ایک طرف دولت کے بے شمار انبار،عیاشی،تن آسانی،سنگدلی اور جبر و قہر، دوسری طرف ناقابلِ تصور مفلسی،لرذہ خیز غربت اور فاقہ کشی،محنت و مشقت،مجبوری اور لا چارگی۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ عدم توازن ہے اور اس کے باعث جو بحران پیدا ہوتا ہے وہ یقیناّناقابل برداشت ہے ۔اس کو ختم ہونا چاہیے۔خودختم نہ ہوتو ختم کرنا چاہیے،مگر یہ دیکھو کہ اس کے حقیقی اسباب کیا ہیں اور ان کا خاتمہ کیسے ہو سکتا ہے۔آپ نے دولت اور ملکیت کو اصلی سبب قرار دیا ہے۔ یہ فکر و نظر کی کوتاہی ہے۔آپ کی نظر ظاہری سطح سے آگے نہیں بڑھی۔
نظر و فکر کی اسی کوتاہی کا نتیجہ ہے کہ جس اطمینان و سکون،خوشحال اور فارغ البالی کی خاطر آپ نے انقلابات پر انقلابات برپا کیے۔ بہت سی سوسایٔٹیاں، بے شمار خاندان ان کی لپیٹ میں آ کر تباہ و برباد ہو گیے۔ بہت سے مذہب بہت سے مکاتب خیال ملیامیٹ ہو گیے۔ ہزاروں لاکھوں انسانوں کے خون کی ندیاںبہہ گیں، لیکن وہ اطمینان و سکون میسر نہ آیا جس کی طلب تھی۔ خوشحالی اب بھی عنقاء ہے فارغ البالی کے لیے اب بھی دل ترس رہے ہیں۔
آپ سمجھتے ہیں کی اس عدم توازن اوربحران کے بیج سیاست اور اقتصادیات کی سطح پر جمے ہوے ہیں اس سطح کو پلٹ دیں تو بحران ختم ہو جاے گا۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ کوتاہی نظر ہے،اس عدم توازن کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ بحران جلدی مرض نہیں کی کریم یا پوڈر سے یہ مرض جاتا رہے گا اور انسانیت کا چہرہ خوش نما ہو جاے گا۔
اس سرطان کی جڑیں دِلوں کی رگوں تک پہنچی ہویٔ ہیں۔ یہ مرض صرف سیاسی اور اقتصادی نہیں بلکہ بگاڑ اخلاق میں پیدا ہوا ہے۔ اخلاق کے بگاڑ نے دلوں کو بگاڑ دیا ہے اور دِلوں کے بگاڑ نے اکتناز،احتکار،نفع اندوزی،چور بازاری،رشوت اور خیانت کی وباپھیلایٔ ہے۔
اسلام کہتا ہے اور قرآن حکیم اس کی بہت سی مثالیں پیش کرتا ہے کہ اصل مرض چار ہیں۔ ان امراض کایہ نتیجہ ہوتاہے کہ دولت جیسی نعمت سراسر مصیبت بن جاتی ہے اور سیاست اس کے گرد چکر کاٹنے لگتی ہے۔
مرض یہ ہیں؛
(۱) عدم معرفت(خود کو نہ پہچاننا) یا حقیقت نا شناسی یعنی وہ خود اپنی حقیقت اور حیثیت سے غافل رہتا ہے۔ وہ اس تحقیق و معرفت کی کوشش نہیں کرتا کہ وہ مخلوق ہے یاخالق اور جب وہ مخلوق ہے تو لا محالہ خالق کا مملوک اور اس کا زیر فرمان ہو گا۔
(۲) بخل حرص و طمع اور خود غرضی، قرآن حکیم نے ان کے لیے ایک جامع لفظـ؛شح: استعمال کیا ہے
(۳) اتراف۔ تعیش پسندی اور تن آسانی، یعنی خود کویٔ ایسی محنت نہ کرنا جس سے قوم کو فایدٔہ پہنچے یا مُلک کی دولت میں اضافہ ہو اور دوسروں کی محنت کو عیش پرستی اور نہایت اُونچے معیار کی زندگی پر قربان کر دینا۔
؛ و اذاردنا ان نہلک قریۃ امرنا مترفیہا (سورۃ اسراء ع۳)
وکم من قریۃ بطرت معیشتہا (سورۃ قصص ع ۶)
اسلام کہتا ہے کہ ان امراض کے باعث صرف یہی نہیں کہ وہ بحران پیداہوتا ہے جو خرمن امن و اطمینان پر برق بن کر گرتا ہے اور دنیا کے چین اور سکھ کو بھسم کر دیتا ہے، بلکہ ان بیماریوں اور ان علتّوں کا اثر خود دولتمندوں پر یہ ہوتا ہے کہ ان کا تمام عروج شان و شوکت اور ظاہری ٹیپ ٹاپ ایک طلسم بن جاتا ہے جس کے پیچھے حقیقت نہیں ہوتی۔ اس ریشمی نقاب کے پیچھے عموماّ خوف و ہراس،بے اعتمادی اور پریشانیوں کے بھوت مُنہّ چھپائے رہتے ہیں۔
اور جہاں تک اس زندگی کا تعلق ہے جو انسان جیسے اشرف المخلوقات کی زندگی ہے، تو وہ موت سے بدتر ہو گی اور ایسی بدتر کہ موت کی تمنا کرے گا۔ہر طرف اس کو موت دکھایٔ بھی دے گی،مگر موت سے محروم رہے گا۔تمنائے موت پوری نہ ہوگی۔
؛جبار عنید؛ وہ شخص ہے جس میں اُوپر لکھے ہوئے مرض اپنا پورا اثر کر چکے ہیں قرآن حکیم میں اِس کی اُخروی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے:
ترجمہ:، اس کے پیچھے دوزخ ہے(یعنی دنیا کی نامرادی کے بعد آخرت کی نامرادی پیش آنے والی ہے) وہاں خون اور پیپ کا پانی پلایا جاے گا وہ ایک ایک گھونٹ کر کے منہ میں لے گا اور گلے سے اُتار نہ سکے گا۔ ہر طرف سے اس پر موت آئے گی مگر مرے گا نہیں۔اس کے پیچھے سخت عذاب لگا ہوا ہے:
اسلام کہتا ہے کہ جب اصل بیماریاں یہ ہیں تو ان کا علاج سیاسی یا اقتصادی پھریروں سے نہیں ہو سکتا۔ ان کا علاج یہ ہے کہ دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کیا جائے اور قانون کے راستے سے نہیں بلکہ تربیت کے راستے سے ایسے متبادل اخلاق کی فضا تیار کی جاے جو اطمینان و سکون،اُنس و محبت،روداری اور باہمی ہمدردی کے لیے سدابہار ہو۔