2016 ماضی کا حصہ بن گیا اور 2017 کے 25 دن بھی گزر گئے۔ لیکن پاکستان میں انسانی جانوں کا ضیاع بدستور جاری ہے۔ دہشت گردی کا ناسور ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ وقتی طور پر کچھ سکوت ہوتا ہے لیکن پھر وہی لاشیں اور ماتم ہمیں مجبور کر دیتا ہے کہ اس عفریت کی بنیاد تلاش کریں اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے عالمی طاقتوں کی باہمی کشمکش دن بہ دن عروج کی جانب گامزن ہے۔ امریکہ اور ہمنواؤں کا چین، روس اور ان کے ہمنواؤں سے تصادم بڑھتا جا رہا ہے۔ عالمی غلبے کے لیے یہ تصادم جنگی صورت اختیار کر گیا ہے اور افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن سمیت اکثر ممالک امریکی کیمپ کی مخالفت اور وسائل کے مالک ہونے کے جرم کی پاداش میں میدان جنگ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
لاکھوں انسان قتل ہو چکے ہیں اور کڑوڑوں کی زندگیاں برباد ہو چکی ہیں۔ مستقبل قریب میں ڈونلڈ ٹرمپ، نیتن یاہو اور نریندر مودی جیسے کرداروں کی بدولت عالمی کشمکش بڑھنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے امریکی کیمپ میں شامل اکثر مسلمان ممالک سکون سے اپنے مفادات کی خاطر مسلمان بھائیوں کا قتل عام دیکھتے رہے ہیں۔ سعودی عرب، مصر، ترکی، اردن، قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کا کردار قطعا قابل تحسین نہیں۔ کوئلے کی دلالی میں سب کے ہاتھ اور منہ کالے ہو چکے ہیں۔ لیکن اس دوران کچھ مسلمان ممالک امریکی مخالف کیمپ میں ہونے کے باوجود بھی حیرت انگیز طور پر اپنی سلامتی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
ان میں ایران اور ملائشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عالمی طاقتوں کی کشمکش جب کسی ملک کو اپنا میدان جنگ بنانے کا ارادہ کر لے تو اس ملک کی قیادت اور عوام کو اپنی اصل اوقات معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ فولادی ڈھال ہیں یا ریت کی دیوار۔ ایران کا خارجی و داخلی دفاعی نظام فولادی ثابت ہوا ہے۔ جبکہ عراق، لیبیا اور شام ریت کی دیوار نکلے۔ ان مثالوں سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اقوام اپنی دفاعی صلاحیت کے ساتھ ساتھ داخلی انصاف اور احتساب کی بنیاد پر قائم رہتی ہیں۔ جو قوم داخلی انصاف اور احتساب میں کوتاہی کرے اس میں غداری پرورش پاتی ہے۔ میر جعفر اور میر صادق پیدا ہوتے ہیں جو بیرونی آقاؤں کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔ اگر قوم سبق نہ سیکھے اور ہر میر جعفر اور میر صادق کو اپنا محسن و لیڈر شمار کرے تو پھر غلامی، غربت، ذلت اور رسوائی اس انسانی ہجوم کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ قوم درجہ بدرجہ تباہی کا شکار ہوتی ہے اور اقوام عالم میں اس کا تعارف گھٹیا اور ناکارہ معاشرے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ بالآخر عالمی طاقتیں اس ملک کو اپنا میدان جنگ بنا دیتی ہیں اور پوری قوم اس جنگ کا ایندھن بن جاتی ہے۔
گزشتہ 16 سال میں پاکستان نہ ایران بن سکا اور نہ ہی عراق۔ ہم خارجی دفاع میں فولادی صلاحیتیں رکھتے ہیں جس میں چین اور روس کا تعاون حاصل ہے۔ لیکن داخلی معاملات میں پاکستان حقیقتا ریت کی دیوار ہے۔ انصاف اور احتساب کے نام پر مذاق کیا جاتا ہے۔ نہ ادارے انصاف کرتے ہیں اور نہ عوام احتساب چاہتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ درج ذیل کے کردار اور مقام سے لگایا جا سکتا ہے۔ اکبر بگٹی اور ہمنوا ریاست سے بغاوت کر کے بھی شہید قرار پائے ہیں۔ افتخار چوہدری اور ہمنوا ریاست کو انارکی کی طرف دھکیل کر بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ اعتزاز احسن اور ہمنوا قوم کو گمراہ کر کے بھی شرمندہ نہیں بلکہ آج بھی عزت دار لیڈر ہیں۔ مولوی عبدالعزیز اور ہمنوا ریاست سے جنگ لڑ کر بھی اسلام آباد میں براجمان ہیں اور غازی اور شہید قرار دیئے گئے ہیں۔ حامد میر اور ہمنوا میڈیا کے ذریعے زہر اگل کر بھی دھڑلے سے اپنی دکان چلا رہے ہیں۔ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے لے کر ملک میں واپس آئے اور سرعام اپنی بیرونی وفاداری کا اظہار کرتے ہیں۔ عوام نے انہی کو بار بار ووٹ دیے۔
تحریک انصاف کی قیادت اتنے دھوکے کھا چکی ہے کہ کسی بھی لحاظ سے اس پر اعتبار کرنا عقلمندی نہیں بلکہ غیر شرعی ہے۔ سب کا کردار میر جعفر اور میر صادق سے قطعا مختلف نہیں۔ لیکن ہماری قوم نے انہی ناسوروں کو اپنا محسن بنایا ہوا ہے۔ فوج چاہے لاکھ قربانیاں دے کر خارجی دفاع کو ناقابل تسخیر بنا لے، جب تک ہم بحیثیت قوم ناسوروں کو کاٹ کر پھینک نہیں دیتے اور ان سے ان کے ہر قول و فعل کا حساب نہیں لیتے، تب تک داخلی طور پر ہم ریت کی دیوار ہی رہیں گے اور ہماری سزا ختم نہیں ہو گی۔