دشمن کی تاریخ کا درست علم و تجزیہ دشمن سے لڑنے کا بنیادی ہتھیار ہے۔اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ مضمون لکھا گیا ہے۔1491 ءمیں یورپ کےایک خاندان ، جسے ہیپس برگ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے غرناطہ فتح کیا۔ ہیپس برگ کا یورپی خاندان مقدس رومن سلطنت کا بانی تھا جوکہ آج کے جرمنی، آسڑیا پہ مشتمل تھی۔ یہی خاندان 1700ء تک سپین سلطنت کو چلا رہا تھا۔ برطانیہ میں بھی اسی خاندان سے بادشاہ بنے ہیں۔ جنگ عظیم اول کی شروعات بھی اسی خاندان کے ایک شہزادے کے قتل سے ہوئی۔ 1492ء میں سلطنت سپین نے بیرونی دنیا سے رابطہ قائم کرنے کے لیے بحری راستے تلاش کرنے شروع کیے۔ یہ وہ دور تھا جب عثمانی ترک ہنگری تک کے مشرقی یورپ کے حاکم تھے۔ پندرہویں صدی میں آج کے موجودہ یورپ جیسی کوئی شناخت نہیں تھی ۔ فرانس، جرمنی، اور انگلینڈ کے قبائل آزاد تھے اور وہ آپس میں ہی لڑتے تھے اور دنیا میں ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی۔پندرہویں صدی کے آخر میں مرکزی یورپ کے ہیپس برگ نےیورپ کو نئے سرے سے اُستوار کرنا شروع کیا۔ اس خاندان کی مغرب میں وہی حیثیت تھی جیسے مشرق اور شمال میں چنگیز خان کی اولاد کی، جنہوں نے چین، ہندوستان، ایران، اور روس تک حکومت کی ہے۔
یورپ 1350-1450ء تک کوہڑ کے مرض سے اپنی آدھی آبادی گنوا چکا تھا۔ یورپ کا پندرہویں صدی سے پہلے کا سماج اپنے نظریات کی بدولت اپنے آپ کو تباہ کر رہا تھا۔ ہیپس برگ خاندان کی مدد سے سپین میں کیتھولک کٹر عیسائی حکومت قائم ہوئی۔ تیرہویں صدی کے بعد یورپ کے سیاسی حلقوں نے مسلمان معاشروں کا مطالعہ شروع کیا، ان لوگوں کو ہمارے ہاں مشتشرقین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مشتشرقین کے مشوروں سے ہی سپین کی حکومت نے تجارت کرنے کے لیے ترکی کے غلبے سے آزاد راستوں کی تلاش شروع کی۔ تجارت کے ذریعے یورپی قبائل کے چند بڑےسرمایہ داروں نے دنیا کے ساتھ تعلقات بنائے۔ پندرہویں صدی میں یورپ کے پاس بدلے میں دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ سپین اور پرتگال یورپ کے پہلے علاقے تھے جنہوں نے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کو قائم کرنے کے لیے نئے بحری راستوں کی تلاش شروع کی۔ تجارت کا توازن اس وقت بگڑنا شروع ہوا، جب سپین نے امریکہ کی جنوبی اقوام پہ حملہ کیا۔ سپین نے جنوبی امریکہ کی اقوام پہ اپنی اجارہ داری قائم کر لی کیونکہ وہ اس وقت دنیا کی سب سے کمزور اقوام تھیں جبکہ عثمانی ترک سب سے طاقتور سلطنت تھی۔ سپین نے وہاں سے زراعت کی نئی فصلیں سیکھیں اور ان کو ہندوستان اور باقی مشرقی علاقوں کی طرف تجارت شروع کی ۔ پندرہویں صدی میں چین اور جاپان نے پہلے پرتگالی اور سپنیی لوگوں کو خوش آمدید کہا اور پھر ان کے سماج دشمن ذہن کو سمجھتے ہوئےاپنے علاقوں سے نکال دیا۔
