ملک میں مارچ کے آخری ہفتے سے شروع ہونے والا سزانما لاک ڈاؤن مئی کے آغاز یعنی محنت کشوں سے ہمدردی کے موقع یکم مئی ”یومِ مزدور“ پر بھی برقرار ہے۔
پورا ملک دہشت کی فضا اور بے یقینی میں ڈوبا ہوا ہے۔ عوام سہمے ہوئے اور ہر چار سُو خاموشی اور اَن جانے خوف کی چادر تنی ہوئی ہے۔ کاروباری اوقاتِ کار کا اکثر حصہ بازار اور مارکیٹیں بند رہنے کے باعث صارف اور کاروباری طبقے دونوں ہی مشکلات سے دوچار ہوچکے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کی چکی میں پسنے والے تیسری دنیا کے باقی ممالک کی طرح پاکستان بھی عالمی سرمایہ داری نظام کے اس خوف ناک حربے کے باعث ایک گہرے معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک کے طول وعرض میں بے کس و بے یار و مددگار عوام مارے مارے پھرتے ہیں۔ ہماری گلیاں، چوراہے اور ٹریفک سگنلز کی جگہیں جو پہلے ہی مجبور و بے کس ہاتھ پھیلائے بھیک مانگتی عوام کی آ ماج گاہیں تھیں، اب وہاں مانگنے والوں کی تعداد دوچند ہوچکی ہے۔ مجبوری اور بھوک میں ہاتھ پھیلانے کے بجائے خونِ جگر پینے والے عوام اس کے علاوہ ہیں، جو اپنے گھروں میں بیٹھے زندگیاں نگلنے والے اس المیے اور بھوک کے خلاف کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔
ایسے موقع پر حسبِ سابق ہماری ماضی کی حکومتوں کی مانند موجودہ حکومت بھی امدادی منصوبوں سے عوام کے دلوں کو للچا رہی ہے، لیکن یہ کون نہیں جانتا کہ ایسے موقعوں پرجاری ہونے والی سکیموں پر ایک خاص طبقے کی رال ٹپکتی ہے۔ وہ عوام کے امدادی منصوبوں (relief packages) کو بھی اپنے ملازموں اور بیگمات کے ناموں پر ہڑپ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، یعنی اپنے غیر سرکاری ملازمین کے نام پر جھوٹے قرضے اور اپنی بیگمات کے نام سے غریب خواتین کے ماہانہ وظائف لگوا کر اصل مستحق لوگوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ عوام بے چارے لمبی لمبی لائنوں میں دھکے کھانے کے بعد ناکام و نامراد رہتے ہیں۔
ویسے تو اس انسانیت دشمن سرمایہ دارانہ نظام میں ہمیشہ ہی ایسے مواقع مزدور طبقوں کے لیے مرگِ مفاجات ثابت ہوتے ہیں، لیکن ’کووِڈ19‘ نامی یہ اَن دیکھی آفت غریب اور محنت کش طبقوں پر ایک قیامت بن کر ٹوٹی ہے۔ جیسے ہی ہمارے میڈیا کے منہ میں عالمی ادارہ صحت نے اپنی زبان ڈالی اور وہ سرمایہ دار دنیا کے میڈیا کا ہم نوا ہوا تو ہماری سوسائٹی کی اشرافیہ طبقے (elite class) نے سماجی فاصلے (social distance) کے نام پر ان محنت کش طبقوں کا معاشرتی انخلا شروع کردیا۔ انھیں اپنے درمیان سے آ ٹے میں سے بال کی طرح نکال باہر پھینکا اور خود isolate یعنی معاشرتی اور اجتماعی زندگی سے کٹ کر تنہا ہوگیا۔ ہندو معاشرت کے چھوت چھات کے رویوں کی ناقد قوم راتوں رات چھوت چھات کے فلسفے کی مبلغ بن گئی۔ ہم نے فیکٹریوں سے مزدوروں، گھروں سے کام والی ماسیوں، خانساماؤں اور ڈرائیوروں کو ایسے نکالا، جیسے ہمارے معاشرے کا سب سے خطرناک ”وائرس“ یہی اجتماعی زندگی کی چھت کو اپنے کندھوں سے سہارا دینے والے محنت کش طبقے ہیں۔ شہروں کی بلند و بالا عمارتوں کے خوف زدہ مکینوں سے الگ کیے جانے کے بعد یہ طبقہ اپنے گھروں کو روانہ ہوا تو پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث اس طبقے کی سفری مشکلات پر کوئی بھی حساس دل خون کے آنسو روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کاش کوئی تو اس مشکل گھڑی میں اس طبقے کے لیے اپنی باہیں کھولتا اور انھیں سینے سے لگاتا۔ یہ کام ہمارے دینی حلقے بھی نہ کرسکے، جو پورا سال قوم سے زکوٰة اور صدقات کے مطالبے پر تو اپنا حق سمجھتے ہیں، لیکن اس تنگی کی گھڑی میں قوم کو کچھ واپس لوٹانے کے قابل نہیں۔ ہمارے مذہبی حلقے مسجدوں میں آمد کو محدود کیے جانے پر نالاں ہیں۔ ان کا یہ شکوہ بجا ہے، کیوں کہ یہ مشکل گھڑی خدا سے دوری کے بجائے خدا کے قریب آنے کی ہے۔ پھراوپر سے رمضان کا بھی مہینہ ہے، جو تراویح میں قرآن حکیم سننے اور اس پر غوروفکر کا اجتماعی موقع ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے مذہبی حلقوں کے لیے یہ ایک سوچنے کا بھی موقع ہے کہ آخر ایسی صورتِ حال کیوں پیدا ہوئی کہ مسجدوں میں جمعہ کی نماز موقوف ہوگئی؟ اور مسجدوں کی بندش کے مراسلے (notifications) جاری ہو نے لگے؟ جب کہ ہسپتال، بینک، سبزی اور مویشی منڈیاں پورے زور و شور سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہمارے مذہبی احباب کو سازشی نظریات (conspiracy theories) سے ذرا اوپر اُٹھ کر سوچنا ہوگا۔ انھیں اپنی غلطیوں اور کمیوں کوتاہیوں کو دین کے خلاف سازش کے نام پرجواز فراہم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم نے ان مسجدوں کا تعارف تقویٰ، خوفِ خدا، آزادی و حریت اور دُکھی انسانیت کے لیے خدمتِ خلق کا مرکز بنانے کے بجائے معاشرے میں ان کا تعارف فرقہ وارانہ جھگڑوں اور تفریق بین المؤمنین کے حوالے سے کروایا ہے۔ اگر آج مساجد بیماروں کے علاج معالجے، بھوکے لوگوں کے کھانے اور ضرورت مند غریب و لاچار اور محنت کش طبقوں کے حقوق کی آواز بنتیں اور ان کے لیے جدوجہد کا مرکز بنتیں تو ان پر کوئی پابندی لگنی محال تھی، کیوں کہ یہ مرکز زندگی کو سہارا دے رہے ہوتے۔ زندگی سے کٹنے والے ادارے محض قنوطیت کے مراکز بن کے رہ جاتے ہیں۔ ہمارے مذہبی طبقوں نے تو اپنی سیاست میں بھی خدمتِ خلق کو دیس نکالا دے رکھا ہے۔ وہ عوام کو ووٹ کے بدلے فلاحی منصوبوں، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے بجائے صرف ”اسلام“ مانگنے کا حق دیتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے مذہبی طبقوں کو اس بے رحم لاک ڈاؤن، یکم مئی اور رمضان المبارک کی نسبت سے نہ صرف محنت کش طبقوں کے حقوق کی بات کرنی چاہےے، بلکہ اب تو مزدوروں اور محنت کشوں کے اس قاتل نظام ہی کو جڑ اور بنیاد سے اُکھاڑ پھینکنے کے نظریے کی دعوت دینی چاہیے۔ اس کام کے لیے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے لٹریچر اور ان کے نظریات کے شارح امام عبیداللہ سندھیؒ کی تشریحات کی طرف نوجوان نسل کو متوجہ کرنے کا کام کرنا چاہیے۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور، مئی 2020ء)