آج فطرت نے درختوں، پودوں، جانوروں، کیڑےمکوڑوں، پرندوں اور ہواؤں فضاؤں کی درخواست پر (STATUS QUO) جاری کر رکھا ہے اور انسانوں کی سرگرمیوں کو محدود کردیا ہے ۔فطرت نے انسانوں کی غیر فطری اور کچھ فطری سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے لوگ بازاروں میں بیٹھ کر کھانے کی بجائے گھر کے کھانے پر گزر بسر کررہے ہیں فطرت کی تسخیر کے مسلسل عمل کو ترک کر کے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں انسان سارے علم کے باوجود اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ وہ کچھ سمجھ نہیں پایا۔ اس پر مزید خوبصورت بات یہ ہے کہ انسان اس بات کا ادراک کرتے ہوئے اس کا اقرار بھی کر رہے ہیں اس صورتِ حال میں ایک اور حوالے سے دیکھیں تو یہ بات سامنے آرہی ہے کہ انسان چاہے مشرق کا ہو یا مغرب کا ،ترقی یافتہ سرمایہ دار دنیا کا ہو یا پسماندہ ،افریقہ کا یا ترقی پذیر ایشیاء کا، ایک ہورہا ہے اور یہ بات تسلیم کر رہا ہے
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً (سورۃ البقرہ آیت : ۲۱۳)
آج انسان ایک ہورہا ہے اور اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کو بچایا جائے اسے پہلی دفعہ یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ زندگی بچانے کی جنگ میں صحت کا شعبہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے ہمارے ملک میں تعلیم اور صحت ہمیشہ سے نظر انداز ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالج یونیورسٹی کے اساتذہ سے ہسپتال کے ڈاکٹرز تک سب کی یہی خواہش ہوتی ہے وہ سی۔ایس۔ ایس کا امتحان پاس کر کے افسر بنے اور معزز شہری بن سکے۔ وبا کے ان دنوں میں ڈاکٹرز کو فرنٹ لائن کا سپاہی تو کہا جاتا ہے مگر جس بے دلی سے کہا جارہا ہے وہ بھی ہم سب پر واضح ہے۔ ڈاکٹر زکے لیے مخصوص حفاظتی لباس حکمرانوں کے نوکروں نے پہن رکھے ہیں اور ماسک وزراء اور افسران نے۔ ڈاکٹرز N-95 ماسک اور حفاظتی لباس سے محرومی کا شکوہ کریں تو لاٹھی چارج کا ہدف بنتے ہیں اور شکایت کریں تو مستوجب ِ سزا ٹھہرتے ہیں کہ انہوں نے زندگی قربان کرنے کا حلف لے رکھا ہے ۔زندگی قربان کرنے کا حلف تو اور بھی بہت سوں نے لے رکھا ہے ، مگر وہ تو بہت سی جائز اور زیادہ جائز مراعات کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔واضح رہے کہ حمید گل کی اڑھائی سو روپے میں فی ایکڑ کے حساب سے خریدی گئی زمین کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں ہے۔
کرۂ ارض کے انسانوں کو فطرت کے جاری کردہ حکم نے احساس دلایا ہے کہ وہ ایک ہیں اور ان کے مسائل بھی ایک سے ہیں ۔انسان اس سوچ میں ہے کہ ترقی یافتہ ملک کی ترقی تخریبی ہتھیاروں کی ترقی تک محدودہے اور بڑی بڑی کارپوریشنز کی ساری عمارت طلسم خیالی نظر آتی ہے۔ امریکا جیسی واحد عالمی قوت مرگ آور آلات سے تو مالا مال ہے، مگر سانس آور آلات اور حیات بخش ادویات کی کمی کا شکار نظر آتی ہے۔ امریکا کے نظام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عوام کے لیے کیپٹلزم ہے اور سرمایہ دار کے سوشلزم ہے۔ اس بات کو اس مثال سے واضح کیا جاتا ہے کہ امریکا اپنے دیوالیہ ہونے والے بینکوں، مالیاتی اداروں اور کارپوریشنز کو امداد دے کر دیوالیہ ہونے سے بچاتا ہے، مگر عوام کو صحت کی کسی طرح سہولیات دینے کے لیے تیار نہیں۔
امریکی نظام کی اس خامی کو اب تک اس کے بیمہ نظام نے چھپا رکھا تھا،مگر موجودہ عالمی وبا نے اس نظام کی ساری کمزوریوں کو بے نقاب کردیا ہے۔
پہلے پہل تو نرسنگ ہومز میں لوگ مر رہے تھے ،پھر اولڈ ہومز میں مرنے لگے،۔اب مریضوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنےہی گھر میں اکیلے ہوجائیں اور موت یا صحت کا انتظار کریں۔ گویا دنیاکے سب سے بڑے ریاستی ڈھانچے نے واضح لفظوں میں نکمے چوکیدار والا فقرہ دہرایا ہے۔
جاگدے رہنا، ساڈھے تے ناں رہنا .