جنوبی امریکہ کا سماج سورج اور بُت پرستی کا شکار تھا۔ وہ اس وہم میں مبتلا تھے کہ ہمارا خدا سورج ، مشرق سے سپینی حملہ آوروں کو تباہ کردے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور وہ پورے جنوبی امریکہ میں چھا گئے۔ سپین کے لوگوں نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی ، بحری راستوں اور امریکی جنگلوں میں خالص چاندی کے پہاڑ کھودے اور یورپ میں پیسے کی آمد شروع ہوئی۔ سپین کی یہ سلطنت 1700ء میں بادشاہ کی موت کے بعد کمزور ہو گئی اور اٹھارہویں صدی کے اندر جنوبی امریکہ میں کئی ایک ریاستیں ابھر کر سامنے آئیں جو آج تک قائم ہیں۔ اس سارے عرصہ میں سپینی عیسائی ،ہندوستان بھی آئے اور بادشاہ اکبر اعظم کو کیتھولک مذہب کی دعوت بھی دی، لیکن اکبر اعظم اس عقیدہ کو اسلام سے کمتر جانتے ہوے اس کی طرف مائل نہ ہوا۔ سپین کی یہ حکومت ،مغل سلطنت سے کم طاقتور تھی اور ٹکنالوجی میں بھی کم تر تھی۔ عثمانی خلافت اور مغل سلطنت نے سپین اور پرتگال کا امریکہ پہ حملوں (جسے وہ امریکہ کی دریافت کہتے ہیں) کو کیوں برداشت کیا؟ تاریخ کا یہ ایک سوال ہے؟
اٹھارہویں صدی میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے جن سیاسی تبدیلیوں کا اشارہ کیا تھا، ان کی بنیاد پہ اگر برصغیر کا مقتدر طبقہ نئے سماج ن کی تشکیل کرتا اور نئے سیاسی اداروں کا قیام عمل میں لے آتاتو ہندوستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا تھا۔ سپین کے زوال کی طرح مغل کے زوال کے بعد ان کے جانشین ریاستوں میں دور کے مطابق تبدیلیاں نہ لا سکے ،۔ اگرچہ سپین اور پرتگال خود کوئی طاقت نہ پکڑ سکے جبکہ خطہ کی دوسری اقوام میں سے انگریز اور فرانسیسی شعور اور طاقت پکڑ چکے تھے۔۔ اٹھارہویں صدی تک برصغیر اور مغرب کی نئی ابھرتی طاقت برطانیہ اور فرانس میں ٹکنالوجی کا توازن نہیں بگڑا تھا، اسی وجہ سے ٹیپو سلطان نے 1782ء کی جنگ میں ان کو ہرایا تھا۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ امریکہ پہ برطانیہ کے قبضے کے بعد وہاں کی زراعت کی دولت سے اور خودہندوستان میں ان کی کمپنی کی آمدن سے ان کا معاشی پلہ بھاری ہونا شروع ہو گیا تھا۔ مستقبل میں اسی پیسے کی دولت سے انہوں نے ہندوستان کے لوگوں کی فوج تیار کی اور یہاں کی ریاستوں کے انتظامی نظام میں سرایت بھی کی۔ ہندوستان کے لوگوں کو متاثر کیا، افریقہ بھیجا اور وہاں بھی اپنے ہم خیال لوگ پیدا کیے۔
اٹھارویں صدی میں فرانسیسی ٹیپو کے اتحادی تھے اور دونوں کو برصغیر میں شکست ہوئی اور یہ شکست ٹکنالوجی کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ وقت نے ثابت کیاکہ مغرب کی یہ دونوں اقوام سماج قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ ان کا مقصد تجارت کا بین الاقوامی غلبہ تھا۔ ان اقوام کے نظام حکومت نے کسی قوم کی سماجی ذمہ داری قبول نہیں کی اور ایسی معاشی پالیسیاں ترتیب دیں جس سے تجارت کا توازن برطانیہ کی طرف ہو جائے اور اس سارے کا م میں یہاں کی 584 نواب ریاستیں اور بہت سارے حکمران خاندان ان کے ساتھ تھے اور آج بھی ہیں۔
