شیر گھاس پر چلنا پسند نہیں کرتا کہ کہیں کانٹا اس کے نرم پاؤں میں نہ چبھ جائے۔ وہ میدان کا درندہ ہے جانور فطرت کےمدرسے کے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور ہم میدان سے بھاگ کر جنگل کی لمبی لمبی گھاس پر چلنے کے خواہش مند بنی نوع انسان ۔ لامحالہ کورونا کے کانٹوں سے اپنے پاؤں زخمی کربیٹھتے ہیں لیکن باز تب بھی نہیں آتے۔
ہم مشکل پسند نہیں سہل پسندہیں۔ہماری سہل پسندی تو ماں کی گود سے ہی شروع ہوجاتی ہے ہم میں سے شائد ہی چند ایک دودھ چوس بچے رہے ہوں گے ورنہ تو اکثریت کے منہ میں پیدائش کے ساتھ ہی چھ انچ کا فیڈر ٹھونس دیاگیا تھا جہاں سے ہم غٹا غٹ دودھ پیتے گئے اور بڑھتے گئے یہ سہل پسندی کی ابتدا نہیں تو کیا ہے؟ ڈائپر بے بی جب بڑا ہوتا ہے تو خلاصے اور گائید بک کی آسانیاں ملتی ہیں مزید بڑے ہوتے ہیں تو شارٹ کٹ کے اور کئی سبک رفتار گھوڑے اصطبل میں ہمارے منتظر ہوتے ہیں اور ہم بھی پھدک پھدک کران پرسوار ہونے میں لمحہ بھر کا تامل نہیں کرتے ۔ ان میں سے جب کوئی گھڑ سوار سیاست کے دشت میں نکلتا ہے تو حصو ل اقتدار کے لئے ایسےان نادیدہ کھونٹوں سے بندھنا پڑتا ہے جن کے ساتھ پڑے خاکی گملوں میں پنیری ہی پنیری ہوتی ہےیہ شاہسوار گھوڑے سے اترتا ہے اور اس گملے کی زینت بننا پسند کرتا ہے جس کا ننھا منا پودا کبھی درخت نہیں بن پاتا وہ بظاہر بڑا ہوتاہے لیکن اندر سے پنیری خاصیت ہی رکھتا ہے ایسے میں جب مشکل حالات آتے ہیں توکوئی اپنا سر کٹوا بیٹھتا ہے اور جسے سر پیارا ہو وہ جدہ پہنچ جاتا ہے۔ یہ سروری سیاست جب خودساختہ نظریاتی ہو جاتی ہے تو لندن اس کے بیمار جسم کو دعوت علاج دیتا ہے لیکن پھر پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ چھ مہینے سےفرنگ کی گوری فضا میں رہنے والے بنا علاج کے ہیں تو دشمنوں کے سینے پر مونگ دلنے لگتی ہےلیکن وہ مصلحت کورونا کے باعث خاموش ہیں۔خیر!بات شیر سے چلی تھی اور شیرِ سیاست پر پہنچ گئی لیکن ہماری سیاست میں اور کئی دبنگ شیر بھی ہیں جو اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرتے تھے۔ جو فرماتے تھے کہ چیئرمین نیب کی کیا مجال ہے انہیں گرفتار کرنے کی ۔جو کہتے تھے کہ حکومت گرانا ان کےبائیں ہاتھ کا کھیل ہے جو 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ بھی کہتے تھے لیکن باریش برخوردار کو اسی ایوان کی زینت بھی بنائےرکھتے ہیں۔
کورونا کی سیاست کا کرشماتی اثر ہمارے کرشماتی لیڈر کے گر د بھی ہالہ بنائے ہوئے ہے جنہیں یہ علم نہیں کہ آگے کیا ہونا ہے لیکن وہ روز نئے فیصلوں کی بوری لاد کر آ جاتے ہیں ۔لاک ڈاؤن کا منترا بھی خوب ہے لیکن اس میں قصور ہم عوام کا بھی ہے۔ شروع شروع میں سب نے پابندی کی لیکن جب حکومت نے نرمی دکھائی تو خلقت نے اس نرمی کو مزید نرم کردیا اور جب خان اعظم نے یہ کہا کہ ڈنڈے کے زور پر اس کا نفاذ ممکن نہیں تو اس بیان سے وہ مزید شیر ہو گئے۔ ہم بنیادی طور پر’’ ڈنڈا ڈرو‘‘ قوم ہیں ۔ سیاست کے جنگل میں نرم اورلچکدار شاخوں کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن ساتھ میں سخت ڈنڈا بھی رکھنا پڑتا ہے تاکہ سرپھروں کا بروقت اور حسب ضرورت علاج ہوسکے ۔
مانا کہ ہمارے ناتجربہ کار وزیراعظم کے لئے کورونا پہلا پل صراط ہے جس پر وہ بظاہر کسی منجھے ہوئے مسافر کی طرح چل رہے ہیں لیکن انہیں اس پل پر سے سب کو بحٖفاظت گزارنا بھی ہے ۔ اللہ انہیں سرفراز کرے تسبیح تو ویسے بھی وہ ہر پل پڑتے ہیں اچھا ہو کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وہ اپنے اتحادی داناؤں کو بھی سینے سے لگا کر رکھیں اور ان کو بھی جنہیں سیاست کی زبان میں حزب اختلاف کہتے ہیں۔
حزب اختلاف کی بات چل نکلی تو کیا ن لیگ اور کیا پیپلز پارٹی عہد کورونا میں سب ہی نے اختلاف کا تڑکہ لگایا ۔ ہمارے چھوٹے میاں صاحب لندن سے یوں بھاگے بھاگے آئے جیسے پاکستان پہنچ کر انہوں نے لمبے لمبے بوٹ پہننے تھے، فرنگی ٹوپی زیبِ سر کرنا تھی اور کورونا کے سمند ر میں اتر کر بے سہارا پاکستانیوں کا سہارا بننا تھا ۔ یہ بھی منصوبہ خاص تھا کہ دوچار بار اپنی جذباتی انگلی ہلائیں گے تیوریاں چڑھائیں گے اور آنکھوں کی غضبناکی دکھائیں گے اور اسمبلی کے فلور پر ایک عدد دھواں دھار تقریر جھاڑیں گے تو کورونا چھومنتر ہوجائے گا لیکن ہائے رہ قسمت، نو من تیل کے باوجود ہمارے مردانہ رادھا نے اپنے جوہر خاص نہیں دکھائے لیکن یار زندہ صحبت باقی ۔ ویسے بھی میاں صاحب یاروں کی یاری اور مہربانوں کی مہربانی پر یقین رکھنے والے سیاست دان ہیں ۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں کسی فون کال کا انتظار ہے ویسے تو وہ خود بھی ایک خاص ملاقات میں فرما چکے ہیں کہ 2018 کے انتخابات سے ایک مہینے پہلے تک ان کی طاقت ور حلقوں سے ملاقاتیں ہوتی رہی تھیں اور ن لیگ کی کابینہ تک حتمی ہو چکی تھی پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا ایسا جھکڑ چلا کہ ان کی گڈی اس میں پھنس گئی۔خاطر جمع رکھیں جب تک کورونا ئی سیاست کے جرثومے ہمارے اندر ہیں ہماری پھٹی پرانی پتنگ کسی بھی وقت اڑ سکتی ہے۔
( شہزاداقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے گزشتہ20سال سےحالت سفر میں ہیں۔ان دنوں 92 نیوز چینل میں پڑاؤ کررکھا ہے۔)