معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی ضروریات اور احتیاجات کی متوازن تکمیل ایک مستحکم معاشی نظام پر موقوف ہے معاشرے اس وقت ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جب منصفانہ بنیادوں پر استوار معاشی نظام سوساہٹی کے لوگوں کی ضروریات کا سامان کرے اور معاشی وسائل کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ انصاف پہ مبنی تقسیم میں بنیادی کردار ادا کرے.
ایسے نظام کی عدم موجودگی معاشروں میں معاشی و اخلاقی بحران کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے اور اشرافیہ کے مفادات کمزور لوگوں کے معاشی حقوق کی گردن پر تیغ کا کام کرتے ہیں ان کے بنیادی حقوق کی پامالی کا موجب بنتے ہیں وسائل اور سرمایہ چند ہاتھوں تک مرتکز ہو جاتے ہیں دولت کا ارتکاز پیدا ہوتا ہے احتکازواکتناز کا دھندا سراعت کے ساتھ پروان چڑھتا ہے طبقات جنم لیتے ہیں۔
مزید بالادست طبقات لوگوں کی محنتوں کا ناجاہز استحصال کا ارتکاب کرتے ہیں اور یوں معاشرہ بھوک و افلاس کی بھیانک تصویر بن جاتا ہے اگر ہم اپنی سوسائٹی کا تحلیل و تجزیہ کریں تو حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارا ملک غلامی کے عہد سے ہی طبقاتی معاشی نظام کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔
طاغوتی دور میں سرمایاداری اور جاگیرداریت کے نظام کی داغ بیل ڈالی گئی جس کی اساس لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنا,جبرواستبداد,بالادست طبقات کی ناجاہز مراعات اور کمزور لوگوں کے ناانصافیوں پہ مبنی ہے
جس کا لازمی نتیجہ آج ہمارا معاشی نظام ملکی ضروریات کے مطابق معاشی وسائل کے اکتساب میں بالصراحت ناکام نظر آتا ہے خودساختہ اعدادوشمار سے معاشرے لوگوں کومطمن کرنے کے لیے دجل و فریب کی بیساکھیوں کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ سماج کی مجموعی ذہنیت کو مفقود کرنے میں برسرپیکار ہے پیداواری عمل کی منصوبہ بندی ناقص ہے زراعت صنعت تجارت جیسے بنیادی معاشی شعبے ترقیات میں سرخروئ سے ہم کنار ہونے میں فیل ہیں۔
دراصل کسی بھی معاشی نظام کا جاہزہ انہی تینوں شعبوں سے لگایا جاتا یے کہ سماج کی صعنت و تجارت کتنی صحت مند ہے زراعت میں کتنے خود کفیل ہیں مزکورہ تینوں شعبوں کی مثلث معاشی نظام کے ایٹم میں نیوکلیس ہے وسائل کے بے دریغ اور ناجاہز استحصال کیا جا رہا ہے بالادست طبقات ذاتی و گروہی مفادات کے اسیر بن گے ہیں مہنگائ کے دیوہیکل عفریت نے پہلے سے اقتصادی حوالے سے کمزور لوگوں کے شریر میں استحصالی پنجہ گاڑ رکھا ہے یہ ہمارے معاشرے کا مجموئ طاہرانہ معاشی منظرنامہ ہے۔
ان حالات میں ضرورت دوچند ہو جاتی ہے کہ معاشرے کے باشعور عناصر ان مسائل کا دلسوزی سے ادراک کیا جائے اور ایک صحت مند انصاف پہ مبنی معاشی نظام کے قیام کے لیے حتی المقدور سعی و کوشش اور جہدوجہد کریں اور اس ضمن میں صعوبتوں کے دریا,مشکلات کے کوہ ہمالیہ اور طاغوتی مزاحمت کے ریت کے طوفان کا سامنا بھی کرنا پڑے تو پایہ ثبات میں لغزش نہ آۓ اور عالمی استحصالی اور طبقات کے حامل نظام کی بیخ کنی کے لیے حضور نبی کریم اور آپ کی جماعت کی سیرت کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں اور اسلامی معاشی نظام کی تعلیمات سے استفادہ کریں اور اس جہدوجہد میں ربعی بن عامر جیسے صحابہ کی شجاعت کا نمونہ اپنے سامنے رکھیں۔
تصویر کے دوسرے رخ پر مذ ہبی طبقہ ہے جو دین کی چند گنی چنی رسومات کو پورا کر کے انہیں ہی کل دین سمجھ بیٹھا ہے معاشی عدم توازن کو مقدر گردانتے ہوۓ ہاتھ پہ ہاتھ درے بیٹھا ہے طبقاتی نظام کا قلع قمع کرنے کی جہدوجہد سے تہی دامن ہے قران حکیم کی آیت مبارکہ کا ترجمہ ہے( ہم نے ایسی کئی بستیاں تباہ کر دیں جن کا معاشی طرز زندگی تعیش اور طبقات پہ مبنی تھا)
لیکن دین دار طبقہ معاشی نظام کی عمارت کو قائم کرنے کے لیے شعوری جہدوجہد کرنے کے فریضے کواختیارکرنے سے قاصر ہے جبکہ خلافت راشدہ کے دور میں قائم کردہ معاشی میکانزم نے سماج کی بھوک وافلاس کو مٹایا معاشی خوشحال کی ایسی ریل پیل تھی کہ زکوت دینے وال کثیر تعداد میں تھے لیکن لینے والا کوئ بھی نہیں تھا۔