جب 1799ء میں ٹیپو کو شکست ہوئی اور 1801ء میں رنجیت سنگھ پنجاب کا حکمران بنا۔ یہ ریاست بھی ایسا سماج اور حکومتی ادارے پیدا نہ کرسکی جو برطانوی نو آبادیاتی نظام سے ٹکر لے سکتے۔ 1840ء تک برطانیہ فرانس بحری طاقت بن چکے تھے اور پوری دنیا میں تجارت کا نیٹ ورک بنا چکے تھے۔ 1850ء تک ٹکنالوجی کا توازن برصغیرکے مقابلے میں مکمل طور پہ برطانیہ اور فرانس کی طرف منتقل ہو چکا تھا، لیکن عثمانی ترک اور روس ان سے بہت زیادہ پیچھے نہیں تھے۔ 1850ء کے بعد جرمنی کی ریاست نئے نظریہ سے بننا شروع ہوئی، مشرق وسطی کے سمندری راستوں پہ کافی حد تک ترکوں کا کنڑول تھا۔ جرمنی اور ترکوں کے تعلقات مضبوط تھے اور اس دوران جرمنی ترکی میں سرمایہ کاری بھی کر رہا تھا۔ اس ماحول میں پہلا صنعتی انقلاب 1850ء کے قریب رونما ہونا شروع ہو چکا تھا۔ ایسے عالم میں برصغیر کی اقوام اور طاقت کے سارے مراکز بیرونی تجارت سے کٹ چکے تھے اور وہ کمپنی کے رحم و کرم پہ تھے۔ بحری طاقت اور نیئوی گیشن کا نظام برطانیہ اور فرانس کے کنڑول میں آچکا تھا۔ اور سرمایہ داری نظام کا فلسفہ لکھا جا چکا تھا جو اس دور کی معاشی غارت گری اور سیاسی غلامی کو اخلاقی بنیادیں فراہم کر چکا تھا۔1870ء تک پہلا صنعتی انقلاب مکمل ہو چکا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں آزادی کی جنگ شروع ہوئی، تب برطانوی سامراج مکمل عروج پہ تھا، لیکن اس کے پیچھے لاکھوں اقوام کا خون، افریقی و ہندوستان نوجوان غلاموں کی محنت اور ہسپانوی، پرتگالی عروج کا تسلسل تھا۔
شمال میں زار روس 1839سے 1895ء تک مشرق وسطی کی مسلمان عقیدہ کے لوگوں کی کازخ، بخارا، کھیوا اورکوکنڈ خانت پہ قبضہ کر چکا تھا۔
1870ء سے 1915ء تک دوسرا بڑا صنعتی انقلاب آ رہا تھا۔ جس میں ہوائی جہاز، بجلی کی دریافت قابل ذکر ہے۔1850-1915ء کے دوران عثمانی خلافت مسلسل کمزور ہو رہی تھی اور کئی جنگیں ہار چکی تھی، لیکن نئے دور کی شروعات کر چکی تھی، اس دور کی تمام فوجی ٹکنالوجی پہ محارت رکھتی تھی۔ 1900ء میں فرانس اور برطانیہ مصر اور مشرق وسطی سے سمندری راستہ حاصل کرنا چاہتی تھیں ۔ اس وقت عثمانیوں کے پاس ٹیلی گراف اور الیکڑک بارودی سرنگ کی جدید ٹکنالوجی بھی تھی جوکہ برطانوی اور فرانسیسی فوجی ٹکنالوجی کے ہم پلہ تھی، لیکن پھر بھی وہ اپنی کمزور تنظیمی طاقت کی وجہ سے 1898ء میں سوڈان میں برطانویوں سے ہار گئے۔
عثمانیوں کا پلہ اب مشرقی یورپ اور مشرق وسطی میں کمزور تھا۔ تب برطانیہ نے 1907ء میں غلام ہندوستان کی فوج سے تبت پہ چڑہائی کی۔ ان کا اگلا قدم چین کو مکمل طور پہ زیر نگیں کرنا تھا جبکہ وہ پہلے ہی 1839-1860ء کے دوران ہانگ کانگ پہ قبضہ کر چکے تھے۔ مشرق بعید کی تجارت پہ ان کا مکمل کنڑول ہو چکا تھا، جبکہ مشرق میں جاپان ہی ایک ملک تھا جو ان سے اپنا حصہ بٹورنا چاہتا تھا۔
1917ء میں یورپی سماج سے ہی ایک نیا انقلاب آیاجوکہ سرمایہ دارانہ تجارتی پالیسوں کے راستے میں ایک رکاوٹ تھا، اسی دور میں تحریک ریشمی رومال لڑی گئی۔ اس تحریک کو اگر پورے بین الااقوامی تناظر میں دیکھیں تو ناکامی کوئی حیرانی کی بات نہیں ۔ اس وقت برطانیہ تمام بین الااقوامی وسائل پہ قابض تھا ، ا ور ان وسائل کو لے کر اس تحریک کو دبانے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن ان جیسی تمام تحریکوں کی بدولت برطانیہ کمزور بھی ہو رہا تھا اور آہستہ آہستہ بوڑھا بھی ہو رہا تھا۔ انہی تحریکوں کی بدولت برطانیہ یہاں پہ اپنے مذہبی اور سیاسی نظریات اس طرح نہ پھیلا سکا جیسے دوسرے علاقوں میں پھیلائے اور نہ ہی یہاں کے سماج ، زبانوں اور لوگوں کو ختم کر سکا جیسے اس نے امریکہ، کنیڈا، افریقہ اور آسڑیلوی باشندوں کو مکمل طور پہ صفہ ہستی سے مٹا دیا۔ برطانوی زوال سےپہلے جنگ عظیم اول کے وقت امریکہ، یورپ کے تمام ملکوں کے برابر صنعتی طاقت بن چکا تھا۔
