انسان دنیا کے جس خطے میں بھی رہتا ہے، وہ اپنی فطری تقاضے کے تحت معاشرے کی صورت میں ہی رہتا ہے۔تاہم وہ جس معاشرے میں بھی رہے، اس معاشرے کی کچھ بنیادی اقدار ہوتی ہیں، جن کا پاس کرنا اور انہیں ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنا ان کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔تاہم یہاں ان بنیادی اقدار سے مراد وہ تمام پاک خصائل ہیں، جو کسی بھی معاشرے کی پہچان اور اس کی ترقی کی علامت ہوتے ہیں۔ یعنی سچ کا پرچار، مظلوم کی داد رسی، ظلم کی بیخ کنی، عائلی معاملات، داخلی اور خارجی تعلقات کی نوعیت اور بنیاد اور سب سے بڑھ کر نظام ِ عدل ، کہ جس سے ہر آدمی کا آئے دن واسطہ پڑتا ہے۔ مگر یہ سب اقدار دراصل ایک ایسے نظام کے ماتحت ہوتی ہیں، جو ان کی اصل قدر کا تعین اور ان کے لئے نشوونما کا کام دیتا ہے، اور اسی نظام کو ہم عرف ِ عام میں سیاسی نظام کہتے ہیں۔
اگر ہم عقل و شعور کی سلامتی کے ساتھ، زمانہ گزشتہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں، تو ہمیں یہ بات ہر معاشرے کے اندر نظر آئے گی۔ اور اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ، جب ایک گروہ ِ انسانیت دوسرے گروہ کے ساتھ جنگ کرتا ہے، تو اس کے نتیجے میں جو گروہ غالب آکر کسی دوسرے علاقے پہ قبضہ کرتا ہے، وہ مغلوب قوم کے اوپر بہت ساری سزائیں بھی مقرر کرتا ہے۔ تاہم اس سارے عمل کا سب سے بڑا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ، وہ اس سب کے ساتھ ساتھ اپنی معاشرتی اقدار، ثقافت اور زبان تک کو اس مغلوب قوم کے اوپر مسلط کرکے ، اپنی حقیقی برتری اور تفوق کا اظہار کرتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ اپنی اقدار کے ساتھ پہلے اگر زندہ تھا، تو اب وہ اقدار رفتہ رفتہ پائمال ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور کچھ عرصے کے بعد طبعی حالت سے معدوم ہوتے ہوتے ، اذہان و قلوب تک سے محو ہوجاتی ہیں۔ اور یوں وہ معاشرہ اپنی بنیاد کھو کر اپنی انفرادی شناخت تک سے محروم ہوجاتا ہے۔ لیکن مغلوب قوم کی اقدار اور ثقافت کتنا عرصہ ، غالب قوم کی اقدار کے سامنے مزاحم رہتی ہیں، اس بات کا انحصار اس قوم کی داخلی بناوٹ اور افراد معاشرہ کی اجتماعی سوچ کے اوپر ہے۔ کچھ معاشرے جو داخلی طور پہ شکست و ریخت سے دوچار ہوں، اور جہاں اجتماعیت کی بجائے انفرادی سوچ کا عنصر غالب ہو، ایسے معاشروں کی بنیادی اقدار اور ثقافت حتی ٰ کہ زبان کو معدوم ہونے کیلئے زیادہ عرصہ درکار نہیں ہوتا۔
