد کو میدان جنگ سے اٹھا کر پہلے تعلیم و تربیت کے اداروں میں لایا اور پھر اسے جمہوریت کے رنگ میں رنگ دیا کیونکہ زمانے کی چال نے انہیں سکھا دیا تھا کہ آئندہ قوموں کی تقدیر کے فیصلے اسلحے کے زور پر میدان جنگ میں نہیں ہوبلکہ علم وہنر کے میداں میں ہوں گے۔ قومیں وہی ترقی کریں گی جو علم وہنر کی قدر کریں گی اور سماج وہی ترقی کرے گا جس میں طاقت کا مرکز عوام ہوں گے۔ دیوبند کا فلسفہ عدم تشدد قوم کو تعمیر و ترقی کے راستے پر چلانے کی پہلی اور بہترین کوشش تھی۔ اسی راستے پر چل کر مسلمانوں نے الگ خطے کی صورت میں اپنی پہلی منزل تک رسائی مکمل کی اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چلنے کی صورت میںآئندہ بھی کامیابی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام کی تاریخ دیوبند کے فلسفہ عدم تشدد پر عمل پیرا رہنے کی منہ بولتی کہانی ہے۔ اس راہ میں جے یو آئی کو بے شمار قربانیاں دینی پڑی ہیں۔ لاتعداد مشکلوں کو سہارنا پڑا ہے لیکن جمعیت نے بے مثال ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا ہے۔ 7، 8، 9 اپریل 2017 کو جمعیت اپنے اسی سفر کے سو سال مکمل کرنے کا جشن منانے جا رہی ہے۔ اضاخیل پشاور میں منعقد ہونے والا صد سالہ اجتماع ایک جانب اپنے کاز سے وفادار رہنے کا جشن ہے تو دوسری طرف تجدید عہد کاموقع بھی کہ جے یو آئی وقت اور حالات کے ساتھ چلنے کی اپنی روایت کو آئندہ بھی برقرار رکھے گی۔ صد سالہ اجتماع خاص طور پر مسلح تحریکوں کے لیے پیغام بھی ہو گا کہ وہ یکسر تنہا ہیں۔ مذہبی و سیاسی فکر کا کوئی بھی قابل ذکر نام ان کی پشت پر نہیں ہے۔ اس لیے کہ پاکستان، ہندوستان اور سعودیہ کے اہل علم اور سیاسی و مذہبی رہنما عدم تشدد پر مبنی عوامی سیاسی جدوجہد کے حامی جمعیت علماء اسلام اور مولانا فضل الرحمن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