1920 سے 1950 ء تک تیسرا صنعتی انقلاب آیا اور اس میں بھی آزاد اقوام نے حصہ لیا۔ اس انقلاب میں ٹی وی، نیوکلئیرتوانائی، جدید جہازاور کمپیوٹر کی ایجاد قابل ذکر ہے۔ پہلے، دوسرے، اور تیسرے صنعتی انقلاب میں جاپان کا کردار اہم ہے۔ چین اور کوریا اگرچہ ٹکنالوجی میں مغرب سے پیچھے تھے لیکن 1960-1970 ء تک وہ کافی حد تک صنعتی اداروں کو قائم کر چکے تھے۔اگرچہ تمام کلونیئل دور میں اور بعد میں کافی عرصہ تک ایران، افغانستان اور ترکی ایک آزاد ریاست کے قائم رہے لیکن ایک ایسا نظریہ پیدا نہ کر سکے جو سرمایہ داری نظام کا مقابلہ کر سکے۔ ان ممالک نے کوئی ایسی مارکیٹ نہیں بنائی جو سفید فارم نسلوں کے اداروں کا مقابلہ کر سکے اور ان کے سیاسی ادارے سرمایہ داری نظام کے متبادل کوئی نئی سوچ پیدا نہ کر سکے۔البتہ 1950 ء کے بعد ترکی نےاور 1980ءکے بعدایران اپنے قومی نظام کو بچانے اور قومی اداروں کو کافی حد تک جدید اور طاقتور بنا یاہے۔
1786ء کے قریب ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی ایک ملک کے طور پہ وجود میں آچکا تھا اور مسلسل اپنی جغرافیائی حدود اور صنعتی اداروں کی تعداد میں اضافہ کر رہا تھا۔ اس ریاست نے مشرق میں چین اور جاپان سے تجارتی شراکت داری کی، دوسری طرف براعظم امریکہ کے اند ر بھی اپنی اجارہ داری قائم کی۔ ریاست متحدہ امریکہ پہلی جنگ عظیم تک ایک معاشی طاقت بن چکا تھا ، پھر بھی اس نے برطانیہ کی بین الاقوامی قیادت کو چیلنج نہیں کیا۔ تاہم دوسری عالمی جنگ میں حالات سے فائدہ اٹھا کر بین الاقوامی سیاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ بین الاقوامی اداروں کا جال بچھایا اور کلونئل دور کا اختتام ہوا۔ اس سارے دور میں افریقہ، عرب، جنوبی ایشیاء ، جنوب مغربی ایشیاء آزاد ہو گئے لیکن آج تک ان کےسماج سے ایسی سیاسی جماعتیں ابھر نہ سکیں اور نہ ہی اس عرصہ میں کوئی طاقتور معیشت پیدا کرسکیں جو سامراج کے اثر سے پاک ہو، البتہ کچھ ملکوں نے جزوی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
دوسری طرف روس بھی 1917ء کے انقلاب کے بعد ایک نئے روپ میں کمزور اقوام کا نمائندہ بن کر سامنے آیا۔ لیکن جلد ہی انقلاب کے نام پہ دوسرے ملکوں کو قابو کرنا شروع کیا۔ اس وجہ سے1960ء میں چین نے سووئیت سے اپنا راستہ الگ کر لیا اور امریکہ کے قریب آ گیا، سلامتی کونسل کا رکن بنا اور بین الااقوامی معاشی اداروں سے استفادہ کیا۔ چین نے امریکہ سے تعلق میں اپنی خوداری، عوام سے تعلق، اور اپنی علاقائی حدود پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔اس کے برعکس پاکستانی حکمرانوں نے امریکی یاری کے چکر میں قوم، ملت اوردھرتی سے غداری کی اور ملک کو جہنم میں بدل ڈالا۔
