انیسویں صدی میں کیمبرج کے ایک کالج سے ایک فارغ تحصیل چارلس ڈارون نے حیاتیات کے علم کو بےحد وسعتیں بخشیں. اس نے شجر حیات کی نمو کی جو تفصیلات اور تغیرات بیان کیے وہ علم حیاتیات کے طالب علموں کا موضوع ہیں. مگر اس نے ارتقاء(اور بقائے اصلح کے جو نظریات پیش کیے وہ علم حیاتیات سے نکل کر علم و خبر کے دوسرے شعبوں میں بھی بہت مقبول ہوئے. ارتقاء کا نظریہ سماجی علوم کے شعبوں میں اس حد تک مقبول ہے کہ ہر ادارے اور نظریے کے مطالعے کا بنیادی طریقہ کار ٹھہرا ہے. رہا بقائے اصلح کا نظریہ تو اس نے جہاں نٹشے کے فلسفے میں اپنی جگہ بنائی وہیں ہٹلر اور مسولینی کی سیاسی فکر میں بنیاد کا پتھر ٹھہرا. ہٹلر اور مسولینی کو تو شکست ہوگئی مگر انہیں شکست دینے والے تسخیر کائنات کے اسی سفر پر گامزن ہیں. جس پر چلتے چلتے ہٹلر اور مسولینی غبار راہ بن گئے تھے. دوسری جنگ عظیم کی اتحادی فورسز انسان اور کائنات کو مسخر کرتے کرتے 2020 تک آپہنچے. جب ہر طرف یہ نوشتہ دیوار پڑھا جا رہا ہے کہ کرہ ارض اوورہالنگ کے لیے لیے بند ہے. تسخیر فطرت کے اس سفر میں 1945 کا ایٹمی حملہ اور پھر اپالو سے اپالو 17 تک کا سفر، ہر عالمی قوتوں کا وہ سفر ہے جو فطرت کو مسخر کرنے کی تاریخ مرتب کرتا ہے.
جن دنوں ہٹلر اور مسولینی بقائے اصلح کے حیاتیاتی اصول کو اپنا ماٹو بنا رہے تھے ہمارے ہاں بھی تسخیر فطرت کا نظریہ مقبول ہو رہا تھا. ہم نوآبادی کے باسی، فکری طور پر بھی ایک نوآبادی ہی تھے. ہم سیاسی نو آبادی کی تائید میں مغرب سے فکری رہنمائی کے طالب ہوتے ہی تھے اور مغرب کی نفی کے لیے بھی اسی سے اصطلاحات مستعار لیتے تھے اور اسی کی کھینچی ہوئی لکشمن ریکھا کے اندر رہ کر سوچتے تھے. علامہ عنایت اللہ خان المشرقی نے تذکرہ لکھ کر بقائے اصلح کے اصول کو قرآن پر منطبق کرنے کی کوشش کی. ہمارے عظیم شاعر علامہ اقبال بھی مسولینی کی شخصیت سے متاثر تھے ، تسخیرِ فطرت کے نظریے کی تائید بھی کر رہے تھے ان کے یہ اشعار اسی نظریے کی تائید اور تصدیق کرتے نظر آتے ہیں :
گفت یزدان کہ چنین است و دیگر ھیچ مگو
گفت آدم چنیں است و چنیں می بایست
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زھر نوشینہ سازم
یہ نقطہ نظر حالی کی مسدس کے مضمون کی، شکوہ اور جواب شکوہ میں تشکیل نو کرتا ہے. مشرقی کا بقائے اصلح کا نظریہ کچھ عرصہ مقبول رہا مگر اس کی سیاسی شکست کے ساتھ ہی اس کا نظریہ تاریخ کے ٹریش بن کی نذر ہوگیا، مگر علامہ اقبال کے ہاں یہ نظریہ شاعری بن کر آیا تھا، اس لیے یہ مقبولیت کی کئی دہائیاں عبور کرکے ہمارے عہد یعنی آج تک آ پہنچا ہے. علامہ کے چند اشعار دیکھیے جن کی تہہ میں تسخیر فطرت کا نظریہ موجود ہے.
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں
اقبال کی مختصر نظم مکالمہ جبریل و ابلیس میں، ابلیس کا مکالمہ دیکھیے :
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
آج کرونا کے باعث، کرہ ارض مرمت کے لیے وقتی طور پر بند ہے اس کے لیے قدرت کسی طرح بھی معافی کی خواستگار نہیں. انسان جبری طور پر یا خود ساختہ نظربندی کی کیفیت میں ہے ان دنوں سہ پہر کے اڑھائی تین بجے میرے گھر کے صحن میں پرندوں کا چہچہانا سنائی دے رہا ہے اور میں کچھ دنوں سے اپنے چھوٹے سے صحن میں لگے پودوں پر رنگ برنگی تتلیاں اور رنگ رنگ کے پرندے دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کاش یہ ان دنوں تک میرے گھر کا راستہ نہ بھولیں جب میرے نواسے دوسرے ملکوں سے آئیں اور انہیں دیکھ سکیں.
