• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
طوق غلامی سے محبت — تحریر: محمد سلمانطوق غلامی سے محبت — تحریر: محمد سلمانطوق غلامی سے محبت — تحریر: محمد سلمانطوق غلامی سے محبت — تحریر: محمد سلمان
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

طوق غلامی سے محبت — تحریر: محمد سلمان

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • طوق غلامی سے محبت — تحریر: محمد سلمان
منصفانہ اور مستحکم معاشی نظام کی ناگزیریت — تحریر: وقاص خان
فروری 16, 2017
سزا ختم نہیں ہوئی۔ — تحریر: محمد سلمان
فروری 16, 2017
Show all

طوق غلامی سے محبت — تحریر: محمد سلمان

یوں تو دنیا میں انسانوں کو مغلوب کرنے کے لیے مختلف قسم کے خطرناک ہتھیار بنائے گئے اور طریقے ایجاد کیے گئے۔ لیکن آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ اس ظالم دنیا کے سب سے مہلک ہتھیار کا نام نوکری ہے۔ انسانی تاریخ کے بڑے بڑے کردار کسی بادشاہ، جاگیردار یا سرمایہ دار کی نوکری کی صورت میں طوق غلامی پہنے نظر آئے۔ ہر جائز و ناجائز حکم کی تعمیل کی گئی اور جس نے حکم عدولی کی اس کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ موجودہ زمانے میں آجر اور اجیر کا باہمی تعلق شاید ہی کہیں انصاف کی بنیاد پر قائم ہو۔ انسانیت کی اکثریت استحصال کا شکار ہے، جس کی وجہ سے آجر نے اپنے منافع میں اضافہ کی لالچ میں، اجیر کی حقیقی قوت خرید انتہائی کم کر دی ہے۔ مرد، عورت، بوڑھے، بچے، مریض و معزور سب کو نوکری پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

آج حالت یہ ہے کہ نوکری سرکاری ہو یا سرمایہ دار کی، یہ غلامی کی ایسی دلکش صورت ہے جس کی دلربائی کی بدولت دنیا اس کی دیوانی ہے۔ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی نوکری ملنا تو دنیا و آخرت کی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔ ایک ایک آسامی کے لیے ہزاروں امیدوار سال ہا سال محنت اور جدوجہد کرتے ہیں۔ لکھتے پڑھتے ہیں، مقابلے کے امتحان اور انٹرویو دیتے ہیں۔ سفارش ڈھونڈتے ہیں اور رشوت دیتے ہیں۔ لاکھ منتوں مرادوں کے بعد خوش نصیبوں کو نوکری ملتی ہے تو مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔

اصل امتحان تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جب نوکری برقرار رکھنے کے جتن اس کو حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ سے کہیں زیادہ ثابت ہوتے ہیں۔ نوکر، ملازم یا اہلکار، نام جو بھی ہو مثل مشہور ہے کہ “نوکر کی تے نخرہ کی”۔ اچھا نوکر وہی شمار ہوتا ہے جو اپنے مالک کو خوش رکھنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ ہر کام کرنے کو آمادہ ہو اور ہر حکم بجا لائے۔ انکار جس کی فطرت اور جبلت سے خارج ہو۔ تاریخ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ نوکری کی دلربائی ہی تھی جس نے ایک لاکھ سے کم انگریزوں کو کڑوڑوں ہندوستانیوں پر صدیوں تک حاکم بنائے رکھا۔ ہندوستانی عوام کی اکثریت نے انگریزوں کو انہی ہندوستانی نوکروں کی بدولت خود سے اعلی انسان تسلیم کیا اور ان کی غلامی اور نوکری کو اپنے لیے نعمت سمجھا۔ انگریز نے اس کے بدلے اپنے وفادار نوکروں کو جاگیریں اور مرتبے عطا کیے۔ انگریز سے وفادار ہندوستانی اشرافیہ تشکیل دی گئی جسے جانشینی کے لیے ضروری تربیت دی گئی۔ انگریز کی رخصتی کے بعد کالے انگریز کو اقتدار پلیٹ میں رکھا ملا۔ اسی کالے انگریز نے فورا عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ پر تسلط قائم کیا۔ اپنی جاگیروں اور سرمائے کے زور پر معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا محکوم بنایا۔

آج پاکستان کے جج، جرنیل، بیوروکریٹ، سیاستدان، صنعتکار، مولوی اور سرمایہ دار سب آپس میں ایک مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ سب کبھی انگریز کے وفادار نوکر تھے لیکن اب پاکستان کے مالک ہیں اور عوام میں سے اپنی پسند کے نوکر اپنی خدمت کے لیے چنتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں قابض اس اشرافیہ کے وفادار نوکر اپنے مالک کو خوش کرنے کے لیے آخری حد تک جانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے حق و باطل کی تمیز رکھنا اور اچھا وفادار نوکر ہونا یہ دو خصوصیات ایک شخص کی ذات میں یکجا ہونا ناممکن ہے۔ انہی بے ضمیر پالتو نوکروں کے سہارے اشرافیہ نے ملک و قوم پر انگریز کی طرح قبضہ کر رکھا ہے۔ ایسے ماحول میں اکثر آزادی پسند انسان لاکھ مجبوریوں اور کوششوں کے باوجود کامیاب نوکر نہیں بن سکتے۔ اس میدان میں کامیابی کے لیے ایک خاص قسم کی بے غیرت فطرت درکار ہے جس میں انسان اپنے آپ کو کسی دوسرے انسان سے کمتر تسلیم کر لے اور اس کے جائز اور ناجائز احکامات کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لے۔ انسانی معاشرے میں افراد کی قابلیت اور استعداد ضرور مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن تمام انسانوں کے بنیادی حقوق برابر ہیں۔ سرمایہ داروں نے عوام الناس کے بنیادی حقوق اور عزت نفس کو تنخواہ اور خوشحال مستقبل کے خواب کے بدلے خرید لیا ہے۔

ہمارے مذہبی رہنما سرمایہ داروں کے شراکت دار بن کر ان کے ہر ظلم کو فتوں اور مذہبی دلائل سے تقدیر اور اللہ کا حکم قرار دیتے ہیں۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے اجتماعی شعور پر مرعوبیت اور عقیدت پر مبنی فاسق نظریات مکمل غالب آ چکے ہیں۔ مذہب کے نام پر باطل عقائد اور رسومات کا ملغوبہ دن رات عوام پر ٹھونسا جا رہا ہے اور اب عوام جامد مذہبیت کے سوا کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ قوم کی ایسی ابتر حالت میں بہتری کے لیے انسانی نفسیات کو سمجھتے ہوئے جدید سائنسی بنیادوں پر منظم جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔

مناظر: 254
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