آیت اللہ خمینی نے سربراہ بنتے ہی بادشاہی نظام کے خاتمے کا اعلان کیا اور اپنے لئے رہبر ِ معظم کا لقب اختیار کرکے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی اور مہدی بازرگان کو ملک کا پہلا وزیر ِ اعظم مقرر کیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک کمیٹی مجلس خبرگان رھبری قائم کرنے کیلئے چناؤ کا حکم دیا۔اس کمیٹی کے ذمہ ایران کے نئے آئین کی تشکیل اور متعلقہ امور کی انجام دہی کو سونپا گیا۔ چنانچہ اس کمیٹی نے 24 اکتوبر 1979 کو ملک کا نیا آئین تشکیل دیا جس کو آیت اللہ خمینی اور وزیر ِ اعظم مہدی بازرگان نے منظور کرلیا۔ اس آئین کی روح سے رہبر ِ معظم کو تمام امور کا سربراہ بنایا گیا ، جس کی تمام اہم امور میں منظوری حاصل کرنا لازمی گردانی گئی۔ یہ آئین مسلک اہل ِ تشیع کے مطابق ملک کو چلانے اور تمام امور کو اسی کے مطابق حل کرنے پہ زور دیتا ہے۔
تاہم اس دوران ایران کے کچھ افراد نے امریکی سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنا لیا ، جس کو جواز بناتے ہوئے 1979 میں ہی یہ حکومت مستعفی ہوگئی۔ یہ عہدہ کچھ عرصے کیلئے خالی رہا تاوقتیکہ 1980 کے اندر ابو الحسن بنی صدر جب ملک کے صدر بنے تو انہوں نے محمد علی رجال کو نیا وزیر ِ اعظم مقرر کیا۔ یہ عہدہ مختلف ادوار میں مختلف شخصیات کو منتقل ہوتا رہا ، لیکن 1989 میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس عہدے کو ختم کرتے ہوئے ، اس کی جگہ نائب صدر کا عہدہ متعارف کروایا گیا۔
ایران کا آئین صدر ، شعبہ قضا اور مقننہ ، کے اوپر مشتمل ہے، جس میں تمام قوانین کی اساس مذہب اور صدارتی جمہوریت ہے۔ اور مجلس خبرگان رھبری کے ذمہ رہبر ِ معظم کے چناؤ کا کام ذمہ ہے۔ اس مجلس کے اراکین کی تعداد 88 ہے ، جو تمام مجتہد اور آیت اللہ کے درجے پہ فائز ہوتے ہیں ، جس کا دورانیہ 8 برس پہ محیط ہے۔ اگرچہ آئین میں عورت کو اس مجلس کا رکن بننے کی گنجائش موجود ہے، تاہم ہنوز کوئی عورت اس مجلس کی رکن نہیں بنی ۔ ان افراد کا انتخاب ایک باقاعدہ الیکشن کے ذریعے کیا جاتا ہے ، جو ہر 8 سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔تاہم ان تمام افراد کو رہبر ِ معظم کی بھی باقاعدہ منظوری حاصل کرنا لازمی ہے۔ اس کا سب سے اہم کام رہبر ِ معظم کا چناؤ ہے۔ یہ مجلس ہفتے میں دو بار اپنے اجلاس منعقد کرتی ہے ، اور مختلف امور کے اوپر غور و خوض کرتی ہے۔ اس مجلس میں جو بھی امور طے پاتے ہیں ، وہ سب صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں ، جن کو افشا کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ایران میں سب سے پہلے رہبرِ معظم آیت اللہ خمینی تھے، اور ان کے انتقال کے بعد یہ عہدہ آیت اللہ خامنہ ای کے پاس ہے، اور وہی ایک عرصہ دراز سے اس عہدے پہ فائز چلے آرہے ہیں۔
ایران کے اندر دوسرا اہم ادارہ شورای نگہبان قانون ِ اسای ہے۔اس مجلس کا کام ایرانی آئین کی تشریح کرنا ، الیکشن کے امور کی دیکھ بھال تاہم ایران کے آئین کی روح سے تمام منتخب شدہ اراکین کا شوری نگہبان قانون ِ اساسی سے منظوری حاصل کرنا لازم ہے۔ اس شوری کے ذمہ تمام سیاسی امور کے متعلق خبر گیری رکھنا اور اراکین اسمبلی کو اہل یا نا اہل کرنا شامل ہے۔ اس کے اراکین کی تعداد 12 ہے جن میں سے ، 6 کا تعلق فقہ سے اور 6 کا تعلق شعبہ قضا سے ہوتا ہے۔وہ 6 افراد جو فقہ کے امور میں ماہر ہوتے ہیں ، ان کی منظوری رہبر ِ معظم جبکہ دیگر 6 افراد کے ناموں کی منظوری مجلس اعنی مقننہ دیتی ہے۔یہ تمام اراکین 6 سال کی معیاد کیلئے منتخب کیے جاتے ہیں ، اور مدت معینہ کے بعد دوسرے اراکین کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔
ایران میں سب سے اہم اور مقدس عہدہ رہبر ِ معظم کا ہے، اور وہی ملک کا حقیقی سربراہ ہے۔لہذا ملک کے تمام اہم ادارے جس میں فوج ، شعبہ قضا اور ابلاغیات شامل ہیں ، وہ اسی کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ رہبر ِ معظم ایران کی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے، اقتصادی امور سے متعلق اہم فیصلے کرنے ، تعلیم اور دیگر ملکی منصوبوں کے بارے میں حتمی اختیار رکھتا ہے۔رہبر ِ معظم انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے یا رد کرنے کے علاوہ صدر کی منتخب شدہ کابینہ کو بھی تحلیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ایران کے آئین کی روح سے رہبر ِ معظم کی حیثیت مرجع تقلید کی سی تھی ، تاہم بعد میں ترمیم کے ذریعے اس کو ختم کردیا گیا۔ رہبر ِ معظم کا انتخاب مجلس خبرگان رہبری کرتی ہے، اور اس وقت یہ عہدہ آیت اللہ خامنہ ای کے پاس ہے۔ آئین کی روح سے رہبر ِ معظم کا عہدہ ، ایرانی صدر کے عہدے سے بھی بڑا ہے۔
ایران کی قننہ جسے قوہ مقننہ جمہوری اسلامی ایران کہا جاتا ہے ، جو مجلس شورای اسلامی اور شورای نگہبان قانون اساسی کا مرکب ہے۔تاہم یہ مقننہ اپنے وجود برقرار رکھنے کیلئے مجلس کی پابند ہے۔ کیونکہ مقننہ میں منظور شدہ تمام بل، حتمی منظوری کیلئے اس مجلس کے پاس بھیجنا لازم ہے۔ اور مجلس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ، کسی بھی پیش کئے گئے بل کو اگر اسلامی شریعت سے متصادم سمجھے ،تو اسے کالعدم کردے۔تاہم مقننہ اور مجلس میں نزاع کی صورت میں تصفیہ کا اختیار مجمع تشخیص مصلحت ِ نظام کے پاس ہے، جو رہبر ِ معظم کی ہدایات کی روشنی میں تصفیہ کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کا قیام 1988 میں ہوا تھا، اور اس کے تمام اراکین کا انتخاب بھی رہبر ِ معظم 5 سال کے واسطے کرتے ہیں۔
مجلس شورای اسلامی جسے مختصرا ً مجلس بھی کہا جاتا ہے، اس کو ایران میں پارلیمنٹ کی حیثیت حاصل ہے، جس کے اراکین کی تعداد 290 ہے۔اس مجلس کا کام قانون سازی اور ان تمام امور کے متعلق آئین سازی کرنی ہے جو آئین سے متصادم نہ ہوں۔ملکی اور غیر ملکی امور کے متعلق تمام احکامات ، اور دوسرے وہ تمام فیصلے جو ایرانی صدر کرتے ہیں ان کی انجام دہی بھی اس کے کام میں شامل ہے۔کسی بھی رکن مجلس ، حتیٰ کہ صدر کو بھی برخاست کرنے کا اختیار اس مجلس کو حاصل ہے۔تاہم صدر کی برطرفی کے معاملے میں دو تہائی اراکین کی اکثریت ہونے کے ساتھ ساتھ رہبر ِ معظم کی رضامندگی بھی لازم ہے۔
ایران کے اندر صدر مملکت کو بھی ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔صدر کے عہدے کی معیاد 4 سال ہوتی ہے ، جبکہ ایک ہی شخص صرف 2 بار یہ عہدہ لینے کا اہل ہے۔ صدر مملکت اپنے امور کے اندر رہبر ِ معظم کو جواب دہ ہوتا ہے، اور اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے نائب صدر اور اپنی کابینہ کو بنانے کا اختیار رکھتاہے۔ تمام ملکی اور غیر ملکی معاملات کی باگ دوڑ، بجت کی تیاری اور دیگر سیاسی امور بھی صدر کے ذمہ ہوتے ہیں۔تاہم خارجہ پالیسی، آرمی چیف کے تقرر اور نیو کلیئر پروگرام کے متعلق اختیارات اس کے دائرہ میں نہیں آتے، بلکہ ان کی باگ دوڑ رہبر ِ معظم کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔صدر ِ مملکت ہنگامی حالت میں مارشل لاء لگانے، کابینہ کو برطرف کرنے اور کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ کرنے کا اعلان کرسکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ صدر کیلئے تاریخ شناسی، پرہیزگاری کے ساتھ ساتھ مسلک ِ شیعہ کا پیروکار ہونا لازمی ہے۔
