اسلامی فلاحی ریاست کا خواب تحریک پاکستان کا باعث بنااور کُرّئہ ارض پہ اس مقدس وطن کا ظہور ہوا جو لاکھوں کروڑوں فرزندانِ توحید کا مطمئہ نظرہے ۔ دنیا کی بہترین عسکری صلاحیتوں سے مزّین اور ایٹمی طاقت کی متحمل یہ جمہوری ریاست آج انتہائی دگرگوں حالات سے نبرد آزما ہے ۔
سیاسی معاشی اور مذہبی زبوں حالی کے باعث وطن عزیز کو جس پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ کسی بھی ذی شعور سے مخفی نہیںہے۔ دہشت گردی کی عالمی جنگ نے پاکستان کو آگ اور بارود کے اس ڈھیر پہ لا کھڑا کر دیا ہے جو عدم استحکام کو جنم دیتا چلا جا رہا ہے ۔رفتہ رفتہ آگ اورخون کی ندیاں بہتی چلی گئیں۔ بے کس و لاچار عوام کے لاشے بنیادی انسانی حقوق کی خواہش سینوں میں لئے منوں مٹی تلے سماتے جا رہے ہیں۔ برس ہا برس گزرنے کے باوجود ہم آج بھی عالمی استحصال کا شکار بنے ہوئے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف اپنی قربانیوں اور کاوشوں کو منوانے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں سادہ لوح شہری وطن عزیز کے مستقبل کے بارے میں تشکیک زدہ ہیں۔ کیونکہ جس ملک میں وہ رہ رہے ہیں وہاں بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی سے لے کر توانائی کے بحران تک مسائل ہی مسائل ہیں جن میں سے ایک مسئلہ سیاسی سماجی شعور کا فقدان بھی ہے۔
اگر ہم اپنی سماجی قدروں پہ غور کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہاں پایاجانے والا نظام جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ ہونے کی وجہ سے جبرو استحصال پہ مبنی ہے جبکہ محروم طبقہ فہم وادراک سے عاری ہونے کی وجہ سے ظلم و استبدادکو برداشت کئے جا رہا ہے۔سیاسی سماجی شعور سے بے بہرہ کسان اور مزارعین جاگیرداروں اور زمینداروں کا ظلم و استبداد سہنے پہ مجبور ہیں جبکہ مزدور اور ہنر مند افراد سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کے ہاتھوں معاشی جبر برداشت کرتے جارہے ہیں۔ اور یوں ہمارا سماج دو واضح طبقات میں بٹا محسوس ہوتا ہے۔ ایک محروم طبقہ جو بنیادی انسانی حقوق سے بھی پوری طرح فیض یاب نہیں ہو پا رہا اور دوسرا اشرافیہ اور امراء کا گروہ جسے تمام وسائل تک رسائی حاصل ہے ۔ یہی لوگ دھونس زبردستی کرتے ہوئے محروم طبقے پہ حکومت کرنے کا حق جتاتے چلے آرہے ہیں۔ اور محروم طبقہ محض سیاسی سماجی شعور سے عاری ہونے کے باعث مسلسل پستا چلا جا رہا ہے ۔ استحصالی نظام اس طبقاتی تقسیم کو مخفی اور موثر رکھنے کے لئے لسانی ، جغرافیائی ، مذہبی اور صوبائی عصبیت کو ہوا دیے جا رہاہے۔
ارض پاک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور یہاں افرادی قوت کی بہتات بھی ہے جن میں سے اکثریت نوجوانوں کی ہے مگر تعصبات کی بھر مارنے ہمیں کچھ ایسا تقسیم کیا ہواہے کہ ہم کسی بھی طرح سے ذہنی، شعوری اور سماجی پختگی کا ثبوت نہیں دے پا رہے ۔ بحیثیت مجموعی ہم جس بے حسی اور لاشعوری کا ثبوت دے رہے ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہم بے عملی اور گمراہی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔مکڑی کے جال میںپھنسنے سے پہلے مکھی آزاد ہوتی ہے بلکہ جال میں پھنستے وقت بھی وہ توانا اور صحت مند ہوتی ہے مگر قید اور جبر کی صعوبتیں جال میں پھنسنے والے شکار کی امیدوں اور امنگوں کا سانس روک دیتی ہیں ۔ ہم بھی گویا کسی جال میں پھنسے شکار ہیں ایک وقت تھا کہ ہم مضبوط و توانا تھے سازشیں کرنے والے نحیف ۔ مگر ہماری لاپرواہی نے ہمیں آج یہ دن دکھا دیا کہ ہم نحیف و ضعیف ہیں اور جال ہماری کاوشوں سے کہیں مضبوط۔
حادثات ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں جو کسی بھی بے ترتیب جم غفیرکا پیش خیمہ ہوتے ہیں ۔آپ نے اکثر غو ر کیا ہوگا کہ حادثے کے مقام پہ اکثر مختلف طرح کے لوگوں کا ایک ہجوم اکھٹا ہو جاتا ہے ۔ اگر جائے حادثہ پہ اکٹھے ہونے والے لوگوں کا تجزیہ کیا جائے تو ہم وہاں چار قسم کے افراد دیکھتے ہیں