یہی راگ دوسرے ملکوں میں بھی چھیڑا جائے گا۔ہمارے ہاں بھی لوگوں کو مریض ہونے کی صورت میں گھروں میں رہنے کی اجازت مل گئی ہے ۔مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں رکھنے اور آئسولیشن وارڈ میں رکھنے کی نہ ضرورت رہی ہے ،نہ گنجائش ۔ لوگ گھروں میں رہیں گے تو بہتر ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں جہاں امریکا کے سرمایہ دارانہ نظام کو معرض ِ سوال میں لا کھڑا کیا ہے، وہیں ہمارا بظاہر ٹوٹا پھوٹا نظام، مگر حقیقتاً انتہائی مضبوط جدید نو آبادیاتی نظام بھی معرض ِ سوال میں ہے۔ ہم اگر موجودہ صورتِ حال کے عادی نہ ہوتے تو یہ سوال اٹھائے جاسکتے تھے کہ ہمارے ہاں تو ٹیسٹنگ کٹس بھی چائنا سے درآمد ہونی ہیں جن کی کار کردگی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے، حالانکہ ہم بہتر کٹس تیار کر سکتے ہیں ہمارے ہاں ماشاء اللہ سے کئی طرح کے میزائل ہیں، مگر سانس آور مشینیں (Ventelators) نہیں ہیں یا ضرورت سے بہت کم ہیں۔ ہمارے ملک میں ایٹم بم تو تیار ہوچکا ہے جیسا کہ بتایا جاتا ہے مگر کسی طرح کی ویکسین نہیں بنتی۔ کتے کے کاٹنے کی ویکسین ہم انڈیا سے درآمد کرتے ہیں اب تو یہ خبر آئی ہے کہ 467ادویات انڈیا سے درآمد کی گئی ہیں جن میں وٹامن کی گولیاں بھی شامل ہیں۔
ہمارے ہاں کا ایئرو نوٹیکل کپملکس اور آرڈیننس فیکٹری ہمارا اعزاز اور وقار ہیں مگر میڈیسن کے لیے ہمارا سارا انحصار یا زیادہ تر انحصار بیرونی ممالک سے درآمد پر یا ملٹی نیشنل کمینیوں کی تیارشدہ ادوایات پر ہے۔ ہمارا کوئی قومی ادارہ ہمیں غیر ممالک اور غیر ملکیوں کے اثر ونفوذ سے آزاد کرانے کی جرأت کیوں نہیں کرتا۔ یہ سوال اور اس قسم کے بہت سے سوالات اٹھائے جاسکتے تھے مگر ہمارے کسی بھی قسم کے میڈیا پر ان سوالوں کی گونج سنائی نہیں دیتی تو اس کی بہت سے وجوہ ہیں۔
پاکستان دو قومی نظریئےکی بنیاد پر وجود میں آیا۔ ہندوستان کے لوگ قیام ِ پاکستان کی ترکیب استعمال نہیں کرتے، بلکہ اس کی بجائے تقسیم ِ ہند کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، اس تقسیم میں بڑے بوڑھوں کی کہی ہوئی یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ راج تو بدلتا ہے، پرجا نہیں بدلتی۔ ہندوستان کی صدیوں کی تاریخ میں پہلی بار 1947ء کو راج بھی بدلا اور پنجاب اور کراچی میں پرجا بھی بدلی۔ شاید اس لیے کہ جمہوریت نے راج کے استقلال کے لیے پرجا کی تبدیلی کو ضرورت بنادیا تھا یا پرجا کی تبدیلی کا باعث دو قومی نظریہ تھا۔ مذہب کو سیاست کی اساس قرار دینے کا یہ نظریہ مسلمانوں کے بعض راہنماؤں کے پیش کیے جانےسے پہلے بعض ہندو راہنما پیش کرچکے تھے۔
لالہ لاجپت رائے نے اپنے ایک مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اسلام کا تقاضا ہے کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے لوگوں سے الگ تھلگ رہیں۔ لالہ جی کے اس تجزیے پر مسلمان اکثریت نے کامل یقین کا اظہار کردیا۔ اس کے بعد 1947ء 1965ء 1971ء ،سیاچن اور کارگل کے واقعات وحادثات نے ،لالہ لا جپت رائے کے تجزیے پر مسلمانوں کا یقین پختہ تر کردیا اور ہندؤوں کا وہ طبقہ جو ساورکر کے نقطہ ٔ نظر کا حامل تھا، اب مودی کی قیادت میں “ہندو توا “کا نعرہ بلند کررہا ہے مودی کا رویہ اور “ہندو توا “کا نعرہ دو قومی نظریے پر پاکستانی مسلمانوں کا یقین پختہ سے پختہ تر کررہا ہے ،لیکن ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی ہمدردی میں ہم خواہش رکھتے ہیں پاکستان میں دو قومی نظریہ دلوں میں گھر کر لے، مگر ہندوستان کے ہندوؤں کے ذہنوں کے قریب نہ پھٹکے۔