میں فراغت اور نظر بندی کے دنوں میں اخباری کالم پڑھتا ہوں مگر اب تک میں صرف ایاز امیر اور وسعت اللہ خان سے اتفاق کر سکا ہوں. کہ اس وائرس کے ذریعے فطرت نے انسان کو سمجھایا ہے کہ اس کرہ ارض پر صرف اسی نے نہیں رہنا ہے دوسری مخلوقات یعنی چرند پرند، شجر و حجر ہر شے نے زندہ رہنا ہے. انسان مسلسل پانی کے ذخائر ختم کر رہا ہے اور درخت کاٹ کاٹ کر ان کی جگہ پتھر سجا رہا ہے پتھروں کوپہاڑوں سے کاٹ کاٹ کر لاتا ہے اور شہروں میں پتھر بچھا کر سڑکیں بنا دیتا ہے یا ان کے پہاڑ بنا دیتا ہے. انسان مسلسل آگ جلائے جاتا ہے اور اس کی جلائی ہوئی آگ نے اوزون کی تہہ کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو بھی کم کیا ہے۔ کیا حماقت ہے کہ وبا کے ان دنوں میں ہمارے شاندار وزیراعظم نے جس انڈسٹری کو سب سے پہلے کھولنے کی اجازت دی ہے وہ تعمیرات سے متعلق ہے. یہ تعمیراتی کام فطرت میں کس قدر تخریب کا باعث ہوتا ہے ایک لمحے کےلیے اس پر سوچ لیجیے…. ہر پختہ دیوار سے نکلنے والی حرارت درختوں اور پرندوں کا جینا ناممکن اور انسانوں کا جینا مشکل کر دیتی ہے. سیمنٹ کی فیکٹریاں زیر زمین پانی کے ذخائرکو ختم یا کم کر رہی ہیں اور انڈسٹری کا نام بجائے ڈیسٹرکشن کے کنسٹرکشن رکھا جاتا ہے.
تسخیر فطرت کے نظریات نے سرمایہ کار کو ایسی ٹیکنالوجی کی طرف راغب کیا جس نے زمین پر مخلوق کا جینا مشکل بنا دیا. دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد انڈسٹری کو بہت فروغ ہوا تھا پھر ایک وقت آیا کہ بڑے انڈسٹریل ملکوں نے زمینی ٹیکنالوجی سے سماوی ٹیکنالوجی کا رخ کرلیا جہاں hover بنانے والی فیکٹری تھی وہاں رائل نواب کے متنوع پکوان سج گئے. کہیں مشینوں کے شوروشغب ختم ہوئے اور تسبیح وتہلیل کے نغمے گونجنے لگے، مگر سپیس ٹیکنالوجی ( نے فطرت سے جنگ جاری رکھی فرق صرف یہ آیا، کاغذ نیویارک میں بنتا ہے جنگل میکسیکو کے کٹتےہیں یا عمارات انگلینڈ میں تعمیر ہوتی تھیں اور درخت افریقہ کے کٹتے تھے. یعنی بڑی طاقتوں نے اپنے قرب و جوار میں ماحول کو بہتر بنالیا تاکہ وہ خود تو سکھ کا سانس لے سکیں مگر دوسروں کے لیے سانس لینا مشکل بنادیا. یورپ اور امریکہ میں مکمل امن قائم کر دیا مگر ایشیا میں جنگ و جدل کی فضا قائم کر دی گو یا ہر قسم کی تخریبی صورتحال اور ہر قسم کی بددیانتی غریب ملکوں یا ترقی پذیر ملکوں کو برآمد کر دی.
اب جب کہ فطرت نے انسان کی تسخیری قوت کے خلاف ردعمل ظاہر کیا ہے تو ترقی یافتہ ملکوں کو موت کا سامنا ہے. جہاں ایک مدت سے غارت گری اور آدم کشی دیکھنے میں نہ آتی تھی وہاں ہر روز ایک نہ دیکھا جانے والا وائرس لوگوں کو بے موت مار دیتا ہے. مرنے والے تو اگلے جہان چلے جائیں گے بچ جانے والے خوف، دہشت اور مایوسی کی فضا میں مدتوں زندہ رہیں گے. اس صورتحال میں بہت سے نظریات پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوگی.
ہماری آج کی صورت حال میں میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ انسان تسخیر فطرت کی بجائے فطرت کے ساتھ پرامن بقائے باہم پر غور کرے اور ایسے نظریات کو تیاگ دے جو فطرت کو مسخر کرنے کے دعویدار ہوں. فطرت مسخر نہیں ہوسکتی ہم اس کے ساتھ امن اور شرافت سے جینا سیکھیں. فطرت کو جینے دیں اور خود بھی جینے کی کوشش کریں. اس صورتحال میں ہم پاکستانیوں کو اپنے قومی شاعر اور عظیم مفکر کے ہاں تسخیر فطرت کے مضمون کی نفی کرنے کی جرأت کرنا ہوگی یا کم از کم اس کی نئی تعبیر کرنا ہوگی. آپ یقین مانیں خدا بندے سے کبھی نہیں پوچھے گا کہ بتا تیری رضا کیا ہے. موجودہ صورتحال صوفی فکر کی معنویت کو واضح تر کر رہی ہے اور اس کی معنویت کو نمایاں کر رہی ہے جس کی بنیاد نفی خودی پر ہے. اور اس کی اخلاقیات کا آغاز یوں ہوتا ہے
کہے حسین فقیر نمانا میں ناہی سب توں
(یعنی حسین جو محتاج اور مسکین ہے وہ کہہ رہا ہے کہ صرف رب کی ذات سب کچھ ہے اور میں کچھ بھی نہیں ہوں)