مجلس ِ قضا یا شعبہ قضا بھی ایران کے اندر ایک اہم ادارہ ہے۔ یہ ادارہ وزارت ِ انصاف کے ماتحت نہیں ہے، بلکہ یہ خالص مسلک ِ اہل ِ تشیع کے فقہ کی نگرانی میں اپنے امور سر انجام دیتا ہے۔ قاضی القضاہ کا تقرر 5 برس کی مدت کیلئے کیا جاتاہے ، جس کا اختیار رہبر ِ معظم کے پاس ہوتا ہے۔قاضی القضاہ کے ذمے وزیر ِ انصاف کا تقرر کرنے کے علاوہ 6 ایسے افراد کا بھی تقرر کرنا شامل ہے جو مجلس نگہبان (گارڈین کونسل) میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ تاہم ان افراد کا تعلق مذہبی حلقے سئ ہونا لازم نہیں۔ اس کے علاوہ شعبہ قضا سے متعلق دیگر اعلی عہدیداران کا انتخاب بھی قاضی القضاہ کے معالات میں شامل ہے۔
اگر ہم عسکری اداروں کی بات کریں تو ایران کی زمینی فوج ، دو اداروں پر مشتمل ہے جس میں سے ایک ادارہ آرتش اور دوسرا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی شامل ہے۔ ایران کی باقاعدہ فوج دنیا کے اندر نویں سب سے بڑی فوج ہے۔ بری فوج کے سربراہ کو جنرل کمانڈر آف ملٹری کہا جاتا ہے، جس کے تحت چیف آف دی جوائنٹ سٹاف آف دی ملٹری کام کرتی ہے۔ ایران کی فضائی فوج ایک علیحدہ ادارہ نہیں ، بلکہ بری فوج کی ہی ایک شاخ کے طور پر کام کرتی ہے جس کا سربراہ کمانڈر کہلاتا ہے ۔ امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں کی وجہ سے ایران، دفاعی سامان برازیل ، یوکرائن اور روس سے خریدتا ہے۔ اس کے علاوہ آلات اور دیگر اشیاء کی مرمت کا کام مقامی سطح پر بھی کیا جاتا ہے۔ جبکہ بحری فوج بھی ایران کا ایک اہم عسکری ادارہ ہے، جو خلیج ِ عمان اور دیگر سمندری حدود میں اپنے ملک کے دفاع کی ذمہ داریاں ادا کررہی ہے۔بحری فوج کے سپہ سالار کو رئیر ایڈمرل کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم سپاہ پاسداران ِ انقلاب کی بات کریں ، تو اس کا قیام 1979 میں آیت اللہ خمینی کے حکم پہ لایا گیا تھا۔ اس کے ذمہ بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی بجائے ، ملک کے اندر اسلامی نظام کے بقاء اور اس کے احیاء کا تحفظ کرنا شامل ہے۔ اس فوج کے اندر بری، فضائی اور بحری تمام اقسام کی افواج شامل ہیں۔ اس کے سربراہ کو چیف کمانڈر کہا جاتا ہے، تاہم اس فوج کو بحرین، سعودی عرب اور امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کی حامل تنظیموں میں شامل کیا جا چکا ہے۔
ایران کا آئین بنیادی طور پہ ” امت ِ مسلمہ” کا تصور لیے ہوئے ہے، جس کے تحت تمام مسلمانوں کو اتحاد کے اصول کے تحت اکٹھا کرنا اور قوت حاصل کرنا ہے۔ آئین کا بنیادی ماخذ اور مصدر اسلامی شریعت ہے جس کے تحت تمام قوانین جو اسلامی شریعت سے متصادم ہوں، وہ کسی بھی طور پیش نہیں کیے جاسکتے۔ آئین کے مطابق ملک کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ ایران ہے، جس میں کسی بھی جبر اور ظلم کی گنجائش نہیں ہے۔ تمام حکام کو اپنے اعمال کیلئے خدا کو جواب دہ بنایا گیا ہے، اور معاشرے کے تمام طبقات کیلئے یکساں نظام کی اہمیت پہ زور دیا گیا ہے۔ سن ِ تقویم کیلئے ہجری تقویم کو چنا گیا ہے اور جمعہ کو بطور تعطیل رکھا گیا ہے۔ آئین کی روح سے ثانوی درجے تک تمام بچوں کیلئے عربی زبان کی تعلیم لازم ہے۔