آج پوری دنیا کی یکساں صورتِ حال نے انسانوں کو ایک ہونے کی دعوت دی ہے ہمارے پڑوس میں مودی کے “ہندوتوا” کے نعرے کے جواب میں تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد صاحب نے انسانیت کے ایک ہونے کی تائید اور تصدیق کرتے ہوئے تبلیغی بھائیوں کوپلازما عطیہ کرنے کی ہدایت جاری کی ہے، مگر ہمارے ہاں ایک عجیب صورتِ حال ہے مشرقی بارڈر پر بھارت لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر رہا ہے، مغربی بارڈر پر دہشت گردہماری بہادر افواج پر اپنی ٹوٹی کمر سے حملہ آور ہیں۔
بلوچستان میں را کے ایجنٹ شرپسندی پھیلا رہے ہیں گویا کرونا ہمارا بڑا مسئلہ نہیں رہا نہ لاک ڈاؤن ہی کوئی بڑا مسئلہ ہے۔
ہمارا بڑا مسئلہ ہمارا مشرقی ہمسایہ ہے جس کی ازلی دشمنی کو محسوس کرتے ہوئے ہم یعنی قوم رسول ہاشمی نے اپنے آپ کو مغرب کے انداز میں جغرافیے پر مبنی قوم سمجھنے کے بجائے ملت اور قوم کو ایک خیال کرتے ہوئے، الگ ملک بنایا، ہم ملت اور قوم کو ہم معنی خیال کرتے ہیں ہم ریاست ِ مدینہ بنانا چاہتے ہیں اس لیے ہمارا ملک ملک خدادادہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا مغربی بارڈر ایک قانونی ضرورت ہے، لیکن جونہی جہاد کی ضرورت پڑے تو سارا جہاں ہمارا کی بنیاد پر مغربی بارڈر لایعنی ہوجاتا ہے۔ اور جونہی امریکا جہاد کو دہشت گردی قرار دے، ہمیں دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دینا پڑتی ہیں بلوچستان کے شرپسند ہمارے دشمن کے اشاروں پر جو کام کر رہے ہیں اس سے بھی نبٹنا ہے۔
یہ وہ صورتِ حال ہے کہ جس میں ہم سوال اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے کہ ہماری ریاست عوام کی صحت کی ضرورتوں سے اس قدر بے خبر اور لاپروا کیوں ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں کتے کے کاٹنے کے ویکسین ایٹم بم کے فارمولے سے مشکل ہوگئی ہے اور ہم دوائیاں دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں یا ملٹی نیشنل پر انحصار کرتے ہیں دوائیوں کے سالٹ اگر ناقص آجائیں تو دوائیاں موت بانٹنے لگتی ہیں۔
ٹیسٹنگ کٹس کے رزلٹ مشکوک ہوتے ہیں اور ہم اپنے ملک میں ان چیزوں کے تیاری کی فکر نہیں کرتے حالانکہ ہم میزائل اور ایٹم بم (جیسا کہ بتایا جاتا ہے) بڑی مہارت سے بنارہے ہیں ہمارے لیے یہ سوال اٹھانا اس لحاظ سے خطرناک ہیں کہ اگلا سوال یہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کی سہولیات حسب ِ ضرورت موجود نہیں ہیں اور جوکچھ موجود ہیں ان کا درست استعمال نظرنہیں آتا۔ مگر یہ سوال اٹھانا اس لیے غیر ضروری ہے بلکہ نقصان دہ ہے کہ ہمارا ازلی دشمن لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر رہا ہے مغربی بارڈر پر دہشت گردی اور شر پسندی کو سپانسر کر رہا ہے۔اس موقع پر پاکستانی قوم کا رد عمل پوری دنیا کے انسانوں سے مختلف ہونا چاہیے۔ کیونکہ علامہ اقبال نے فرمایا :
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہےترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
دنیا کا مسئلہ صحت کی سہولتیں ہوسکتا ہے ہمارا مسئلہ آٹھارویں ترمیم ہے۔ آٹھارویں ترمیم نظریے پر جغرافیے کی فتح کا اعلامیہ ہے حالانکہ ہمارے علامہ اقبال ہمیں جغرافیے سے پرہیز کی نصیحت فرماگئے ہیں۔:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
ساری دنیا امت واحدہ ہے یا نا ہےہم بہرحال دو قومی نظریے پر ایمان رکھتے ہیں اور دوسروں سے مختلف بھی ہیں اور منفرد بھی۔