یوں تو دنیا میں انسانوں کو مغلوب کرنے کے لیے مختلف قسم کے خطرناک ہتھیار بنائے گئے اور طریقے ایجاد کیے گئے۔ لیکن آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ اس ظالم دنیا کے سب سے مہلک ہتھیار کا نام نوکری ہے۔ انسانی تاریخ کے بڑے بڑے کردار کسی بادشاہ، جاگیردار یا سرمایہ دار کی نوکری کی صورت میں طوق غلامی پہنے نظر آئے۔ ہر جائز و ناجائز حکم کی تعمیل کی گئی اور جس نے حکم عدولی کی اس کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ موجودہ زمانے میں آجر اور اجیر کا باہمی تعلق شاید ہی کہیں انصاف کی بنیاد پر قائم ہو۔ انسانیت کی اکثریت استحصال کا شکار ہے، جس کی وجہ سے آجر نے اپنے منافع میں اضافہ کی لالچ میں، اجیر کی حقیقی قوت خرید انتہائی کم کر دی ہے۔ مرد، عورت، بوڑھے، بچے، مریض و معزور سب کو نوکری پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ نوکری سرکاری ہو یا سرمایہ دار کی، یہ غلامی کی ایسی دلکش صورت ہے جس کی دلربائی کی بدولت دنیا اس کی دیوانی ہے۔ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی نوکری ملنا تو دنیا و آخرت کی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔ ایک ایک آسامی کے لیے ہزاروں امیدوار سال ہا سال محنت اور جدوجہد کرتے ہیں۔ لکھتے پڑھتے ہیں، مقابلے کے امتحان اور انٹرویو دیتے ہیں۔ سفارش ڈھونڈتے ہیں اور رشوت دیتے ہیں۔ لاکھ منتوں مرادوں کے بعد خوش نصیبوں کو نوکری ملتی ہے تو مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
اصل امتحان تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جب نوکری برقرار رکھنے کے جتن اس کو حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ سے کہیں زیادہ ثابت ہوتے ہیں۔ نوکر، ملازم یا اہلکار، نام جو بھی ہو مثل مشہور ہے کہ “نوکر کی تے نخرہ کی”۔ اچھا نوکر وہی شمار ہوتا ہے جو اپنے مالک کو خوش رکھنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ ہر کام کرنے کو آمادہ ہو اور ہر حکم بجا لائے۔ انکار جس کی فطرت اور جبلت سے خارج ہو۔ تاریخ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ نوکری کی دلربائی ہی تھی جس نے ایک لاکھ سے کم انگریزوں کو کڑوڑوں ہندوستانیوں پر صدیوں تک حاکم بنائے رکھا۔ ہندوستانی عوام کی اکثریت نے انگریزوں کو انہی ہندوستانی نوکروں کی بدولت خود سے اعلی انسان تسلیم کیا اور ان کی غلامی اور نوکری کو اپنے لیے نعمت سمجھا۔ انگریز نے اس کے بدلے اپنے وفادار نوکروں کو جاگیریں اور مرتبے عطا کیے۔ انگریز سے وفادار ہندوستانی اشرافیہ تشکیل دی گئی جسے جانشینی کے لیے ضروری تربیت دی گئی۔ انگریز کی رخصتی کے بعد کالے انگریز کو اقتدار پلیٹ میں رکھا ملا۔ اسی کالے انگریز نے فورا عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ پر تسلط قائم کیا۔ اپنی جاگیروں اور سرمائے کے زور پر معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا محکوم بنایا۔
آج پاکستان کے جج، جرنیل، بیوروکریٹ، سیاستدان، صنعتکار، مولوی اور سرمایہ دار سب آپس میں ایک مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ سب کبھی انگریز کے وفادار نوکر تھے لیکن اب پاکستان کے مالک ہیں اور عوام میں سے اپنی پسند کے نوکر اپنی خدمت کے لیے چنتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں قابض اس اشرافیہ کے وفادار نوکر اپنے مالک کو خوش کرنے کے لیے آخری حد تک جانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے حق و باطل کی تمیز رکھنا اور اچھا وفادار نوکر ہونا یہ دو خصوصیات ایک شخص کی ذات میں یکجا ہونا ناممکن ہے۔ انہی بے ضمیر پالتو نوکروں کے سہارے اشرافیہ نے ملک و قوم پر انگریز کی طرح قبضہ کر رکھا ہے۔ ایسے ماحول میں اکثر آزادی پسند انسان لاکھ مجبوریوں اور کوششوں کے باوجود کامیاب نوکر نہیں بن سکتے۔ اس میدان میں کامیابی کے لیے ایک خاص قسم کی بے غیرت فطرت درکار ہے جس میں انسان اپنے آپ کو کسی دوسرے انسان سے کمتر تسلیم کر لے اور اس کے جائز اور ناجائز احکامات کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لے۔ انسانی معاشرے میں افراد کی قابلیت اور استعداد ضرور مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن تمام انسانوں کے بنیادی حقوق برابر ہیں۔ سرمایہ داروں نے عوام الناس کے بنیادی حقوق اور عزت نفس کو تنخواہ اور خوشحال مستقبل کے خواب کے بدلے خرید لیا ہے۔
ہمارے مذہبی رہنما سرمایہ داروں کے شراکت دار بن کر ان کے ہر ظلم کو فتوں اور مذہبی دلائل سے تقدیر اور اللہ کا حکم قرار دیتے ہیں۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے اجتماعی شعور پر مرعوبیت اور عقیدت پر مبنی فاسق نظریات مکمل غالب آ چکے ہیں۔ مذہب کے نام پر باطل عقائد اور رسومات کا ملغوبہ دن رات عوام پر ٹھونسا جا رہا ہے اور اب عوام جامد مذہبیت کے سوا کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ قوم کی ایسی ابتر حالت میں بہتری کے لیے انسانی نفسیات کو سمجھتے ہوئے جدید سائنسی بنیادوں پر منظم جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