ایران کا حکومتی نظام دو طرح کی خصوصیات کا حامل ہے، جہاں ایک طرف رہبر ِ معظم تمام اختیارات کا مرکز اور دوسری طرف صدر کا عہدہ ہے۔ تاہم اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ، تمام ادارے بالواسطہ یا بلاواسطہ رہبر ِ معظم کے زیر نگرانی رہ کر کام کریں۔ لیکن صدر ِ مملکت نہ تو کسی قانون کو کالعدم قرار دے سکتا ہے اور نہ ہی کسی اہم عہدے پہ تقرر کرسکتا ہے۔اس کے علاوہ مقامی حکومتوں کا تصور بھی رائج کیا گیا، تاکہ اختیارات کا مرکز وفاق سے نچلی سطح پہ منتقل ہو، لیکن اس کے اثرات ہنوز عام آدمی تک پہنچ نہیں سکے۔ ایران میں منتخب نمائندوں کی حیثیت کا فیصلہ گارڈین کونسل کرتی ہے، اور وہ جس بھی منتخب نمائندے کو چاہے برخاست کرسکتی ہے۔ انتخابات کا عمل عام طور پہ 4 سال کے بعد منعقد ہوتا ہے جس میں، 5 نشستیں اقلیت کیلئے مختص ہیں۔ ان میں زرتشت ، یہودی مذہب کیلئے ایک ایک ، جبکہ عیسائی مذہب کی مختلف شاخوں کیلئے 3 نشستیں مختص ہیں۔اگر ایران میں موجود سیاسی جماعتوں کی بات جائے تو ان میں 4 اقسام کی جماعتیں شامل ہیں۔ ا س میں اول اسلامی نظریاتی، دوئم نظریاتی سوئم اصلاحی اور چہارم لبرل ازم کی حامی جماعتیں شامل ہیں۔تاہم بنیادی مقابلہ اسلامی نظریاتی اور اصلاحی جماعتوں کے مابین ہی ہوتا ہے۔ جبکہ باقی جماعتوں کے افراد قلیل ہونے کے سبب کسی بھی قسم کی فیصلہ سازی میں شریک نہیں ہوسکتے۔ لیکن ان دونوں جماعتوں اعنی اسلامی اور اصلاحی کے غالب ارکان کی اکثریت مسلک ِ اہل تشیع کی پیرووکار ہے۔ اگر ہم 1979 سے اب تک کی صورت ِ حال دیکھیں تو ملکی معاملات کی زیادہ تر باگ دوڑ رجعت پسند اسلامی نظریات کے حامل افراد کے ہاتھ میں رہی ہے، تاہم صدر محمد خاتمی کا عہد ِ صدارت اصلاحی شمار کیا جاتا ہے ، جس کے تحت انہوں نے بہت سی اصلاحات متعارف کروانے کی سعی کی۔ تاہم ان کے بعد محمود احمدی نژاد کے صدر بننے کے ساتھ ہی ، زمام ِ قیادت پھر سے رجعت پسند اسلامی حلقے میں دوبارہ واپس آگئی ہے۔
ایران کی خارجہ پالیسی بھی اس نظریے کی عکاس نظر آتی ہے۔ جب تک آیت اللہ خمینی زندہ رہے ، انہوں نے مغربی طاقتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت کرنے کو روا نہ رکھا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مسلک کی بنیاد پہ خلیجی ممالک کے ساتھ بھی مفاہمانہ رویہ رکھنے کی روش کو گوارہ نہیں کیا گیا۔ تاہم عراق کے ساتھ جنگ کے زمانے میں ایران نے ، اپنی اس روش کو بدلا اور اپنی پرانی پالیسی میں لچک دکھاتے ہوئے دوسرے ممالک کے ساتھ دوستی کے نئے سفر کا آغاز کیا۔ لیکن اس میں اصل موڑ اس وقت آیا جب محمد خاتمی ایران کے صدر بنے اور انہوں نے ، تمام پرانی روایات کو پس ِ پشت ڈال کر تمام ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ لیکن ان کے جانے بعد محمود احمدی نژاد ایک دفعہ پھر رجعت پسند خیالات کے ساتھ، عہدہ صدرارت پہ متمکن ہوئے اور یوں مغربی ممالک کو ایک بار پھر ناپسندیدہ قوتوں میں شمار کرنا شروع کردیا۔ البتہ صدر محمد روحانی ایک معتدل ذہن اور نظریات کی مالک شخصیت ہیں، جو ایران کی بنیادی پالیسی کو اپنانے کے ساتھ ساتھ باقی ممالک سے بھی دوستی بڑھانے کے خواہاں ہیں۔