ہم برصغیر کی تاریخ کے اوپر بھی نظر دوڑائیں تو یہاں بھی ہمیں کچھ معاشرتی اقدار اور ثقافت کا پتہ ملتا ہے، جس کے سب سے نمایاں عناصر میں رواداری، ایثار، محبت ، کسر ِ نفسی، تصنع اور منافقت سے مبرا زندگی اور خود غرضی و لالچ کی بجائے قربانی وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ یہاں کا بے نظیر نظام ِ عدل جو ہر حال میں مظلوم کی داد رسی اور ظلم کی بیخ کنی میں اپنی مثال آپ تھا، اور جہاں بلا تفریق ِ رنگ، مذہب ، نسل ، علاقہ اور زبان تمام انسانوں کو یکساں بنیادوں اور بلامعاوضہ انصاف فراہم کیا جاتا تھا۔ یہاں کا نظام ِ تعلیم اپنی دھرتی کے تمام سپوتوں کیلئے جہاں وقف تھا، وہیں وہ باقی معاشروں کے برعکس اپنے افراد کو لوٹ کھسوٹ، منافقت ، عیاری اور دھوکہ بازی جیسے رذائل کی بجائے ، انہیں کل انسانیت کا خادم اور ایثار و محبت کا پیکر بننے کی تعلیم دیتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس دور کے اندر ، اتنے بڑے ہندوستان کے اندر فرقہ واریت ، لوٹ مار اور دیگر مظالم کا نام و نشاں نہیں ملتا، بلکہ وہ ایک ایسے معاشرے کا پتہ دیتا ہے جہاں ، صرف محبت ، پاکیزگی، ایثار اور مذہبی رواداری کا چلن تھا، اور تمام افراد نہایت خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔تاہم بد قسمتی سے جیسے جیسے سلطنت ِ مغلیہ زوال پذیر ہوتی گئی، اس کے رد عمل میں انگلستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی ویسے ویسے مضبوط ہوتی گئی ، اور یوں اس کمپنی کے افراد ہندوستان کی اس صدیوں پرانی ثقافت اور تشخص کو دھیرے دھیرے مجروح کرتے ہوئے، یہاں بھی ایک ایسی ثقافت متعارف کرا نا شروع ہوگئے، جس کی بنیاد جھوٹ، منافقت، دغا بازی، فرقہ واریت اور لوٹ کھسوٹ پہ مبنی تھی۔
اس نئی اسکیم یا چال نے جب اپنا رنگ دکھلایا تو یہاں صدیوں سے ایک ہی ساتھ رہنے والے انسان آپس میں ہندو، مسلم اور سکھ مذہب کی بنیاد پہ فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی ہی گردنیں کاٹنے کو چڑھ دوڑے۔ تاہم ابتداء میں اس سلسلے کو اتنی اہم کامیابی نہ ملی، مگر جب 1857 میں آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنوں کی ہی غداری اور منافقت کی وجہ سے اقتدار سے عملاً محروم کرکے، ایسٹ انڈیا کمپنی حقیقی طور پہ اس ملک کے اوپر قابض ہوئی، اس کے بعد اس نے اپنی ثقافت ، معاشرتی اقدار اور زبان کو پوری طرح یہاں نافذ کیا۔ اب انگریز چونکہ یہاں کے حقیقی حکمران اور بلا شرکت ِ غیرے مالک تھے ، لہذا اب ہندوستان کی عوام کو انہی معاشرتی اقدار کو اپنانے پر مجبور کیا گیا جو وہ چاہتے تھے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہی ہندوستانی عوام جو منافقت ، مذہبی تفرقہ بازی اور خود غرضی جیسی عادات ِ قبیحہ سے نا آشناء تھے ، وہ اب انہی صفات کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ کر یہاں کی مقامی اقدار اور رواج کو تہہ تیغ کرنے لگے۔