ایک تو قسم متاثر ہونے والے لوگوں کی ہوتی ہے اور دوسرے عموماً تماشہ دیکھنے والے ہوتے ہیں اس کے علاوہ دوقسم کے اور لوگ بھی ہوتے ہیں جن میں سے ایک انسانی ہمدردی اورحساس طبیعت کی بنا پہ مدد کرنے والے اور دوسرے بے حِس ، خود غرض اور سنگدل قسم کے لوگ جو کسی بھی تکلیف دہ صورتحال سے ذاتی فائدہ حاصل کرنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں ۔ ان کا مقصد موقع سے فائدہ اٹھانا اور لوٹ مار کرنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی انتہائی مکروہ صورت دہشت گردی جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کرتی ہے۔ اسے بھی کسی مجمع کی ہی تلاش ہوتی ہے۔ یہ موقع پرست لٹیرے تقسیم ہند کے دوران بھی پیش پیش رہے اور پھر آنے والے دنوں میں جب بھی ہمارے مخلص قائدین شہید ہوئے یا مُلک پہ کوئی اور افتاد ٹوٹی انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر انتہائی قبیح حرکات کا ارتکاب کیا اور ملک وقوم کو شدید ابتلاء سے دوچار کیا۔ سیاسی سماجی شعور کا مقصد بھی یہی ہے کہ مخلص اور خود غرض افراد میں تفریق کی جائے دوست دشمن کی پہچان نہایت ضروری ہے تاکہ ملت ِ اسلامیہ کو اس ابتر صورتحال سے محفوظ کیا جاسکے آج ہم ایسی ہی مبہم صورتحال سے دوچار ہیں کہ قیادت کا بحران بھی ہے اور سیاسی سماجی جڑت بھی نہیں جس کے باعث ہم ایک قوم کہلانے کے لائق بھی نہیں رہے۔ انہی بنیادی باتوں سے لاعلم ہونے کے باعث ہم ابہام کا شکار ہیں اور شک و شبہ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی سمت اور قیادت کا تعین نہیں کر پا رہے ۔ استحصالی قوتوں کا یہ نہایت موثر منفی ہتھکنڈہ ہوتا ہے کہ جس قوم کو غلام بنانامقصود ہو اسے تشکیک زدہ کرکے اس سے علم اور شعور کی دولت چھین لو ۔
اس ارض پاک کے مخلص مگر سادہ لوح شہری اپنے مستقبل کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ جب ریاست کھوکھلی ہو جائے تو کیسے زندہ رہا جاتا ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کے دن پورے کرنے والوں کی بہتات ہو ۔ جہاں پڑھے لکھے ہنر مند نوجوانوں پہ روزگار کے دروازے بند ہوں جہاں کرپشن اقرباء پروری ہو اور بنیادی انسانی حقوق سلب ہوتے ہوں ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے بہت سی اجناس میں خودکفیل بھی رہا ہے مگر کرپٹ افسران نے اس کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ ہمیں ہمارے پانیوں سے محروم کرنے کی سازشیں کس قدر کامیاب رہیں سب جانتے ہیں پنجاب کے تین دریا کیسے کھوئے پہ کوئی پوچھنے والی بات نہیں ۔ ہمیں نا صرف سرکاری اداروں میں سے ایسی کالی بھیڑیں نکالنی ہونگی بلکہ قیادت کاانتخاب کرتے ہوئے بھی محتاط روّیہ اپنانا ہوگا۔
جب تک ہم باشعور ہونے کا عملی مظاہرہ نہیں کریںگے اور فہم ادراک سے کام نہیں لیں گے ہمارے مسائل جو ں کے توں ہی رہیں گے ۔ ہم سعی لاحاصل میں الجھے رہیں گے اور ہماری کاوشیں بے نتیجہ ہی رہیں گی ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمیں سنجیدہ باشعوراور سلجھی ہوئی مخلص سیاسی قیادت کی اشد ضرورت ہے ۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ہم عوام میں شعور وآگہی پیدا کریں۔ تعلیم عام کریں اور اپنے ملک کی شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ کریں ۔ تاکہ ہمارے عوام اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح استعمال کرکے دیانت دار قائدین کا انتخاب کریں۔ جب ہمارے سربراہان نیک نیت اور مخلص ہونگے تو ہم نہایت سرعت کے ساتھ اس بحرانی کیفیت سے نکل آئیں گے ۔ آج بھی ہمارا مسئلہ توانائی کا بحران نہیں ۔ ہمیں در پیش بنیادی مسئلہ سیاسی شعور اور مخلص قیادت کا فقدان ہے۔
ڈاکٹر وقار علی گل 0323-4204801
Email:
wa**********@ho*****.com