ایران کا اقتصادی نظام زیادہ تر تیل و گیس کے گرد گھومتا ہے، جہاں دنیا کے دسویں سب سے بڑے تیل اور پندرہویں بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ایران کا سب سے بڑا برآمد کا ذریعہ بھی تیل و گیس ہے، جس سے کئی دیگر صنعتیں بھی وابستہ ہیں اور ہزاروں لوگوں کا ذریعہ روزگار ہے۔ ایران ایک عرصے سے امریکہ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہونے کی وجہ سے، بہت سارے معاشی مسائل سے بھی دوچار ہے ۔ تاہم حالیہ عرصے میں کی گئی کچھ نرمیوں کی بدولت ایران میں سیاحت کے شعبے کو پھر سے فروغ حاصل ہونا شروع ہوا ہے۔ایران کے اقتصادی نظام کا ایک اہم حصہ اسلامی پاسداران ِ انقلاب کا بھی ہے جو ، ایک اندازے کے مطابق تقریبا ً ملکی آمدنی کا تیس فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ لاس اینجلس ٹائمز کے 2016 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ، پاسداران کی کل دولت کا تخمینہ تقریبا ً 12 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم وزارت تیل و گیس کے ساتھ بلامسابقت ٹھیکے حاصل کرنے اور ساحلی علاقوں میں جاری تمام سرگرمیوں کی اجارہ داری کا بھی استحقاق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک اور اہم شعبہ بنیاد کے نام سے بھی کام کرتا ہے، جس کے ذمے صدقات و خیرات وصول کرنے اور اس کو استعمال کرکے قابل ِ آمدن بنانے کا ذمہ ہے۔ اس تنظیم کے تحت 120 کمپنیاں کام کرہی ہیں ، جو ٹیکس سے مستثنی اور کل جی ڈی پی کا 20 فیصد حصص رکھتی ہیں۔ یہ تنظیم کسی بھی ادارے کو جواب دینے کی بجائے ، براہ راست رہبر ِ معظم کے زیر ِ تحت اور ان کے احکامات کی روشنی میں کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کے تحت بہت ساری صنعتیں جن میں ہوٹل، گاڑیوں کے کارخانے، مشروبات کی فیکٹریاں، بحری جہاز سازی کے ادارے وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم مقامی سطح پہ اس تنظیم کے بارے میں رشوت ستانی ، کرپشن اور اقربا پروری جیسے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔
ایران کا تعلیمی نظام دو حصوں پر مشتمل ہے جس میں ایک حصہ، روایتی مذہبی تعلیم کیلئے کام کرہا ہے جبکہ دوسری طرف سرکاری سکولز اور کالجز وغیرہ کا نظام بھی قائم ہے۔اس میں ثانوی سطح تک کی تعلیم کے ادارے وزارت ِ تعلیم کے ماتحت جبکہ کالجز اور جامعات وزارت سائنس اور وزارت میڈیکل کے تحت کام کرتے ہیں۔ تاہم دینی ادارے ایک مستقل علیحدہ ادارے “وقف ” کے تحت کام کرتے ہیں۔ سکولز وغیرہ میں بھی اسلامیات کی تعلیم کا حصول لازم ہے تاکہ، بچے اپنی بنیادی اقدار سے واقفیت حاصل کرسکیں۔ حکومت ِ ایران اس بات کی مستقل کوشاں رہتی ہے کہ ، وہ ایسی تمام اقدار جو بنیادی اسلامی تعلیمات کے مخالف یا مقامی روایات کے برعکس ہوں ان کی حوصلہ شکنی کی جائے اور تمام قسم کے مذہبی تہوار اور دیگر ایسی چیزوں کو سکول اور کالجز میں فروغ دیا جائے۔
مآخذ:
https://en.wikipedia.org/wiki/Education_in_Iran
http://countrystudies.us/iran/61.htm
https://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_Republic_of_Iran_Army_Ground_Forces
https://www.strausscenter.org/hormuz/iranian-military.html
https://www.bbc.com/news/world-us-canada-36431160
https://www.refworld.org/pdfid/4b41bca92.pdf
file:///C:/Users/Dell/Downloads/Kurun_Ismail._Iranian_Political_System_M.pdf
https://www.theguardian.com/world/2016/jun/10/ayatollah-khomeini-jimmy-carter-administration-iran-revolution
https://english.alarabiya.net/en/views/news/middle-east/2017/02/09/Khomeini-s-revolution-and-CIA-declassified-documents