بھارت کے دارالحکومت دہلی میں بھارتی آرمی چیف کےٹریفک چالان پرسوشل میڈیا پرطرح طرح کے تبصرےاورموازنے کئے جارہے ہیں۔کچھ افراد نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا پاکستان میں کسی جنرل کا چالان ممکن ہے؟اوراگر کوئی یہ گستاخی کر ہی دے تو کیا وہ اپنی ملازمت پر قائم رہ سکتا ہے؟آج تک کا تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ پاکستان میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے لیکن متعلقہ سوال یہ ہے کہ ایسا ممکن کیوں نہیں ہوسکا۔ اس سوال کی جڑیں ہماری قیادت اوربھارت کی سیاسی قیادتوں کے ارتقا،نشوو نمااوران قیادتوں کے سیاسی اہداف اورمقاصد میں تلاش کرنا ہوں گے۔
بھارت کی پیدائش ایک جمہوری ریاست کے طورپرہوئی تھی۔ بھارت کی جمہوری قیادت بہت قدآورتھی اوراسے خود پربہت زیادہ بھروسہ اوراعتماد تھا۔ وہ بیوروکریسی خواہ سویلین تھی یافوجی دونوں کوسیاسی قیادت کے تابع رکھنے پر متفق اوریکسوتھی۔ کسی سول سرونٹ کی کیا مجال تھی کہ وہ نہرو یا سردار پٹیل کے روبرو چوں چراکرسکتا۔ نہرو، پٹیل اور(ابوالکلام)آزاد طویل سیاسی جد وجہد اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرکے آزاد بھارت کے راج سنگھاس پربراجمان ہوئے تھے۔انھیں ڈکٹیٹ کرنے کی ہمت اورجرات کسی سرکاری افسر میں نہیں تھی۔
اس کے برعکس قیام پاکستان کی داعی قیادت حادثاتی سیاسی پس منظرکی حامل تھی۔
یہی وجہ ہےکہ قیام پاکستان کے بعد پہلی وفاقی کابینہ میں تین افراد ایسے تھے جو باقاعدہ انگریز کے خطاب یافتہ تھے۔
وزیر خارجہ سرطفراللہ خان برطانیہ کے چہیتے تھے۔ وزیر خزانہ سر ملک غلام محمد جنھوں نے سرکے خطاب کو چھپایا تھا۔ چوہدری محمد علی جنھیں ایک خصوصی عہدے سیکرٹری جنرل پر فائز کیا گیا تھا، انگریز سرکار کے خطاب یافتہ تھے۔ سردارعبد الرب نشتر جو پہلے خاکسار تھے پھر انگریز گورنر کے ایما پرمسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔ راجہ غضنفر علی خان جو 1946 تک یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے یکا یک مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے اورپہلی وفاقی کابینہ کے رکن تھے۔
پاکستان کا قیام ایک جمہوری کی بجائے ایک گریژن سٹیٹ کے طور پر ہوا تھا یہاں پہلے دن ہی سے سول سرونٹس کی حکمرانی تھی سیاسی قیادت بہت کمزور اور انگریز سرکار کے پسماندگان پر مشتمل تھی۔ ان کےاقتدار کا انحصار ان کی سیاسی قوت نہیں بلکہ انگریز بیوروکریسی کا مرہون منت تھا۔ پاکستان کا سیاسی ارتقا کچھ اس طور ہوا کہ یہاں سویلین اور فوجی اشرافیہ کو غلبہ حاصل ہونا قدرتی تھا۔ گریژن سٹیٹ کی کسٹوڈین فوج ہوتی ہے۔ پاکستانی ریاست کی کسٹوڈین فوج ہے اس پر کوئی گرفت نہیں کرسکتا۔ ہماری ریاست اوراس کے مالکان کا موازنہ بھارت کی جمہوری ریاست سے نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان کا قیام چونکہ گیریژن سٹیٹ کے طورپر ہوا تھا اس لئے یہاں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی تشکیل اور انھیں مضبوط بنانا ریاست کے قیام کے مقاصد سے متصادم تھا۔ ملکی قیادت اور بین الاقوامی قوتیں پاکستان میں جمہوری سیاست اور جمہوری جدوجہد کی حوصلہ شکنی کرنے اورآمرانہ قوتوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں یکسو تھیں۔ ہر فوجی مارشل لا اورغیر جمہوری تبدیلی کو کھلے طورپر یا ملفوف انداز میں امریکہ،برطانیہ اوران کے حواری ممالک نے سپورٹ کیا اور ان غیر جمہوری حکمرانوں کو ان ممالک نے جیوسٹریٹجک مقاصد کے حصول کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا اوران کے فوائد سے پوری طرح مستفید ہوئے پاکستان افغانستان میں سی۔آئی۔اے کے جہاد میں تعاون کرتا ہے تو امریکہ کو پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔آج بھی امریکی سفارت کار ملاقات اور مذاکرات کے لئے فوجی قیادت کوسول قیادت پر ترجیح دیتےہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کام تو اس قیادت ہی نے کرنا ہے سول قیادت تو محض انگوٹھا چھاپ ہے۔
پاکستان میں حقیقی معنوں میں جمہوریت اورجمہوری اداروں کے قیام کے امکانات کچھ زیادہ روشن نہیں ہیں۔ چین سے مغرب کی تجارتی مناقشت، افغانستان میں طالبان یورش اور ایران سے موجود تناؤ پاکستان میں جمہوریت کے قیام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جمہوری حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ دیدہ دلیری اور کھلے عام اپنے عوام کے مفادات سے متصام فیصلے کرسکے کیونکہ اس نے جلد یا بدیر عوام کو جواب دہ ہونا ہوتا ہے جب کہ اس کے برعکس غیرمنتخب ریاستی عہدیداروں کے نزدیک عوام اور ان کے مفادات نام کی کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی ان کے لئے عوامی مفادات سے زیادہ اپنے ادارے کے مفادات زیادہ سپریم اورمقدم ہوتے ہیں۔
پاکستان میں اسی طرح کی کنٹرولڈ جمہوریت چلتی رہے گی خالص اور مصفا جمہوریت کی منزل ابھی دور ہے۔