1490ء سے لے آج تک ادوار کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ، پہلا زرعی دور ، دوسرا تجارتی جبکہ تیسرا صنعتی تجارتی ہے۔ ان ادوار کے اہم واقعات درج ذیل جدول 1 میں دیے گئے ہیں۔ 1490ء سے 1700ء تک کے زمانے میں دنیا کے سماجوں میں سپین ایک طاقتور سماج ضرور تھا، لیکن وہ اپنے ہم اثر مغل اور عثمانی سماج سے کم تر درجے کا تھا۔ لیکن تجارتی دور اور اسی کے تناظر میں تشکیل پانے والی سیاست نے صنعتی تجارتی دور کو جنم دیا۔ یہ دور آج بھی جاری ہے ۔ اس دور میں مغرب کی ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو عالمی غلبہ ملا ہے اور یہ ان کی اس حکمت عملی کا نتیجہ ہے جو انہوں نے پندرویں صدی مین طے کی تھی۔ یہ غلبہ بالکل ایسے ہی ہے، جیس زرعی دور میں برصغیر یا دوسرے ملکوں میں ایک مسلم بادشاہ کے بعد دوسرا خاندان غالب آیا لیکن سسٹم اسلام کا ہی رہا۔ بالکل اسی طرح مغرب کی ایک قوم کے بعد دوسری قوم غالب آئی لیکن سسٹم ان کا ہی ہے۔
امریکہ کا زوال شروع ہو چکا ہے، لیکن اس کا سماج ٹکنالوجی اور جدید کاروبار پیدا کرتا رہے گا، یہ زوال علمی زوال نہیں ہوگا ۔ اگرچہ روس اور چین دوبارہ ابھر رہے ہیں لیکن وہ بھی کنزومر ازم کی اسا س پہ معشیت کو چلائیں گے۔ ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، چین اور روس دوسرے ممالک کی سیاست میں دخل اندازی اور سازشیں اس انداز میں نہیں کرتے جیسے برطانیہ یا امریکہ کرتے آ رہے ہیں ، لیکن ان کے عروج یا زوال سے ہمارے معاشرے پہ کیا اثر پڑے گا یہ ہماری اپنی جماعتی جدوجہد اور سماج کی ترجیحات پہ منحصر ہے۔ ہندوستان میں کانگریس کوشکست ہو چکی ہے۔ہندو شدت پسندوں کا غلبہ پورے ہندوستان پہ قبضہ ہے۔یورپ کے ادارے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں اور اپنی پوری تیاری میں ہیں ۔ یورپی بلاک عالمی سطح پہ کافی اثر پزیر اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ بریگزیٹ کے بعد دوبارہ اپنی پرانی کالونیوں کی طرف جانا چاہتا ہے۔ ہمارے لوگوں کی سوچ میں غلامی ہے ، سیاسی طاقت پیدا کرنے کی سوچ کی کمی ہے۔ اس سوچ کو پیدا کرنا اور سیاسی شعور دینا ہماری قومی ذمہ داری ہے ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی تیاری پوری رکھیں اور اپنے اداروں کو مضبوط بنائیں تاکہ موجودہ قومی شیرازہ بکھر نے سے پہلے ایک آزاد، رحم دل، مہذب، ترقی پسند اور عوام دوست قیادت تیار کی جا سکے۔
جدول1 ۔پچھلے 500 سو سال کے اہم سال اور واقعات جن کی بدولت دنیا تبدیل ہوئی ہے
واقعات
سال
سپین میں ہپس برگ خاندان کا عربوں پہ تسلط اور بحری راستوں کی تلاش
1492-1600
ہسپانوی سامراج کا جنوبی امریکہ میں عروج ، کیتھولک کی تبلیغ ، یورپ میں بیرونی پیسہ کی آمد اور 1700ء کے اختتمام تک زوال
1600-1700
برطانوی اور فرانسیسی سماج کا جاگنا اور بیرونی تجارت میں شدت آنا۔ ہندوستان ، جنوبی افریقہ ،شمالی امریکہ اور آسڑیلیا کا برطانوی سامراج کی اطاعت
1700-1800
بیرونی دنیا کی دولت ، علم، نوادرات کا مغربی یورپ کی طرف منتقلی
1800-1915
سامراجی ملکوں کا ایک دوسرے پہ حسداورعالمی جنگ اول و دوم، سرخ انقلاب اور روس کا نیا فکر، امریکہ کا عالمی لیڈر کا کردار، بین الااقوامی اداروں کا قیام
1915-1945
نو آبادیاتی دور کا خاتمہ، نئی اقوام کے جغرافیائی مسائل
1945-1970
بین الاقوامی اداروں کا سیاسی استعمال، مسلم اور افریقی سماج کا شعوری زوال،امریکہ کا زوال، روس کا ابھرتا کردار،چین کا نئے دور کا آغاز، ہندوستان میں کانگریس کی شکست اور شدت پسندوں کا غلبہ۔
1970-2019