اس نئے ثقافتی اور معاشرتی سیلاب کے آگے ہندوستان کے اندر سے ہی، کچھ لوگوں نے بند باندھنے کی کوشش کی مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے۔ چنانچہ ان نئی اقدار کی ترویج کے باعث یہاں صدیوں سے اکٹھے رہنے والے اب ہندو اور مسلم کی بنیاد پہ الگ ہو کر ایک دوسرے کے ہی جانی دشمن بن بیٹھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں بھی جھوٹ کا نام سیاست ، عیاری کا نام مفاد ، دھوکہ بازی کو ہوشیاری اور بدیسی زبان کے اپنانے کو جدیدیت کا پیمانہ قرار دیا گیا، اور ہندوستانی اپنے نئے آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کے واسطے ایسے افعال ِ شنینہ سر انجام دینے لگے، جو کچھ عرصہ قبل ان کی نگاہ میں انتہائی معیوب اور معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اور پھر چشم ِ فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ ، جب ہندوستان کی سونا اگلتی زمینوں اور سدا بہار بہتے دریاؤں کے باوجود یہاں غربت گھر گھر میں ناچنے لگی ، حتی کہ قحط جیسی صورت ِ حال تک پیدا ہوئی۔ ایک ہی درگاہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری پہ ماتھا ٹیکنے والے ہندو مسلم ، ایک دوسرے کے گلے کاٹ کاٹ کر انسانیت کی روح تک کو شرمسار کررہے تھے۔ اجتماعی مفاد اور فلاح و بہبود کی بجائے ، شخصی اغراض اور شکم پروری کا چلن عام ہوا وغیرہ وغیرہ یہ وہ خلاصہ ہے اس تبدیلی کا ، جو ایک نئی غالب قوت کے قابض ہونے کے باعث یہاں ممکن ہوئی۔
ہمارے یہاں آج بھی انفرادی اصلاح اور معاشرتی بگاڑ میں بہتری کیلئے وہی مفروضہ پیش کیا جاتا ہے جس کی بنیاد ہی غلط فہمی پہ مبنی ہے۔ تاہم اس حقیقت کو کوئی سمجھنے می کوشش نہیں کی جاتی کہ ، انفرادی اصلاح اسی وقت کارگر ثابت ہوسکتی ہے ، جب نظام ِ مملکت کی بنیاد فلاح اور کل انسانیت کی بہتری پہ مبنی ہو۔ اگر نظام ِ مملکت اور اس سے متصل تمام نظام جن میں سیاسی، دفاعی، عدالتی، معاشی اور تعلیمی نظام شامل ہیں، وہ شخصی اغراض، جھوٹ ، دھوکہ اور شکم پروری جیسی رذیل صفات پہ مشتمل ہو، اور ہم اس کی موجودگی میں معاشرتی اقدار کو بدلنے کی جو بھی کوشش کریں گے وہ نہ صرف رائیگاں جائے گی بلکہ، وہ وقت کے ضیاع کا باعث بھی بنے گی۔ اگر محض انفرادی اصلاح کا کلیہ کارگر ثابت ہوتا تو نبی کریم ﷺ مکہ جیسے مبارک شہر کو ہر گز چھوڑنے پر مجبور نہ ہوتے ، لیکن آپ ﷺ نے تمام چیزوں کو ترک کرکے کل انسانیت کی فلاح اور اصلاح کے واسطے مدینہ منورہ ہجرت فرما کر، وہاں ایک صالح نظام کی بنیاد رکھی جس نے بہ زبان ِ حال تمام مفتوحہ اور غیر مفتوحہ اقوام کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور پھر اُس کا یہی نتیجہ نکلا کہ مسلمان قوم جس علاقے کو فتح کرتی گئی، وہیں پرانی معاشرتی اقدار ٹوٹتی گئیں اور ان کی جگہ صالح اخلاق پر مشتمل نئی معاشرتی اقدار کا احیاء ہونا شروع ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان فریضہ جہاد کیلئے جہاں بھی گئے، انہوں نے جنگ سے پہلے جو شرط سب سے مقدم رکھی وہ یہی تھی کہ ہمارے جیسے بن جاؤ، کیونکہ مسلمانوں کے پاس ایک صالح نظام اور اس سے ملحق نیک اخلاق پر مشتمل اعلی معاشرتی اقدار موجود تھیں چنانچہ بہت جلد دوسری اقوام نے ان سے متائثر ہوکر اپنے آپ کو مسلم قوم کے رنگ میں رنگ لیا۔